دمے کا دَم دار مقابلہ

دمہ سانس کی نالی میں سوزش کی وجہ سے ہوتا ہے ۔اسے بڑھانے میں الرجی کا سبب بننے والی اشیاءکا کردار بہت اہم ہے۔ ےہ سوزش بعض اوقات اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ سانس رکنے لگتا ہے اور انتہائی صورت میں مریض کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ زیرنظر انٹرویو میں شیخ زید ہسپتال لاہور کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پلمونولوجی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر طلحہ محمود نے دمے کی وجوہات، علاج اور کنٹرول سے متعلق اہم اور دلچسپ معلومات فراہم کی ہیں انٹرویو: ناجدہ حمید، صائقہ تحسین


 

٭ شفانیوز کے قارئین کو سادہ الفاظ میں بتائیے کہ دمہ کیا ہے؟
٭٭آسان لفظوں میں اسے سانس کی نالیوں میں سوزش کہا جا سکتا ہے۔اس کے باعث کھانسی ، سانس لیتے ہوئے سیٹی کی آواز آنے اور سینے میں جکڑن جیسے مسائل سامنے آ سکتے ہیں۔ انتہائی صورت میں سانس لینے میں دشواری بھی ہو سکتی ہے۔

٭اس مرض کی علامات کیا ہیں؟
٭٭اس میں زیادہ تر مریضوں کو مستقل نوعیت کی کھانسی ہوتی ہے جو دوروں کی شکل میں آتی ہے۔ ےہ شام اور رات کے اوقات میں بڑھ جاتی ہے اور صبح کے وقت بھی اس دورہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات معمولی چلنے پھرنے سے بھی سانس پھول جاتا ہے اور کبھی کبھار رات کے وقت سوتے میں کھانسی کی وجہ سے آنکھ کھل جاتی ہے۔ےہ علامات سانس کی نالی میں سوزش کی وجہ سے ظاہر ہوتی ہیں جس کے سبب سانس کا راستہ تنگ ہو جاتا ہے۔

٭ دمے کا سبب بننے والے بنیادی عوامل کون سے ہیں؟
٭٭ اس کی بنیادی وجوہات میں پولن، دھول مٹی، جانوروں کی لید، ہوا میں موجود بخارات یا دھواں،ٹھنڈی ہوا، پٹرولیم کی مصنوعات، موسمی تبدیلیاں، تازہ ہوا سے دوری اور پرندوں کی بیٹ وغیرہ شامل ہیں۔ ان ماحولیاتی عوامل سے سانس کے نظام کی حساسیت موروثی بھی ہو سکتی ہے۔ دمے کی شکایت کسی خاص موسم میں بھی ہو سکتی ہے اورپورا سال بھی جاری رہ سکتی ہے۔ جن مریضوںکو ناک یا جلد کی الرجی کا مسئلہ یا نزلہ زکام کی شکایت زیادہ رہتی ہو‘ ان میں اس تکلیف سے دوچار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔اس کا سبب بننے والے دیگر عوامل میں ورزش کی کمی، وزن کا بڑھنا اور جنک فوڈ کازیادہ استعمال شامل ہیں۔

٭کیا عمر کے ساتھ بھی اس مرض کا کوئی تعلق ہے؟
٭٭ دمے کے زیادہ تر مریض بچے یا نوجوان ہوتے ہیں۔40 سے 50 فی صد صورتوں میں بچوں میں پایا جانے والا دمہ ان کے بالغ ہونے پر ٹھیک ہو جاتا ہے۔ بڑی عمر کے افراد میں ےہ مرض دیر سے حملہ آور ہونے والا دمہ ( late onset asthma ) کہلاتا ہے۔

٭کھانسی، دمہ ہی نہیں ٹی بی سمیت کئی اور امراض کی بھی بڑی علامت ہے۔ ایسے میں کیسے پتہ چلے گا کہ یہ کھانسی ٹی بی کی ہے یا دمہ کی؟
٭٭ کھانسی کے ساتھ بلغم یا خون آنا، بخار ہونا اور وزن تیزی سے گرناٹی بی کی بنیادی علامات ہیں۔ان دونوںمیں فرق یہ ہے کہ دمے کی صورت میں کھانسی دوروں کی صورت میں اور کسی ایسی چیز کا سامنا کرنے پر آتی ہے جس سے اسے الرجی ہوجبکہ ٹی بی کا مریض مخصوص صورت حال کے بغیر بھی سارا دن کھانستا رہتا ہے۔ بہت سی بیماریوں کی علامات آپس میں ملتی جلتی ہوتی ہیں۔ ایسے میں ڈاکٹرحضرات ان علامات کو کچھ اور عوامل کے ساتھ ملا کر مرض کی تشخیص کرتے ہیں۔اسی لئے یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ محض علامات کی بنیاد پر خود علاجی سے بچا جائے۔

٭دمے اور ’سی او پی ڈی‘ کی علامات میں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ان دونوں میں فرق کیسے معلوم کیا جائے گا؟
٭٭سی او پی ڈی(Chronic Obstructive Pulmonary Disease) تمباکو یا سگریٹ کے عادی لوگوں کو زیادہ ہوتا ہے جبکہ دمہ الرجی کی وجہ سے ہوتا ہے جس میں ماحولیاتی آلودگی کا بڑا ہاتھ ہے۔مثال کے طور پر کان کنی یا سیلیکا انڈسٹری سے وابستہ مزدور لوگوں کو دھول مٹی کا سامنا زیادہ رہتا ہے۔ جن لوگوں کو اس سے الرجی ہو وہ دمے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان دونوں امراض میں دوسرا بڑا فرق عمر کا ہے۔ عمومی تاثر کے برعکس ’سی او پی ڈی‘ بڑی عمر کے افراد میں زیادہ ہے جبکہ دمہ کسی بھی عمرمیں ہو سکتا ہے۔

٭”دمہ، دَم تک “ کا محاورہ ہمارے ہاں بہت عام ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آخری دم تک پیچھا نہیں چھوڑتا۔ اس مقولے کی کیا حقیقت ہے؟
٭٭دمے کا ہر کیس اس الرجی سے جڑا نہیںہوتا جومستقل ہو۔ مثال کے طور پرکچھ لوگوں کو محض نومبر یا دسمبر میں(جب موسم تبدیل ہو رہاہو ) الرجک دمہ کی شکایت ہوتی ہے جبکہ بعض لوگ صرف گندم کی کٹائی اور تھریشر چلنے والے مہینوں (مئی یا جون )میں اس کا شکار ہوتے ہیں۔ایسے میں اگرمر یض گندم کی گرد سے کہیں اور چلا جائے تو مرض کی علامات ظاہر نہیں ہوں گی ۔اسی طرح اگر ماحول میں پائی جانے والی کسی اور شے سے الرجی کے باعث دمے کا مسئلہ ہو تو اس چیز سے دور رہ کر اسے باآسانی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس کچھ لوگوں کو یہ مسئلہ پورا سال رہتا ہے۔ دوا کے استعمال سے اسے کنٹرول کر لیا جاتا ہے تاہم ےہ مکمل ختم نہیں ہوتا۔ یہ محاورہ شاید اسی قسم کے مریضوں کے بارے میں بولا جاتا ہے ۔

٭اس سے بچاو¿ کے لئے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟
٭٭سب سے پہلی بات تو ےہ ہے کہ جس شے سے الرجی ہو‘ اس سے دور رہا جائے۔ مثال کے طور پر اگر پولن الرجی کی وجہ سے دمہ ہو تو اس موسم میں کھڑکیاں وغیرہ بند رکھی جائیں۔ اگر دھول مٹی کی الرجی ہو تو قالین اور درو دیوار کو صاف رکھا جائے اور گھر سے باہر جاتے ہوئے منہ اور ناک پر رومال رکھا جائے یا ماسک لگایا جائے۔ کچھ بچوں کو سگریٹ کے دھوئیں کی وجہ سے کھانسی اور سانس لینے میں مسئلہ ہو تا ہے لہٰذا انہیں اس سے بچایا جائے۔ اگر اس طرح کی کچھ اور احتیاطیں اختیار کر لی جائےں تو بہت سے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔

٭اس مرض کی تشخیص کیسے کی جاتی ہے؟
٭٭اس کے لئے کچھ ٹیسٹ بھی کروائے جاسکتے ہیں لیکن زیادہ تر صورتوں میں ڈاکٹر جب مریض کی ہسٹری لیتا اور اس کا معائنہ کرتا ہے تو مرض کی تشخیص وہیں ہو جاتی ہے۔ معائنے کے دوران جب سانس میں سیٹی کی آوازیں آتی ہیں تو ڈاکٹر مرض کا اندازہ لگا لیتا ہے۔ اسی طرح زوردار کھانسی یا موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ مریض کی حالت میں تبدیلی سے بھی اس کا پتہ چل جاتا ہے۔ اگر مسئلہ حل نہ ہو تو پھیپھڑوں کی کارکردگی کا ٹیسٹ (lungs function test) کیا جاتا ہے جس سے پتہ چلتاہے کہ مریض کی سانس کی نالیاں کس حد تک تنگ ہو چکی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور ٹیسٹ reversibility test”“ بھی کیا جاتا ہے جس میں مریض کوانہیلر دے کر پھیپھڑوں کی کارکردگی دوبارہ چیک کی جاتی ہے۔ اسی طرح آئی جی ای (immunoglobulin E ) ٹیسٹ کے ذریعے بھی اس کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ اس سے خون میں مخصوص خلیات ایسینوفلز (Eosinophils)کی مقدار چیک کر کے مرض کی تشخیص کی جاتی ہے۔

٭اس کا علاج کیا ہے ؟
٭٭ اس کے علاج سے متعلق سب سے اہم بات ےہ ہے کہ مریض کو انہیلر دئیے جائیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک غلط تصور یہ بھی پایا جاتا ہے کہ انہیلر کا استعمال غیرمحفوظ ہے۔ بہت سے مریض دوا تو لیتے رہتے ہیں مگراس ( انہیلر) کے متعلق ےہ سوچتے ہیں کہ اگر ےہ ایک مرتبہ لگ گیا تو اس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جائے گا۔ شاید ےہی وجہ ہے کہ اکثر کیسز میں اسے آخری انتخاب کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ کھانے والی ادوےہ ملی گراموں میں ہوتی ہیں اور ان کے مضرضمنی اثرات (سائیڈ افیکٹس) زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس انہیلر ایک ایسا آلہ ہے جس سے دواسانس کے ذریعے براہ راست پھیپھڑوں تک پہنچائی جاتی ہے۔ ادوےہ کی دوسری اقسام کی نسبت اس میں دوا کی مقدار کم یعنی مائیکروگراموں میں ہوتی ہے۔ اگرانہیلر ڈاکٹر کی تجویز کردہ مقدار کے مطابق (یعنی دوا کی کم مقدارکے ساتھ) اور درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو ےہ کم سائیڈ افیکٹس کا حامل موثر طریقہ ہے۔ مریضوں کو چاہئے کہ جب کھانسی کا شدید دورہ نہ ہو ‘ تب بھی انہیلر اورباقی دوا کا استعمال جاری رکھیں تاکہ مرض کنٹرول میںرہے اور سوزش کی علامات ظاہر نہ ہوں۔

٭کیاانہیلر کے استعمال کا کوئی خاص وقت بھی ہوتا ہے؟
٭٭جی ہاں! اس کا استعمال مقررہ وقت پر کرنا ہوتا ہے تاہم اس کا تعین اس کی قسم پر منحصر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ انہیلرز کو دن میں ایک مرتبہ جبکہ کچھ کو دو یاتین مرتبہ استعمال کرنا ہوتا ہے۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا استعمال بوقت ضرورت ہی کرنا ہوتا ہے۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس کی دو اقسام ”کنٹرولر“ اور” ریسکیو“ہیں۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، پہلی قسم عام حالات میں دمے کے شدیدحملے سے بچاو¿ کے لئے استعمال ہوتی ہے جسے دن میں ایک، دو یا تین مرتبہ لیا جا سکتا ہے۔ دوسری قسم کا استعمال ہنگامی صورت حال میں کیا جاتا ہے۔

٭ایک تاثر ےہ بھی ہے کہ انہیلرز میں سٹیرائیڈز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کا استعمال کس حد محفوظ ہے؟
٭٭ یہ درست ہے کہ انہیلر میں سٹیرائیڈز کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن ےہ تو کھائی جانے والی دیگرادوےہ میں بھی ہوتے ہےں۔ انہیلر کی صورت میں دوا چونکہ مائیکروگراموں میں لی جاتی ہے لہٰذا پورے ماہ میں چار سے پانچ ملی گرام دوا ہی پھیپھڑوں کے اندر جاتی ہے جو ایک محفوظ مقدار ہے۔ مضر اثرات سے بچاو¿ کے لئے بنیادی شرط اس کی مقدار ہے جو مستند معالج دیکھ بھال کر ہی تجویز کرتاہے۔

٭اس ضمن میں روایتی علاج کس حد تک کارگر ہے؟
٭٭روایتی علاج کے بہت سے ماہر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے علاج کے بعد مریض کو دوبارہ اس شکایت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔کسی مخصوص علاج کے بعد جب ایک یا دو سال تک علامات ظاہر نہ ہوں تو مریض کا اس پر اعتماد پختہ ہو جاتا ہے۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسی کوئی جڑی بوٹی یاکوئی اور شے نہیںجسے کھا کر دمے کا مستقل علاج کیا جا سکے۔ ہمارے پاس بہت سے ایسے مریض آتے ہیں جنہوں نے پہلے کوئی روایتی علاج کرایا ہوتا ہے لیکن اس سے انہیں افاقہ نہیں ہوا ہوتا۔ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ حکماءکی تجویزکردہ ادویات میں سٹیرائیڈز نہیں ہوتے۔ بہت سی دیسی ادوےہ کی تیاری میں جڑی بوٹیوں کے ساتھ سٹیرائیڈ ملا کر کے کیپسولز بنائے جاتے ہیں۔ جب مریضوں کو ان کے سائیڈ افیکٹس کا سامنا ہوتا ہے تو وہ ایلوپیتھی کا سہارالیتے ہیں۔

٭کیا دمے کے لئے کوئی ویکسین بھی دستیاب ہے؟
٭٭اگر کسی کو خالصتاً الرجک دمہ ہو‘ الرجی بھی محض چند چیزوں سے ہو تومریض کو ویکسین لگانے سے فائدہ ہو سکتا ہے۔ جہاں الرجی کے صحیح اسباب کا اندازہ ہی نہ ہو، وہاں ویکسین سے کوئی خاص افاقہ نہیں ہوتا۔

٭علاج کے دوران کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟
٭٭علاج کے حوالے سے پہلی ہدایت دوا کے استعمال میں باقاعدگی ہے، اس لئے کہ اس مرض کے اثرات اور نقصانات دوا کے سائیڈ افیکٹس سے زیادہ ہیں۔ اس کے بداثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سانس رکنے کی صورت میں مریض کی جان بھی جا سکتی ہے۔ اس لئے ایسے مریض جنہیں دمے کی علامات روزانہ رہتی ہوں یا وہ لوگ جن میں ہفتے میں دو یا اس سے زیادہ مرتبہ دن کے وقت علامات ظاہر ہوں اور مہینے بھر میںرات کو ایک دفعہ سانس میں تکلیف کی وجہ سے آنکھ کھل جائے، انہیں مستقلاً دوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری اہم بات ےہ ہے کہ ماحول میں پائی جانے والی وہ مخصوص چیزیں جو دمے کو متحرک کرتی یااس کو بڑھاتی ہوں‘ ان سے بچیں۔

٭دمے کی وجہ سے کیا پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں ؟
٭٭اگرےہ مرض کسی کو لاحق ہے اور وہ اسے کنٹرول کرنے کے لئے دوائیں نہیں لے رہا یا معالج کی دیگر ہدایات پر عمل نہیں کر رہا تو اس کی سانس کی نالیاں مستقل طور پر بند یاخراب ہوسکتی ہیں۔ ایسے مریضوں پر دوا بھی اثر نہیں کرتی۔ سانس کی نالیوں کو پہنچنے والا ےہ نقصان انتہائی صورت میں مریض کی جان بھی لے سکتا ہے۔ لہٰذا پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے دوا اور مناسب احتیاط سے وقت پر ہی کنٹرول کر لیا جائے۔
٭آخر میں ان لوگوں کے لئے کوئی پیغام جو خود تو اس کا شکار نہیں البتہ بوجوہ اس خطرے کی زدمیں ہیں؟
٭٭انہیں چاہئے کہ صحت مند طرزِزندگی اپنائیں‘باقاعدگی سے ورزش کریں اور ایسی چیزوں سے بچیں جن سے انہیں الرجی ہو۔

Vinkmag ad

Read Previous

آلہ سماعت کا محفوظ استعمال

Read Next

آپ کے صفحات

Most Popular