دوران حمل کب‘ کون سے ٹیسٹ؟

غیرصحت مند طرز زندگی‘ خاندانوں میں شادیوں کے تسلسل اور دیگر وجوہات کی بنا پر دوران حمل پیپچدگیوں کی شرح بڑھ رہی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ حاملہ خواتین اس عرصے میں اپناطبی معائنہ کراتی رہیں تاکہ کسی ممکنہ پیچیدگی سے بروقت آگہی اور علاج کو ممکن بنایا جا سکے ۔زیر نظر مضمون میں فریحہ فضل ان ٹیسٹوں کے بارے میں بتا رہی ہیں جو حمل کے دوران اکثر تجویز کئے جاتے ہیں


درشہوار میری بہت اچھی سہیلیوں میں سے ایک ہے جو آج کل امید سے ہے ۔پہلی بار ماں بننے کا تجربہ جہاں خوش کن ہوتا ہے اور من میں لڈو سے پھوٹنے لگتے ہیں، وہاں یہ بہت سے تفکرات کا حامل بھی ہوتا ہے ۔اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ ایک دن اس کی کال آئی :

”میرا میکہ اور سسرال، دونوں پنجاب میں ہیں اور میں اپنے میاں کی اوجی ڈی سی میں ملازمت کی وجہ سے سندھ میں ہوں۔ پہلی بارکا تجربہ ہے، اس لئے اس بارے میں کچھ علم ہے نہ سمجھ۔ اس لئے سخت پریشان ہوں ۔مجھے بتاﺅ کہ میں کیا کروں؟“
میں اس بارے میں جو کچھ جانتی تھی‘ ہلکے پھلکے انداز میں اس کے گوش گزار کر دیا۔ بعد میں اس نے بتایا کہ ایک دن اس کی طبیعت خراب تھی لہٰذا وہ اپنی ایک دوست مسزاکبر کے ساتھ گائناکالوجسٹ(ماہر زچہ وبچہ) ڈاکٹر ناصرہ کے پاس چلی گئی جو اوجی ڈی سی میں اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ڈاکٹر نے ابتدائی معائنے کے بعد حمل سے متعلق کچھ ٹیسٹ تجویز کئے۔وہ مسز اکبر کی دوست تھیں لہٰذا تھوڑی ہی دیر میں درشہوار سے بھی بے تکلف ہوگئیں۔ درشہوار نے ان سے پوچھا کہ یہ کس قسم کے ٹیسٹ ہیں، کس لئے کئے جاتے ہیںاور کون سے ٹیسٹ کب اور کس ماہ کروانے چاہئیں؟
ڈاکٹر ناصرہ اس کی بے چینی پر مسکرائیں۔ انہوں نے اس کے تجسس اور فکرمندی کو سراہا اور کہا کہ پہلی بار ماں بننے والی خواتین کو حمل سے متعلق ٹیسٹوں سے نہ صرف آگاہ ہونا چاہ¿یے بلکہ اگرڈاکٹر تجویز کرے تو وہ لازماًکروانے بھی چاہئیں:
”ایسا کرنے سے اکثر صورتوں میں کسی بڑی تکلیف یا پریشانی سے بچاجاسکتا ہے۔اور اگرخدانخواستہ کوئی پیچیدگی لاحق ہو جائے تو بروقت تشخیص اس کے علاج میں معاون ثابت ہوتی ہے۔“
ان کے مطابق حمل کو محفوظ بنانے اور ماں اور بچے کی مناسب دیکھ بھال کے لئے درج ذیل ٹیسٹ ضروری ہیں:
پہلی سہ ماہی
پیشاب کا ٹیسٹ: یہ حمل کی تصدیق کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جسم میں انفیکشن کی موجودگی کا پتہ چلانے کے لئے بھی یہ ٹیسٹ ضروری ہے۔
خون کا ٹیسٹ: خون کے ٹیسٹ کے کئی مقاصد ہیں جن میں سے ایک ماں کا بلڈ گروپ معلوم کرنا بھی ہے تاکہ دوران زچگی کسی ایمرجنسی کی صورت میں اسے متعلقہ گروپ کا خون لگایا جا سکے ۔اس سے خون کی کمی anemia))اور ریسس (rhesus) کے بارے میں بھی جانا جاسکتا ہے۔’ریسس‘ بچے کے خون میں سرخ ذرات کی وہ کمی ہے جو اس کے اپنے اورماں کے بلڈگروپ مختلف ہونے کے سبب ہوتی ہے۔
خون کے ٹیسٹ سے گائناکالوجسٹ دوباتوں کاخاص طور پر پتا لگانا چاہتی ہے۔ ان میں سے پہلی ’پی اے پی پی۔اے ‘نامی پروٹین اور دوسری ایک ہارمون ’ایچ سی جی کی موجودگی ہے۔
الٹراساﺅنڈ: پہلی سہ ماہی میں کیا جانے والا الٹراساﺅنڈ حمل کی تصدیق کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعداد‘ ناڑو کی ساخت اور رحم سے باہر حمل کے علاوہ بچہ دانی کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے۔’این ٹی سکین‘ نامی الٹراساﺅنڈ میں بچے میں متوقع پیدائشی نقائص کے متعلق معلوم کیاجاتا ہے۔اگر نتائج میں الجھاﺅ ہو تومزید ٹیسٹ بھی تجویز کئے جاتے ہیں۔
دوسری سہ ماہی
جب ڈاکٹر ناصرہ پہلی سہ ماہی کے ٹیسٹ بتا چکیں تو درشہوار کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ دوسری سہ ماہی میں اہم ٹیسٹوں کے بارے میں پوچھ لیا جائے۔ آج وہ ذرا فارغ تھیں‘ کل معلوم نہیں کہ اس کا موقع مل سکے یا نہیں۔اس کے استفسار پر وہ بولیں:
”جی بیٹا! دوسری سہ ماہی میں بھی خون کے متعدد ٹیسٹ کئے جاتے ہیں جنہیں (multiple markers)کہتے ہیں۔یہ ٹیسٹ بھی وراثتی بیماریوں کے متعلق جانچ کرتے ہیں۔ان کے لئے حمل کے16ویں سے18ویں ہفتے کے دوران خون کا نمونہ لیا جاتاہے۔“

اس عرصے میں جو ٹیسٹ کئے جاتے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
اے ایف پی: جنین کا جگر خاص طرح کی پروٹین پیدا کرتا ہے جو اے ایف پی (alpha-fetoprotein) کہلاتی ہے ۔یہ امنیاٹک مائع (amniotic fluid) میں پائی جاتی ہے۔ یہ مائع جنین اور اس کی جھلیوں کا پیدا کردہ ہے اور حمل کے دوران جنین کے گرد موجود رہتا ہے۔ اے ایف پی ناڑو سے ہوتا ہوا ماں کے خون میں شامل ہوجاتی ہے۔اسے ایم ایس اے ایف پی (Maternal Serum Alpha-Fetoprotein)
بھی کہاجاتا ہے۔اس کی غیر معمولی مقدار نیورل ٹیوب کے نقائص مثلاً ڈاﺅن سینڈروم کا باعث بن سکتی ہے۔اس لئے اس کا ٹیسٹ بھی ضروری ہوتا ہے۔
اگر جڑواں بچوں میں سے ایک میں یہ پروٹین بن رہی ہو تودوسرے میںاس کی تصدیق مزید ٹیسٹوں اور سکریننگ کی مدد سے کی جاتی ہے۔ اس کے لئے امنیاٹک مائع کا نمونہ لےا جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ حمل کے 15سے20ہفتوں کے دوران کیاجاتا ہے۔
گلوکوز ٹیسٹ: حمل کے 24سے28ویں ہفتے کے دوران خون میں گلوکوز لیول چیک کیاجاتا ہے۔اس سے دوران حمل ذیابیطس (gestaional diabetes) کا پتہ چلایا جاتا ہے۔
جی بی ایس: جی بی ایس (Group B Streptococcus) ایک انفیکشن ہے جو اگر دوران حمل ہو جائے تو قبل از وقت درد زہ یا زچگی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس سے نوزائیدہ بچوں کو گردن توڑ بخار اور نمونیاہو سکتا ہے جس سے ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ امریکہ میں بیماریوں پر قابو اور ان سے بچاﺅ کے متعلق ادارے ’سی ڈی سی‘ کے مطابق ہرحاملہ خاتون کو 35سے37ہفتوں کے دوران اس کا ٹیسٹ ضرور کرانا چاہئے۔
الٹراساﺅنڈ : دوسری سہ ماہی میں کیا جانے والا الٹراساﺅنڈ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے جو غیرمعمولی صورت حال جاننے کے لئے کیا جانے والا الٹراساﺅنڈ(anomaly scan) کہلاتا ہے۔ اس سے بچے میں کسی غیر معمولی صورت حال کی جانچ‘ امنیاٹک مائع کی مقدار کا تعین اور بچے کی نشوونما کا تفصیلی جائزہ لینے کے علاوہ بچے دانی((uterus کی گردن کی لمبائی کی پیمائش بھی کی جاتی ہے۔
تیسری سہ ماہی
آخری سہ ماہی میں کئے جانے والا الٹراساﺅنڈ بچے کی صحیح پوزیشن‘اس کی نشوونما اورناڑوکے بارے میں صورت حال بتاتا ہے۔الٹراساﺅنڈ کی دواقسام ہیں۔ پہلا پیٹ کاہے جس میں اس کے اندرونی اعضاءکو جانچا جاتا ہے۔ دوسرا الٹراساﺅنڈ اندام نہانی کا (transvaginal) ہوتاہے۔اس میں آلے کو اندام نہانی کے اندر داخل کرکے تصویر لی جاتی ہے۔آج کل تو3Dاور4Dالٹراساﺅنڈ بھی ہوتے ہیںجس میں صرف شبیہہ کی بجائے بچے کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
”ڈاکٹر صاحبہ! کیا اس میں تھیلیسیمیا کے بارے میں بھی معلوم ہوجاتا ہے۔“ درشہوار کو کئی طرح کے دھڑکے لگے ہوئے تھے۔
”جی ہاں، کیوں نہیں!“ ڈاکٹر ناصرہ نے کہا:
”الٹراساﺅنڈ اور ٹیسٹوںکی مدد سے پٹھوں کے نقائص‘ تھیلیسیمیا‘
ہیموفلییا‘ ہیپاٹائٹس‘ سکل سیل انیمیا(sickle cell anemia) اورپی سی کے ڈی (polycystic kidney disease)کی تشخیص بھی کی جا سکتی ہے۔“
ڈاکٹر نے تسلی دی اور سلسلہ گفتگو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ زچگی یا حمل کے اختتام پرگائناکالوجسٹ بچے کے دل کی دھڑکن اور دوسرے افعال کا معائنہ کرتی ہے۔ اگر ھڑکن کم ہو تو اس کا مطلب ہے کہ بچے کو مناسب مقدار میں آکسیجن نہیں مل رہی اور یہ بچے کے لئے ہنگامی صورت حال ہے۔ زچگی کے عمل کی ڈوپلر (doppler) الٹراساﺅنڈکی مدد سے بھی نگرانی کی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہر طبی معائنے پر حاملہ خاتون کا بلڈ پریشر، وزن اور ٹمپریچر لیاجاتا ہے۔ اسی طرح فنڈل ہائیٹ (fundal height) کی پیمائش بھی کی جاتی ہے جو یوٹرس کا سائز ہوتی ہے۔ یہ پیمائش حمل کے 20ویں ہفتے کے بعد کی جاتی ہے۔ اگر ڈاکٹر ضرورت محسوس کرے تو بچے کی حرکات (kicks)کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے، اس لئے کہ اگر بچہ معمول کے مطابق حرکت نہ کررہا ہو تویہ خطرے کی بات ہے۔اگر حاملہ خاتون کی عمر35سال سے زائد ہو تو چند خصوصی ٹیسٹ بھی کروائے جاتے ہیں۔
”کیا یہ ٹیسٹ کرانا ضروری ہیں؟“ درشہوار نے پوچھا ”یہ سب حمل کو محفوظ بنانے کے لئے ہیں۔ ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ یہ ٹیسٹ اور الٹراساﺅنڈ وغیرہ دستیاب ہیں۔ ورنہ کتنے ہی بچے بن کھلے مرجھا جایا کرتے اور ماﺅں کو اس کا سبب بھی معلوم نہ ہوتا تھا۔ ان کی مدد سے اب بروقت تشخیص ہو پاتی ہے اور بہت سی صورتوں میں پیچیدگیوں سے بروقت نمٹ لیا جاتا ہے۔“
درشہوار اور مسز اکبر نے اتنی قیمتی معلومات پر ڈاکٹر کا شکریہ ادا کیا۔اس کے بعد دونوں نے رخصت چاہی۔گھرجاتے ہوئے درشہوار سوچ رہی تھی کہ ہم ہونی کو تو نہیں ٹال سکتے مگراحتیاطی تدابیر اور مکمل آگاہی سے بہت سے ممکنہ خطرات اور تکالیف سے بچاجاسکتا ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

Playing those Mind Games

Read Next

لنچ باکس کیسا ہو

Leave a Reply

Most Popular