Vinkmag ad

اپنے منے کو کیا کھلائیں، کیسے کھلائیں

صحت مند طرزِ زندگی کے دو بنیادی عوامل جسمانی سرگرمیاں اور صحت مندانہ غذائی عادات ہیں۔ ایک سے تین سال کے بچے چونکہ اپنی غذائی ضروریات کے لئے کلی طور پر والدین پر انحصار کر رہے ہوتے ہیں‘ اس لئے انہیں اچھی طرح سے سمجھنا اور حسب توفیق پورا کرنا ماں باپ کی اولین ذمہ داری شمار ہوتی ہے ۔
اکثر والدین میں غذاءکے بارے میں بہت سے غلط تصورات پائے جاتے ہیں ۔کچھ لوگ اچھا کھلانے سے پروٹین یا چکنائی کی حامل غذائیں یا اس کی زیادہ مقدار مرادلیتے ہیں۔ اسی طرح کچھ ایسے بھی ہیں جو احتیاط کے نام پرایسی سختی کرتے ہیں کہ ان کے بچے غذائیت سے بھرپوربہت سی اہم چیزوں سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ اس عمر کے بچوں کو کھانے پینے میں کوئی چیز منع نہیں بشرطیکہ وہ مضرصحت نہ ہو‘ تاہم والدین کو بچوں کے لئے نہ صرف درکارغذائی اجزاءکی درست مقدار کا علم ہوناضروری ہے بلکہ انہیں بچوں کی ترجیحات بھی پتہ ہونی چاہئےں تاکہ ان عوامل کی روشنی میں ان کے کھانے کابہتر اور قابل عمل معمول طے کیا جا سکے ۔

بچے کی مرضی کا برتن
زندگی کے پہلے سال میں نشوونما کی شرح باقی سالوں کی نسبت تیز ہوتی ہے۔دوسرے سال کے آغاز پربچے کی بھوک (پہلے سال کی نسبت)ذراکم ہو جاتی ہے جبکہ جسمانی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں۔ اب وہ نئی نئی چیزوں کا تجربہ کرنا چاہتا ہے اور اپنے لئے کچھ آزادی کی خواہش بھی رکھتا ہے۔ خود تجربہ کرنے کے شوق میں وہ برتنوں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر خود کھانے کی ضد کرتا ہے۔ ایسے میںوہ کبھی کھانا گرا دیتا ہے تو کبھی اسے کھانے میں بہت دیر لگاتا ہے۔ اس لئے مائیں اسے خود اپنے ہاتھوں سے کھانے سے منع کرتی ہیں ۔ جب اسے اس کی اجازت نہیں دی جاتی تو اس کا موڈ بگڑنے لگتا ہے اور وہ کھانا چھوڑ دیتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ اسے اس قسم کے برتن لا کر دےں جنہیں وہ نہ صرف باآسانی پکڑ سکے بلکہ اسے کھانے میں بھی سہولت ہو۔ اس کے علاوہ اگر بچے کو الگ بٹھانے کی بجائے اپنے ساتھ کھانے میں شامل کیا جائے تو وہ زیادہ خوشی محسوس کرے گا۔

زیادہ روک ٹوک مناسب نہیں
کھانے کے حوالے سے تجربے کے خوشگوار یا ناخوشگوار ہونے کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ اسے ماحول کیساملتا ہے ‘ اس کے اردگرد موجود لوگ کیسے کھانا کھاتے ہیںاور اسے کس قسم کے کھانوںکی آفر ہوتی ہے ۔ اس عمر میں کھانے کی جو عادات بچوں کو ڈالی جائیں‘ وہ وقت کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتی چلی جاتی ہیں اور پھر عمربھر ساتھ رہتی ہیں۔ اس لئے انہیں کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے اور کھانا آہستگی سے اورچبا چبا کر کھانے کا عادی بنانا چاہئے ۔
اگرچہ ےہ بات بہت اہم ہے کہ بچے کے کھانے کا طریقہ کیا ہے اور وہ اس کے آداب کو کس حد تک ملحوظ خاطر رکھتا ہے تاہم کھانے کے دوران زیادہ روک بھی مناسب نہیں ورنہ وہ کھانا چھوڑ دے گا۔ اس پر کنٹرول غیرمحسوس انداز میںہونا چاہیے تاکہ وہ کھانے کو انجوائے کرسکے ۔ اکثر مائیں بچوں کو ہر چیز کچل (mash) کر دیتی ہےں تاکہ وہ اسے آسانی سے کھا سکے ۔یہ ایک بڑی غلطی ہے‘ اس لئے کہ اس سے بچوں کو چبانے کی عادت نہیں رہتی۔ایسے بچے بھی دیکھنے میں آتے ہیں جو بڑے ہوجانے کے باوجود فیڈر سے دودھ پی رہے ہوتے ہےں۔

ماحول‘ کھانے سے زیادہ پرکشش
آج کل بہت سی مائیں بچے کو کھانا دیتے ہوئے ٹی وی لگا دیتی ہیں تاکہ اس کی دلچسپی برقرار رہے لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلتا ہے ، اس لئے کہ بچے کا دھیان کھانے سے ہٹ کر اس کی طرف ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بچے کو گاڑی میں یا چلتے پھرتے کھانا نہیں دینا چاہئے، اس لئے کہ اس سے وہ گلے میں اٹکنے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ بچوں کوآرام سے بٹھا کر کھلانا چاہئے۔

بچے کو ٹھونس ٹھونس کر کھلانا
اکثر ماو¿ں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کابچہ زیادہ سے زیادہ کھائے لہٰذا وہ زبردستی اس کا منہ کھول کر کھانا ٹھونسنے کی کوشش کرتی ہیں۔ انہیں چاہئے کہ اس کے برعکس تھوڑی سرونگز دن میں کئی مرتبہ دیں اور کھانے کے اوقات میں مناسب وقفہ ضروردیں۔ ایسا نہ ہو کہ دودھ سے بھرا فیڈر پلا نے کے بعد اسے کھانا کھلانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہو۔بعض اوقات بچے کو کھانے سے پہلے جوس دے دیا جاتا ہے جس سے وہ پیٹ بھر لیتا ہے اور پھر کھانا نہیں کھاتا۔
بعض والدین بچے کو شروع سے ہی انعام کا عادی بنا دیتے ہیں۔ مثلاً پہلے کھانا کھاﺅ‘ پھر تمہیں چاکلیٹ یا فلاں چیز انعام میں دی جائے گی۔ نتیجتاً وہ کھانے پینے کے معاملے میں انعام پر ہی انحصار کرنے لگتا ہے ۔ اس کے برعکس غیر مشروط طور پر صحت بخش کھانا کھانے پر بچے کی تعریف کی جانی چاہئے ۔

بچے کی پسند یا نا پسند
اگرچہ کھانے کے حوالے سے بچے کی پسند یا نا پسند کو مدنظر رکھنا اہم ہے، تاہم ایسا بھی نہ ہو کہ وہ جو چیزیں خوشی سے کھا رہاہو، اسے صرف وہی بار بار دی جاتی رہیں ۔ اسے بریڈ میں رکھاپنیر،سبزیاں، پھل یا نرم گوشت فنگر سلائس کی صورت میں دیا جا سکتا ہے تاکہ اسے ہر چیز کھانے کی عادت ہو۔ بچہ اگر کسی چیز کو کھانا نہیں چاہ رہا تو اسے کچھ دنوں بعدوہ چیز دے دیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ اس عمر کے بچوں کو مائیں ہر روز ایک نئی چیز بنا کر دیتی ہیں جس کے باعث وہ مختلف کھانوں کے اصل ذائقوں سے پوری طرح روشناس نہیں ہو پاتے۔ بچے کے کھانے کا معمول اس طرح ترتیب دیا جائے کہ وہ ذائقوں کو اچھی طرح پہچان سکے۔
بچہ چونکہ کھانے کی کم مقدار ہی لے پاتا ہے‘ اس لئے کوشش کریں کہ تھوڑی مقدار سے ہی اسے روزمرہ کی سرگرمیوں کے لئے مناسب توانائی مل جائے ۔مثال کے طور پر اسے دودھ کے ساتھ کوئی پھل ’شیک‘کی صورت میں دیا جائے تو اس کی کیلوریز کی ضرورت بخوبی پوری ہو جائے گی۔

غذائی ضروریات
اس کی غذائیت سے متعلق چند اہم باتیں توجہ طلب ہیں:

میکرو غذائی اجزائ
ہمارے ہاں بہت سے بچے شروع سے ہی فارمولا مِلک پر ہوتے ہیں۔ ایسے میںوہ کئی طرح کے اہم غذائی اجزاءکی کمی کا شکار ہو سکتے ہیں۔اس بات کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ بڑے غذائی اجزاء(پروٹین، چکنائیاں اور کاربوہائیڈریٹس) مناسب مقدار میں لے رہے ہوں۔
٭نشوونما کے اس مرحلے میں ان کے لئے پروٹین انتہائی اہم غذائی جزو ہے۔اس لئے انہیں چکن، چھوٹا گوشت اور مچھلی وغیرہ پروٹین سے بھرپور اجزاءضرور دئیے جانے چاہئیں۔ تاہم اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ ےہ چیزیں زیادہ تر تل کر نہ دی جائیں کیونکہ اس سے تلی ہوئی چیزوں کی طرف بچوں کا رحجان بڑھ جاتا ہے اور پھر وہ نگٹس اور شامی وغیرہ ہی کھانے کی ضد کرتے ہیں۔ان کے عمومی کھانوں میں انڈے، پھلیاںاورپنیر (cheeze)وغیرہ بھی شامل رکھیں تاکہ ان کی پروٹین کی ضرورت پوری ہو سکے۔
٭ ذہنی نشوونما کے لئے چکنائیاںخاص اہمیت رکھتی ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ گھر میں اگر بڑے بوڑھوں میں سے کسی کو کولیسٹرول کی زیادتی کا مسئلہ ہو تو بچوں کو بھی ایسا کھانا دیا جاتا ہے جن میں چکنائی نہ ہونے کے برابر ہو۔ ےہ رویہ درست نہیں‘ اس لئے کہ چکنائی توانائی کا فوری ذریعہ ہے جس کی بچوں کو زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔ دوسری طرف اس کا ےہ مطلب بھی نہیں کہ انہیں مرغن چیزیں کھلا کھلا کر موٹا کر دیا جائے۔ ان کے لئے روزانہ درکار کیلوریز میں چکنائی کا حصہ 30 فی صد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔اس کے لئے غیر سیر شدہ چکنائیوںوالے کھانے مثلاً بادام، اخروٹ اور پی نٹ بٹر وغیرہ بہترین ہیں۔ ایک حد میں رہتے ہوئے اسے سیر شدہ چکنائیاں بھی دی جا سکتی ہیں ۔
٭توانائی کا تیسرا بڑا ذریعہ نشاستے(starch) سے بھرپور کھانے مثلاً چاول، بریڈ، پاستا، سیریل اور آلو وغیرہ ہیں۔ اگرچہ بچوں کو عموماًکھانے پینے میں طبی طور پر کچھ منع نہیں لیکن کوشش کریں کہ انہیں فائبر سے بھرپور نشاستہ دار غذائیں ( مثلاً سیریل یا بغیر چھنے آٹے کی روٹی وغیرہ)دیں۔ اس عمر میں قبض ہونے کی زیادہ تر وجہ فائبر جیسے اہم جزو کو نظر انداز کر دینا ہے۔

مائیکرو غذائی اجزائ
چھوٹے غذائی اجزاءمیں مختلف طرح کے وٹامنز اور منرلز شامل ہیں جو بچے کی جسمانی نشوونما میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک سے تین سال کے بچوں میں وائرل انفیکشن کی شرح زیادہ ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ غذائی کمی کے باعث ان میں ان وائرسز کے خلاف لڑنے کی قوت کم ہوتی ہے ۔ وٹامنز اور منرلز بچے کی قوت مدافعت بڑھاتے ہےں جس سے وہ مختلف بیماریوں سے محفوظ اور چاق چوبند رہتے ہےں۔
مائیکرو غذائی اجزاءکی فراہمی کا بنیادی ذریعہ سبزیاں اور پھل ہیں۔ اکثر بچے شروع شروع میں انہیں کھانے سے انکار کر دیتے ہیں لیکن انہیں خوبصورت ڈیزائنوں میں کاٹ کر دیتے رہنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف ان کی کھانے کی عادات صحت مندانہ ہوں گی بلکہ وہ قبض اور موٹاپے سے بھی بچیں گے۔ گھر کے دیگر افراد اگر پھلوں اور سبزیوں کا استعمال کریں گے تو ان کی حوصلہ افزائی بھی ہو گی ۔

پانی
کھانے کے ساتھ ساتھ ےہ بھی ضروری ہے کہ بچہ پانی کی مناسب مقدار پیتا رہے۔ جن بچوں میں پانی پینے کی عادت کم ہوتی ہے، وہ اکثر تھکن کا شکار رہتے ہیں۔پانی کی مناسب مقدار کا تعین بچوں کے وزن کے مطابق کیا جا سکتا ہے۔اگر بچے کا وزن 10 کلوگرام کے قریب ہو تو اسے ایک لیٹر پانی (مائع جات) ضرورپینا چاہیے اور اس میں دودھ کا حصہ 24اونس اور جوسز چار سے چھ اونس تک ہونے چاہئیں۔ کوشش کریں کہ بچے کے پینے کی بنیادی چیز پانی ہی رہے تاکہ اس کے دانتوں کو نقصان نہ پہنچے اور اسے شروع سے ہی پانی پینے کی عادت پڑ جائے۔ جوسز دیتے ہوئے بھی ان میں تھوڑا ساپانی شامل کر کے دیں۔

فوڈ سپلی منٹس
سورج کی روشنی مناسب مقدار میںاکثر بچوں کو نہیں مل رہی ہوتی جس کے باعث ان میںاکثر وٹامن ڈی کی کمی دیکھنے میں آتی ہے۔ ےہ مسئلہ ہمارے ملک کے 90 سے 95 فی صد لوگوں کو درپیش ہے جن میں حاملہ خواتین بھی شامل ہیں۔ مزید برآں کسی خاص وٹامن کی کمی کے باعث بچے میں بڑھوتری کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔ معالج کے مشورے سے انہیں فوڈ سپلی مینٹس بھی دئیے جا سکتے ہیں۔

جسمانی سرگرمیاں
بہت سے والدین بچوں کو کھلاتے پلاتے تو رہتے ہیں لیکن ان کی جسمانی سرگرمیوں پر نظر بالکل نہیں رکھتے۔ یوں خوراک کی زیادتی انہیں موٹاپے کا شکار کر دیتی ہے۔ بعض مائیں چاہتی ہیں کہ ان کا بچہ ایک ہی دفعہ زیادہ کھا پی لے تاکہ وہ انہیں بار بار تنگ نہ کرے۔ ایسے میں وہ انہیں ایک ہی وقت میں پورا کپ دودھ پلانے کی کوشش کرتی ہیں جبکہ وہ آدھا یا چوتھائی کپ ہی لے سکتا ہے، اس لئے کہ اس کی بھوک بہت کم ہے۔ زیادہ کیلوریز والے کھانے بھی موٹاپے کی اہم وجہ ہےں۔ایسی ملازمت پیشہ مائیں جن کے پاس کوئی مددگار نہ ہو‘ تیار کھانوں کو ترجیح دیتی ہیں ۔ ان میں بالعموم کھانوں کو محفوظ رکھنے والے کیمیائی مادوں ، سوڈیم اور چینی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔
بچوں میں کھانے پینے کی صحت مندانہ عادات منتقل کرنے کے لئے والدین کی اپنی عادات کا صحت مندانہ ہونابھی ضروری ہے۔ اس کے بغیر ساری باتیں محض وعظ اور ساری کوششیں بیکار جائیں گی ۔

Vinkmag ad

Read Previous

Research corner

Read Next

نوعیت، پرہیز اور علاج جوڑ میں درد

Most Popular