Vinkmag ad

گردوں کی طویل المعیاد بیماری

گردوں کی طویل المعیاد بیماری

میری ساس صاحبہ جب 60 سال کی عمر میں سرکاری ملازمت سے ریٹائرہوئیں تو انہیں چند چھوٹے موٹے مسائل کے علاوہ کوئی خاص بیماری نہ تھی۔ وہ متحرک اوراپنا خیال رکھنے والی خاتون تھیں لیکن اب انہوں نے خود کو ملازمت ہی نہیں، فعال زندگی سے بھی ریٹائر سمجھ لیا۔ کھانا‘ کھانا اوربس کھانا اوروہ بھی زیادہ ترغیرصحت بخش کھانا ان کی واحد تفریح بن کررہ گیا۔ دوسری طرف انہوں نے واک وغیرہ بالکل چھوڑ دی۔ یوں ان کا وزن بڑھ گیا اورپھرانہیں شوگربھی ہوگئی۔

بیماری کے آغاز پراگرچہ وہ ڈاکٹر کے پاس جاتی رہیں لیکن پھرڈاکٹرکا نام لیں تو یوں لگتا جیسے انہیں بچھونے ڈنگ ماردیا ہو۔ یوں مرض بڑھتا چلا گیا۔ حکیم لوگ قبض کوام الامراض کہتے ہیں جبکہ ایلوپیتھی میں یہ لقب یا مقام ذیابیطس کودیا جاتا ہے۔ شوگرجسم کے کئی اہم اعضاء کو بھی متاثرکرتا ہے اورانہیں کچھ اوربیماریاں بھی لگ جاتی ہیں۔ ساس صاحبہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا اورانہیں گردوں کی بیماری ہوگئی۔ اس کے باوجود انہوں نے غیرصحت مندانہ معمول جاری رکھا۔

وہ سنجیدہ ہوئیں تواس وقت جب ان کا وزن 180 کلوگرام سے بھی تجاوزکرگیا۔ اب چلتے وقت ان کا سانس پھولنے لگا‘ شوگر بے قابوہوگئی ‘ پیشاب میں جھاگ آنے لگی اورپاؤں اورآنکھوں کے گرد سوجن بڑھنے لگی۔ اب کہیں جا کروہ ماہرامراض گردہ کے پاس جانے پرتیارہوئیں۔لیب ٹیسٹوں کی روشنی میں معلوم ہوا کہ معاملہ سی کے ڈی یعنی گردوں کے طویل المعیاد مرض تک پہنچ چکا ہے۔

شیخ زید ہسپتال لاہورکے ماہرامراض گردہ ڈاکٹرمتین اکرم کے مطابق

گردے کا بنیادی کام جسم سے فالتو مواد اورمائع کو پیشاب کے ذریعے باہرنکالنا ہے۔ جسم میں مائع جات اورنمکیات مثلاً نمک‘ پوٹاشیم‘ فاسفورس کی مقدار کو متوازن رکھنا اورایسے ہارمونز بنانا ہے جو دیگر اعضاء کے کام کرنے کی صلاحیت میں بہتری لاسکیں۔ گردوں کی بیماری ان ذمہ داریوں کو انجام دینے کی صلاحیت میں کمی اوربالآخران کی مکمل ناکامی کا باعث بنتی ہے۔

مرض کی تفصیل

سی کے ڈی سے متعلق شیخ زیدہسپتال لاہورمیں نیفرالوجی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر وقاراحمد  نے بتایا

یہ عالمی سطح پر بہت بڑا مسئلہ ہے۔دنیا بھر میں تقریباً 850 ملین افراد گردوں کے امراض میں مبتلا ہیں۔ ان میں سے ہرسال کم و بیش 2.4 ملین سی کے ڈی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ ذیابیطس کوہلکا لیتے ہیں لیکن یہ گردوں کے امراض کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ دنیا بھرمیں تقریباً 42 کروڑ افراد ذیابیطس میں مبتلا ہیں۔ اس مرض کے شکار10 سے 40 فی صد لوگوں کو گردوں کی بیماری بھی ہوتی ہے۔ اس لئے گردوں کی حفاظت کے لئے شوگرکوکنٹرول کرنا بہت ضروری ہے۔

صحت مند، بیمارگردوں کی پہچان

ڈاکٹر متین سے پوچھا کہ ایک شخص کو کیسے معلوم ہو گا کہ اس کے گردے ٹھیک کام کر رہے ہیں یا نہیں توانہوں نے کہا

پیشاب اورخون کے نمونوں کی مدد سے ان کے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔ ان میں کریٹنین اوریوریا کی سطح کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس کی روشنی میں گردوں کی کارکردگی کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ سی کے ڈی کے ابتدائی مرحلے میں احتیاط ضروری ہے مگر بیماری اوراس کی علامات شدید ہوجائیں تو پھر بہت زیادہ احتیاط کرنا پڑتی ہے۔ اس کے لئے ڈاکٹراورماہرغذائیات مل کرغذائی چارٹ بناتے ہیں۔ گردے طویل مدتی بیمارہوں تو جسم میں سوڈیم کی مقداربڑھنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے بڑھنے کا نتیجہ بلڈپریشر بڑھنے‘ ٹخنوں میں سوزش ہونے‘ دل اور پھیپھڑوں کے اردگرد پانی جمع ہونے کی شکل میں نکلتا ہے۔ اس لئے سب سے پہلے اپنی خوراک میں سے سوڈیم کی حامل چیزیں نکال دیں۔

کرنے کے کام

ڈاکٹر وقار کہتے ہیں کہ روزانہ دوگرام سے زیادہ نمک آپ کی غذا میں شامل نہیں ہونا چاہئے۔ پروسیسڈ ‘ ڈبہ بند یا بوتل بند خوراک سے خاص طورپراجتناب کریں۔ کھانے پینے کی چیزیں خریدتے وقت لیبل چیک کرنے کی عادت ڈالیں اوران میں نمک کی مقدار کو ضروردیکھیں۔

صحت مند گردے جسم سے اضافی فاسفورس بھی نکالتے رہتے ہیں مگرسی کے ڈی کی صورت میں جسم میں اس کی مقدار میں اضافہ ہوجاتا ہے جو دل کے امراض کا سبب بنتا ہے۔ اس لئے تازہ پھل اورسبزیاں استعمال کریں‘ گوشت کا استعمال محدود کریں اوردودھ یا اس سے بنی اشیاء بھی کم استعمال کریں۔ پوٹاشیم اعصاب کوفعال رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ سی کے ڈی کی صورت میں جسم زائد پوٹاشیم خارج نہیں کرسکتا جس کی وجہ سے جسم میں اس کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو دل کے امراض کو سنگین کردیتی ہے۔ یہ کیلے‘ ایووکیڈو‘ مالٹے‘ ٹماٹر اورخربوزے میں زیادہ پایا جاتا ہے لہٰذا انہیں کھانے میں احتیاط سے کام لیں۔ اس کے برعکس سیب‘ کرین بیری‘ اسٹرابری‘ رس بیری‘ بلیو بیری‘ آلوبخارا‘ انناس‘ آڑو‘ گوبھی‘ لوبیا‘ کھیرا‘ دھنیا وغیرہ کا استعمال مناسب ہے۔

مرض کی علامات زیادہ بگڑجائیں تو پروٹین‘ خصوصاً جانوروں سے حاصل شدہ پروٹین‘ سی فوڈ اورڈیری مصنوعات کا استعمال ترک کر دیں۔ مشروبات‘ پانی‘ چائے اورکافی وغیرہ کی مقدار بھی کم کریں۔ واضح رہے کہ اس صورت میں مریض کو آئرن والی خوراک کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

گرمیوں میں خصوصاً پیاس بجھانے کے لئے برف کے ٹکڑے چوسیں یا ٹھنڈے پانی کی کلی کریں۔  فروٹ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے فریزر میں ٹھنڈے کرکے کھائیں۔ سبزی کاٹ کرایک گھنٹے کے لئے بھگوئیں، پکاتے وقت وہ پانی پھینک دیں اورتازہ پانی استعمال کریں۔

کچے پھلوں اورسبزیوں (سلاد) کا استعمال زیادہ کریں‘مگر صرف ان کا جن کا مشورہ ڈاکٹر دیں۔ اس لئے کہ کچھ پھلوں میں پوٹاشیم زیادہ ہوتا ہے جو گردوں کے لئے اچھا نہیں۔ وٹامن یا طاقت کی ادویات بھی ڈاکٹرکی اجازت سے لیں۔ تمباکو نوشی کرتے ہیں تومکمل پرہیزکریں۔ کھانا باقاعدگی سے اوروقت پرکھائیں۔ مروجہ تین وقت کے بجائے تھوڑی مقدار میں چار سے چھ دفعہ کھانا کھائیں۔ سی کے ڈی کے ساتھ ساتھ ذیابیطس کے بھی مریض ہیں تو چینی اورکاربوہائیڈریٹس سے بھی پرہیز کریں۔

خطرے کی گھنٹی

سی کے ڈی کے مریضوں کے وزن میں اچانک اضافہ ہونے لگے تو سمجھ لیں کہ جسم میں پانی کی مقداربڑھ گئی ہے۔ شوگراوربلڈپریشر کے مریضوں میں پاؤں اورآنکھوں کے اردگرد سوجن‘ تھوڑا سا چلنے پرسانس پھولنے‘ متلی‘ بھوک نہ لگنے، جسم پرخارش‘ پیشاب میں جھاگ ‘ کمزوری‘ تھکاوٹ‘خون کی کمی اورچہرہ پیلا ہونے کی علامات ظاہرہوں تو یہ گردے خراب ہونے کی بڑی علامات ہیں۔

وسائل کی کمی‘ آگہی نہ ہونے‘ مصروفیات یا دیگرمسائل کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد صحت کوترجیحات میں بہت نیچے رکھتی ہے۔ ہم پیسے کمانے کے لئے صحت کو نظراندازکرتے ہیں اورپھر جب بیمار ہوتے ہیں توعلاج پراپنی ساری جمع پونجی خرچ کر دیتے ہیں۔ کیوں نہ  پہلے ہی صحت کو ترجیح دیں اورمصدقہ معلومات کے حصول کوبنیادی اہمیت دیں۔ میری ساس اب 75 سال کی ہیں اوربستر کی ہوکررہ گئی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ بڑھاپا نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے احتیاط اوربروقت علاج پر توجہ نہیں دی۔اگرآپ بھی خدانخواستہ گردوں کے مریض ہیں تو سال میں کم ازکم ایک دفعہ گردوں کا ٹیسٹ ضرورکروائیں۔ صحت مند طرززندگی اپنائیں تاکہ آپ کا بڑھاپا آپ کی جوانی کی طرح خوبصورت ہو۔

Chronic kidney disease management, weight loss, fatigue, chronic kidney disease care

Vinkmag ad

Read Previous

صدمہ جب روگ بن جائے

Read Next

آشوب چشم

Leave a Reply

Most Popular