Vinkmag ad

نوعیت، پرہیز اور علاج جوڑ میں درد

ڈھوک کالا خان (راولپنڈی) کی رہائشی 65سالہ نسیم اختر کو گزشہ چار سال سے گھٹنوں، کمر، بازوﺅں اور ہاتھ کی انگلیوں کے جوڑوں میں شدید درد رہتا ہے
”میرے گھٹنوں میں تو اتناشدیددرد ہوتا ہے کہ کھڑے ہوکر نماز نہیں پڑھ سکتی لہٰذا اس کے لئے کرسی پر بیٹھنا پڑتا ہے ۔بعض اوقات ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ چارپائی سے نیچے پاﺅں بھی نہیں رکھ سکتی ۔“

نسیم اپنی اس تکلیف کی وجہ سے پریشان رہتی ہیں ۔ وہ اس کا سبب نہیں جانتیں تاہم اسے بڑھاپے کے ساتھ وابستہ ایک مسئلہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں
” مانتی ہوں کہ میری عمرکچھ زیادہ ہے لیکن مجھ سے بھی زیادہ عمر کی عورتیں یہاںموجود ہیںجو بالکل ٹھیک ہیں۔ ڈاکٹروں سے اس کی وجہ پوچھیں تو وہ کچھ نہیں بتاتے اور کہتے ہیں کہ دوائیں کھاتی جاﺅ، ٹھیک ہو جاﺅ گی ۔ میں گولیاں اورکیپسول کھاتی رہوں تو چلتی رہتی ہوں اور چھوڑ دوں تو ایسی بیٹھ رہتی ہوں کہ اٹھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے ۔ “

وہ جس مرض میں مبتلا ہیں‘ اسے میڈیسن کی زبان میں آرتھرائٹس  جبکہ عرف عام میں ”جوڑوں کا درد“ کہتے ہیں۔ اس کیفیت میں جوڑوں یا ان کے ارد گرد کی جگہ پر درد ہوتا ہے‘ وہ سخت ہو جاتے ہیں یا ان میں سوجن ہوتی ہے۔پاکستان میں اس بیماری کے بڑے پیمانے پر پھیلاﺅ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں تقریباً14ملین افراداس کا شکار ہیں۔ ان میں سے نصف کی عمریں 60 سے 65 سال کے درمیان ہیں۔
جوڑ، انسانی جسم اور زندگی میں خاص اہمیت کی حامل چیزہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایوب میڈیکل کالج ایبٹ آباد میں شعبہ امراض ہڈی و جوڑ بی یونٹ کے انچارج اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عالم زیب خان سواتی کہتے ہیں:

”انسانی زندگی میں اہم ترین چیز حرکت ہے جسے ’جوڑ‘ ہی ممکن بناتے ہیں۔انہی کی مدد سے ٹانگیں اور پاﺅں حرکت کرتے ہیں اور انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتا ہے۔ ہاتھ کے چھوٹے جوڑوں کی مدد سے کسی چیز کو پکڑنا‘لکھنا اور دیگر کام کرنا ممکن ہوتا ہے۔ انسانوں کی طرح ان کے جوڑ بھی زندہ ہوتے ہیں۔ آغاز میں وہ چھوٹے ہوتے ہےں اور جوں جوں فرد بڑا ہوتا جاتاہے، جوڑ بھی بڑے ہوتے چلے جاتے ہیں اور پھر بڑھاپے میں یہ گھس جاتے ہیں۔ بچوںکے جوڑ بڑوں جتنے ہی مضبوط ہوتے ہیں تاہم کسی بیماری یا حادثے کی وجہ سے وہ متاثر ہوسکتے ہیں۔“

جوڑوں کا دردکیا ہے
سیدشمیم الدین احمد جوڑوں کے ڈاکٹر  ہیں اور ڈی ایچ اے کلینک خیابان راحت کراچی میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔جب ان سے پوچھا گیا کہ جوڑوں میں درد کیوں ہوتا ہے تو جواب میں انہوں نے کہا:
”ہر جوڑ دو ہڈیوں سے مل کر بنتا ہے جن کے درمیان ایک جھلی نما چیزہوتی ہے جسے نرم یا کرکری ہڈی کہتے ہیں۔ اس میں سے قدرتی طور پر رطوبت نکلتی ہے جس سے جوڑ چکنا ہوجاتا اور باآسانی حرکت کرتا ہے۔ اگر اس ہڈی کو نقصان پہنچے تو رطوبت کا اخراج بھی متاثر ہوتا ہے جس کی وجہ سے جوڑ ٹھیک طرح سے حرکت نہیں کرپاتا۔یہ ایسا ہی ہے جیسے مچھلی کو کسی ایسے برتن میں ڈال دیا جائے جس میںپانی نہ ہو تورگڑ کی قوت کی وجہ سے اسے چلنے میں دقت ہو گی۔اس کے علاوہ جوڑوں میں سوزش بھی ہوجاتی ہے جس کی وہ سے وہ سوج جاتے ہیں۔ اس کیفیت کو آرتھرائٹس کہتے ہیں۔“
دردکی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نرم ہڈی پر اعصاب کے سرے  ہوتے ہیں۔ رگڑ کے سبب یہ نمایاں ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں درد ہوتا ہے ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے دانتوں میں کیڑا لگ جائے تو ان کی تہوں میں اعصاب کے سرے سامنے آجاتے ہیں جس سے ان میں درد ہوتا ہے ۔

اسباب اور وجوہات
اس وضاحت کے بعد اگلا سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ایسی کیفیت کیونکر پیدا ہوتی ہے جس میں جوڑ درد کرنے لگتے ہیں۔ جواب میں ڈاکٹر شمیم الدین احمد کہتے ہیں کہ ایسا عمر میں اضافے ، ان سے لاپرواہی ‘ ان کے غلط استعمال یا کسی بیماری کی وجہ سے ہوتا ہے :
”کھلاڑی حضرات یا ان لوگوں میں اس کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جو زیادہ گرتے پڑتے ہیں۔یہ ایسا ہی ہے جیسے اگر گاڑی کو زیادہ لاپرواہی سے چلایا جائے اور کھڈوں وغیرہ کی پرواہ نہ کی جائے تو اس کے جوڑ جلدی خراب ہو جاتے ہیں۔جوانی میں جولوگ ’ویٹ لفٹنگ‘ کرتے ہیں، انہیںبھی بعد میں یہ درد زیادہ ہوتا ہے ۔موٹاپا بھی اس کا ایک بڑا سبب ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرد کا اضافی بوجھ جوڑوں کوہی اٹھانا پڑتاہے جس سے انہیں نقصان پہنچتا ہے ۔“
جب ان سے علاج کی بابت سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس کا تعلق جوڑوں کے درد کی مخصوص قسم سے ہے ۔ اس کی بہت سی اقسام ہیں جن میں سے پہلی اور سب سے عام قسم کا درد وہ ہے جس کا تعلق بڑھتی عمر کے ساتھ ہے ۔ یہ ریڑھ کی ہڈی میں خرابی کے ساتھ ساتھ قریب کی دیگر ہڈیوں بالعموم کولہے ، گھٹنے اور انگوٹھوں کے جوڑوں میں بھی درد کا باعث بنتاہے۔مرض کی اس قسم میں گھٹنوں، ایڑی ،کولہے اورکندھے وغیرہ جیسے بڑے جوڑ متاثر ہوتے ہیں۔اسے جوڑوں کا پرانا درد کہا جاتا ہے۔
دوسری قسم کاجوڑوں کا درد وہ ہے جو زیادہ تر نوجوانی میں ہوتا ہے۔اس میں ہاتھوں اورپاﺅں کی انگلیوں اور کلائیوں وغیرہ کے چھوٹے جوڑ شامل ہیں۔یہ روماٹائیڈ آرتھرائٹس  کہلاتا ہے ۔
تیسری قسم وہ ہے جس میں ہڈیاںبھربھری ہو جاتی ہیں اور جلد ٹوٹ جاتی ہیں ۔اس مرض میں مبتلا افراد کو فریکچر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ یہ مرض خواتین میں زیادہ ہے‘ خصوصاً ان خواتین میں جو زیادہ دفعہ حمل کے تجربے سے گزری ہوں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ہڈیوں میں سے کیلشیم زیادہ نکل جاتا ہے جس سے اس کی کمی ہو جاتی ہے۔ اسے ہڈیوں کا بھربھرا پن کا نام دیا جاتا ہے ۔ یہ آسٹیو آرتھرائٹس سے مختلف بیماری ہے ۔

کس کیفیت میں کون سا ڈاکٹر
ہمارے ہاں لوگوں کی بڑی تعداد امراض کو اس وقت تک ٹالتی رہتی ہے جب تک باقاعدہ علاج کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہے ۔ اس کی بڑی وجوہات مہنگائی، اکثریت کی کمزور قوت خرید، ترجیحات میں صحت کا مقام بہت نیچے ہونااور تعلیم کی کمی ہےں ۔جب علاج کی نوبت آتی ہے تو آغاز ٹوٹکوں وغیرہ سے ہوتا ہے جس کے بعد مستند ڈاکٹرتک رسائی کی باری آتی ہے ۔جہاں پرائمری ہیلتھ کئیر کا نظام پختہ اور فعال ہو، وہاں مریضوں کو یہ پریشانی نہیں ہوتی کہ انہیں کس ڈاکٹر کے پاس جانا ہے ۔ پاکستان میں یہ نظام چونکہ بری طرح متاثرہے، اس لئے لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ بیماری کی صورت میں کس ڈاکٹر کے پاس رجوع کیا جائے۔ جوڑوںکے درد سے متعلق دو شعبے ہیں۔ ان میں سے پہلا جوڑوں کے امراض  اور دوسرا شعبہ امراض ہڈی و جوڑ ہے۔ ڈاکٹر شمیم کہتے ہیں:
” ابتدائی طور پر مریض کو’روماٹالوجسٹ‘ کے پاس ہی جانا چاہئے۔ وہی اس بات کا اندازہ لگائے گا کہ جوڑوں کا درد کس قسم کا اور کس مرحلے پر ہے ۔ اگردواﺅں، ورزش یا فزیو تھیراپی سے آرام نہ آ رہا ہو تو پھراس کا حل یہ ہے کہ متاثرہ جوڑ کو نکال کر مصنوعی جوڑ لگا دیا جائے ۔ اس سے متعلق تمام امور کے لئے ماہر امراض ہڈی و جوڑ (آرتھو پیڈک سرجن )کے پاس جانا چاہئے۔

 

تشخیص اور علاج
ڈاکٹرشمیم الدین احمد کہتے ہیں کہ تشخیص کے لئے سب سے اہم پہلو مریض کی ہسٹری ہے۔ ان کے مطابق جب کوئی مریض ڈاکٹر کے پاس آکر بتاتا ہے کہ اسے جوڑوں میں درد ہے تولامحالہ اس سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ اسے کن جوڑوںمیں دردہے؟ مثلاً وہ بتاتا ہے کہ اس کے گھٹنوں میں دردہے ۔ معالج اس کی عمر کو دیکھتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ وہ موٹا ہے یا پتلا، مرد ہے یا عورت اورماضی میں اس کی وہ سرگرمیاںکیا رہی ہیں جن کا تعلق جوڑوں کے درد سے ہو سکتا ہے ۔
اگر وہ نوجوان آدمی ہے اور اس کی کلائی یا انگلیوں میں درد ہے تو اسے ’روماٹائڈ آرتھرائٹس ‘ہوگااورمریض اگربڑی عمر کا ہوتو اس میں ’آسٹیوآرتھرائٹس‘ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔پھر معالج اس کے دونوں گھٹنوں کا معائنہ کرے گا جس کے بعد اس کے خون کا ٹیسٹ ہوگا جس میں ’سی بی سی‘ اور’ ای ایس آر‘ دیکھا جائے گا۔آسٹیو آرتھرائٹس میں ’ای ایس آر‘ بڑھا ہوا ہوگا۔ اگر مریض کے ایک گھٹنے میں درد ہو تو بھی دونوں گھٹنوں کا ایکسرے کروایا جائے گاتاکہ دونوں کا تقابلی جائزہ لیا جا سکے۔ اس میں یہ دیکھا جائے گاکہ دونوں جوڑوںکے درمیان کہیں خالی جگہ تو کم نہیں ہو گئی۔
’ آسٹیو آرتھرائٹس کا تعلق چونکہ عمر میں اضافے کے ساتھ ہے لہٰذا کرکری ہڈی کو پہنچنے والے نقصان کو پلٹانا ممکن نہیں ہوتا۔ کچھ ادویہ ساز کمپنیاںایسا کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ابھی تک یہ بات ثابت شدہ نہیں ہے۔ ایسے میں مریض کو این ایس اے آئی ڈی نامی ادویات دی جاتی ہیں ، کچھ ورزشیں بتائی جاتی ہیں اور مرض کی شدت کے مطابق دیگر دوائیں تجویز کی جاتی ہیں ۔ان کاوشوں سے مرض کنٹرول میں آ جاتا ہے لیکن وہ ختم نہیں ہوتا ۔ایسے میں ڈاکٹر کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ جو نقصان ہو گیا، اسے وہیں روک دیا جائے اوراسے مزید نہ بگڑنے دیا جائے۔ اس کے علاوہ بعض اوقات گھٹنے میں ایک انجکشن لگایا جاتاہے جواسے چکنا کر دیتا ہے ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے مشین میں اوپر سے تیل ڈال دیا جائے ۔اس طرح چھ سے آٹھ ماہ یا سال بھرکے لئے مسئلہ حل ہوجاتاہے ۔

 

جوڑکی تبدیلی، کب اور کیسے
ڈاکٹر عالم زیب سواتی کا کہنا ہے کہ گھٹنے اور کولہے کے جوڑوں کی تبدیلی کی شرح زیادہ ہے ۔کندھے اور کہنی کو بھی تبدیل کیا جاتا ہے لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے ۔ان سے پوچھا گیا کہ جوڑکی تبدیلی کب ضروری ہو جاتی ہے‘ جواب میں انہوں نے کہا:
” جب کسی بیماری کے سبب جوڑ کی دونوں سطحیں گھِس جائیں‘ ان میں ایسادرد ہو جوکسی صورت ختم ہونے میں نہ آ رہاہو‘ اس کی وجہ سے اس کی زندگی کی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہوں یعنی وہ نہ تو ٹھیک طرح سے نماز پڑھ سکتاہواور نہ آسانی سے واش روم تک جاسکتا ہو اور علاج کے لئے دواﺅں اور فزیو تھیراپسٹ کی مدد سے ورزش کا سہارا بھی لیا گیا ہو لیکن بات نہ بنی ہو توپھر بالآخر جوڑ کو تبدیل کرنا پڑتا ہے ۔اس سلسلے میں تازہ ترین رجحان یہ ہے کہ اس کی جگہ مصنوعی جوڑ لگا دیا جائے جو مختلف دھاتوں کا بنا ہوتا ہے ۔“
مذکورہ بالاگفتگو کو سمیٹتے ہوئے درج ذیل امور اہم ہیں:
٭ جوڑوں کے درد کی بڑی وجوہات میں بڑھتی عمر، اٹھنے بیٹھنے کے غلط انداز، غذائی بے اعتدالیاں ‘سورج کی روشنی کی شکل میں وٹامن ڈی سے محرومی ‘کچھ بیماریاں اور حادثات نمایاں ہیں۔
٭اگرجوڑوں کے گھس جانے کاسبب بڑھاپا ہو تواسے واپس نہیں پلٹایا جا سکتا۔ اس کا علاج دوائیں،ورزش یاپھر جوڑ کی تبدیلی ہے ۔
٭علاج کے لئے پہلے ’روماٹالوجسٹ‘ اور پھر ’آرتھو پیڈک سرجن‘ سے رابطہ کرنا چاہئے ۔

٭لوگوں کو چاہئے کہ بیماری سے پہلے صحت کو غنیمت جانیں اور باقاعدہ واک اور ورزش کو عادت بنائیں۔جوڑوں کے درد کی صورت میں 90 فی صد لوگ واک یا ورزش چھوڑ دیتے ہیں۔اگر لوہے کے دروازوں کو گریس نہ لگائی جائے تو انہیں زنگ لگ جاتا ہے اور پھر وہ کھلتے نہیں۔اسی طرح اگرجوڑوںکے درد کے مریض اس معاملے میں لاپرواہی برتیں گے توان کے جوڑ اکڑ جائیں گے اور بعد میں ان کے لئے کھڑا ہوناتک مشکل ہوجائے گا۔
٭سرخ گوشت کا زیادہ استعمال بھی اس کا ایک سبب ہے لہٰذا اس سے اجتناب کریں ۔عام گوشت بھی کم اور سبزیاں زیادہ کھائیں۔
٭ موٹاپے کا جوڑوںکے درد سے گہرا تعلق ہے‘ اس لئے اسے لازماً کنٹرول میں رکھیں۔
٭اگر آپ کی عمر زیادہ نہیں اور چھوٹے جوڑوں مثلاً ہاتھ اور پاﺅں کی انگلیوں یا کلائی میں درد خواہ کم ہی کیوں نہ ہو‘ ایک دفعہ ڈاکٹر کے پاس ضرور جائیں۔ اگر اسے نظرانداز کیا جائے تو کچھ ایسی بیماریاں لاحق ہونے کا خدشہ ہوتا ہے جو بتدریج بڑھتی چلی جاتی ہیں اور دیگر اعضاءکو بھی اپنی لپیٹ میں لے کر آپ کی زندگی کو متاثر کر سکتی ہیں۔

Vinkmag ad

Read Previous

اپنے منے کو کیا کھلائیں، کیسے کھلائیں

Read Next

سی سیکشن کی اے بی سی

Most Popular