زندگی رگوں میں دوڑتے خون کی وجہ سے برقرار ہے۔ یہ گردش تھم جائے تو انسان اور جانور زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام اعضاء اور خلیوں کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن اور اہم غذائی اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے جو خون کے ذریعے ہی ان تک پہنچتے ہیں۔خون کو نالیوں میں بھیجنے اور واپس لانے کے لیے ایک خاص پریشر کی ضرورت ہوتی ہے جسے بلڈ پریشر کہتے ہیں۔ بلڈ پریشر سے متعلق تصورات اور ان کی حقیقت جانتے ہیں۔
پہلا مفروضہ:سر درد ہائی بلڈ پریشر کی علامت ہے
لوگوں کی بڑی تعداد سر درد کو ہائی بلڈ پریشر کی علامت سمجھتی ہے۔ ایسی اور بھی بہت سی علامات مثلاً سر میں جلن، چڑچڑاپن اور ناک سے خون بہنے کو ہائی بلڈ پریشر سے وابستہ خیال کیا جاتا ہے۔ ان سب کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ بلڈ پریشر کم ہے یا زیادہ اس کا اندازہ اس کی درست پیمائش سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔
دوسرا مفروضہ: بلڈ پریشر کم ہو یا زیادہ، دونوں کا ایک ہی علاج ہے
لا علمی میں بہت سے لوگ دونوں کو ایک ہی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح کچھ ایسے ٹوٹکے استعمال کرتے ہیں جو معاملے کو مزید بگاڑ دیتے ہیں۔ مثلاً بلڈ پریشر پہلے ہی زیادہ ہوتا ہے اور وہ لیموں پانی میں تیز نمک ڈال کر مریض کو دے رہے ہوتے ہیں۔ اس سے ان کا بلڈ پریشر مزید بڑھ جاتا ہے۔ یہ دونوں مختلف کیفیات ہیں اور ان کا علاج بھی مختلف ہے لہٰذا بنا سوچے سمجھے ٹوٹکے استعمال نہ کریں۔
تیسرا مفروضہ: کسی بھی وقت بلڈ پریشر چیک کیا جا سکتا ہے
یہ درست نہیں۔ اگر بہت زیادہ بھاگ دوڑ کے بعد بلڈ پریشر چیک کیا جائے تو ریڈنگ زیادہ ہی آئے گی۔ اسے بلڈ پریشر کی بیماری نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ ایسے میں عموماً بلڈ پریشر کچھ دیر تک خود ہی نارمل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بلڈ پریشر کو پیمائش کے لیے دیگر کچھ ہدایات پر عمل بھی ضروری ہے، ان کو مدنظر نہ رکھا جائے تو صحیح ریڈنگ نہیں مل پاتی۔