Vinkmag ad

آم‘ مگربہت ہی خاص ۔۔۔پھلوں کا بادشاہ

موسم گرما میںجہاں ہمیں شدیدگرمی اور لُو کا سامنا کرنا پڑتا ہے ‘و ہیں اس موسم کی سب سے خوبصورت اور میٹھی سوغات بھی ملتی ہے جسے دنیا بھر میں پھلوں کا بادشاہ کہاجاتا ہے ۔ اچھے آم کی پہچان اور اس کی طبی خصوصیات پر محمد زاہد ایوبی کی ایک معلوماتی تحریر

    پاکستان اس حوالے سے خوش قسمت ملک ہے کہ یہاں چاروں موسم بدل بدل کر آتے ہیں اور ہر موسم کا اپنارنگ‘ اپنی خوبصورتی اور اپنے مسائل ہیں ۔موسم گرماکی شدیدگرمی اگرچہ ہمارے لئے پریشانی کا باعث بنتی ہے لیکن یہی گرمی اس موسم کی سب سے خوبصورت سوغات آم کے پکنے کے لئے بھی ضروری ہوتی ہے۔منفرد ذائقے‘ خوشبواور خوبصورتی کی بنا پر اسے دنیا بھر میںپھلوں کا بادشاہ قرار دیا جاتا ہے۔ آم کی دوسرے پھلوں پر برتری پر مرزا غالب کاایک شعر ہے:
مجھ سے پوچھو، تمہیں خبر کیا ہے
آم کے آگے نیشکر(گنا) کیا ہے
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں آموں کی1500 سے زیادہ قسمیں ہیں جن میں سے تقریباً 1000 قسمیں صرف انڈیا میں تیار ہوئی ہیں۔اس پھل کی سب سے زیادہ یعنی 40فی صد پیداوار بھی بھارت میں ہوتی ہے جس کے بعد چین،
تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور پاکستان کا نمبرآتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال تقریباً 20 لاکھ ٹن کے لگ بھگ آم پیدا ہوتا ہے۔

اچھے آم کی پہچان
آغاخان ہسپتال کراچی کی ماہرغذائیات موتی خان کا کہناہے کہ اچھے آم کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ موسمی ہو‘ اس لئے کہ بغیر موسم کے پھل میں غذائیت کم ہو جاتی ہے:
”آم اگر براﺅن ہونا شروع ہو جائے یا اس پر سفیدفنگس آجائے تو وہ آف سیزن ہوگاجسے نہیں خریدنا چاہئے۔ آم دیکھنے میں تازہ اور تھوڑا مضبوط ہونا چاہئے۔ اگراسے ہاتھ سے دبایا جائے تو یہ ہلکا سا دبے ۔وہ پلپلا نہ ہو ورنہ اندر سے گلاہواہوگا۔“
مختلف ٹی وی چینلز کے ساتھ وابستہ شیف سعدیہ طلعت کا کہنا ہے کہ اچھے آم کی اپنی ایک خوشبوہوتی ہے۔ مزیدبرآںاس پر موجود داغوں کے بارے میں بھی محتاط ہونا چاہئے:
”آم ہمیشہ ڈنڈی ( جہاں سے اسے توڑا جاتا ہے)کی طرف سے خراب ہونا شروع ہوتاoy ۔ اگروہ کالی ہو تو اس کامطلب یہ ہے کہ آم نہ صرف پرانا ہے بلکہ خراب ہونابھی شروع ہوچکاہے۔اگر اس پر کالا داغ ہو تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ اسے کیڑا لگ چکا ہے۔ اسے بیرونی سطح پر ہلکا سا داغ مت سمجھیں‘ اس لئے کہ وہ اندر گٹھلی تک گیاہوا ہوتاہے۔“
انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ مینجمنٹ سائنسز اسلام آباد میں شعبہ صحت عامہ کے لیکچراراور ماہرغذائیات عبدالمومن رضوان احمد کا کہنا ہے کہ آم اچھی طرح سے پکا ہوا اورایسا ہونا چاہئے جس کا رنگ آنکھوں کو بھائے۔

آم کے طبی فوائد
درمیانے سائز کے ایک آم میں اوسطاً 100کیلوریز‘ ایک گرام پروٹین‘0.5گرام چکنائی‘ 25گرام کاربوہائیڈریٹس اور تین گرام فائبرہوتا ہے۔ اس میںوٹامن سی کی وافر مقدار کے علاوہ وٹامن اے‘ فولیٹ‘ وٹامن بی 6‘ وٹامن K اور پوٹاشیم بھی مناسب مقدار میں پایا جاتا ہے۔
اگرچہ آم کی بہت سی اقسام ہیں لیکن اگر ان کا نیوٹریشنل پروفائل نکال کر دیکھاجائے تو مذکورہ بالا غذائی اجزاءتمام قسم کے آموں میں ملیں گے‘ تاہم ان کی مقدار کا انحصار ان کے سائز پر ہے ۔

آم‘ایک انرجی بوسٹر
موتی خان کا کہنا ہے کہ گرمیوں کے موسم میں ہمیں پسینہ زیادہ آتا ہے اوربعض اوقات اچانک کمزوری کا احساس ہونے لگتا ہے۔ چونکہ آم میں شوگر کی شکل میں کاربوہائیڈریٹس کی اچھی مقدار موجود ہوتی ہے لہٰذا یہ ”انرجی بوسٹر“ کا کام کرتا ہے اور ہمیںفوراً توانائی پہنچاتا ہے۔

وزن گھٹائے بھی بڑھائے بھی
موتی خان کاکہنا ہے کہ اس میں چکنائی کی مقدار بہت ہی کم ہوتی ہے لہٰذا یہ وزن کنٹرول کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اتنا میٹھا پھل وزن کم کرنے میں کیسے مدد دے سکتا ہے تو انہوں نے کہا:
”ایک کپ کٹے ہوئے آم میں تقریباً60سے70یا زیادہ سے زیادہ 80کیلوریز ہوں گی۔ یہ اتنی زیادہ نہیں کہ آپ کا وزن بڑھائیں۔ یہ وزن کو اس وقت بڑھاتا ہے جب آپ اسے دودھ میں چینی ڈال کر شیک کی شکل میں لیتے ہیں۔ ایسے میں کیلوریز دگنی ہوجاتی ہےں۔“
عبدالمومن کا کہنا ہے کہ اس میں شوگر کی مقدار چونکہ زیادہ ہوتی ہے لہٰذا یہ وزن میں اضافہ کرتا ہے۔ اس لئے جو لوگ اپنا وزن بڑھانا چاہیں، انہیں زیادہ تعداد میں آم کھاناتجویز کیاجاتا ہے۔

کولیسٹرول ‘ کرے کنٹرول
موتی خان کا کہنا ہے کہ پھلوں اور سبزیوں کے مختلف رنگ محض خوبصورتی کے لئے نہیں بلکہ اس بات کا اظہار ہیں کہ ان میں کون سے خاص اجزاءیااینٹی آکسیڈنٹس پائے جاتے ہیں:
”آم کا پیلا رنگ بِیٹا کروٹین(beta-carotene) کی وجہ سے ہے جو ایک اینٹی آکسیڈنٹ ہے۔ یہ ہمارے جسم کے لئے کئی طرح کے افعال سرانجام دیتاہے جن میں کولیسٹرول کو کنٹرول کرنا ‘ قوت مدافعت بڑھانا اور کینسر سے بچاﺅ شامل ہیں ۔“

معدے کے مسائل
آم میں موجود فائبر قبض کی اصلاح کرتا ہے۔ رضوان عبدالمومن کے مطابق آم ان لوگوں کے لئے بہت مفید ہے جو ہاضمے کی خرابی کے شکارہوں اور انہیں ڈکارزیادہ آتے ہوں۔
موتی خان کہتی ہیں کہ چھوٹے بچوں کوآم زیادہ نہیں کھلانے چاہئیں‘اس لئے کہ ان کی آنتیں انہیں ہضم نہیں کر پاتےں۔ انہیںایک گلاس مینگوشیک دیا جاسکتا ہے ‘ تاہم شیک کے اندرچینی کم ڈالیں تاکہ وہ اس کے قدرتی ذائقے سے لطف اندوز ہوسکیں۔

شوگر کے مریض
موتی خان کا کہنا ہے کہ اگرذیابیطس کے مریضوں کا شوگر لیول کنٹرول میں ہے تو انہیں آم کھانا منع نہیں ہے:
”کچھ مریض ایسے ہیں جن کا شوگرلیول تھوڑا سا آم کھانے سے 200سے 250یونٹس بڑ ھ جاتا ہے۔ اس لئے تمام مریضوں کے لئے کوئی ایک فارمولا نہیں بنایا جا سکتا لہٰذا انہیں اپنے معالج کے ساتھ مل کر شوگر کی سطح کے مطابق آم کھانا چاہئے۔ تاہم عام طور پر میں اپنے مریضوں کو چھوٹے سائز کا ایک آم کھانے کی اجازت دے دیتی ہوں۔“
شفاانٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد میں شعبہ امراض غدود کے سربراہ ڈاکٹرمحمد طیب بادشاہ کا کہنا ہے کہ آم کا فی میٹھاہوتا ہے اور اسے کھانے سے شوگر لازماًبڑھے گی‘اس لئے میرا مشورہ تویہ ہے کہ شوگر کے مریض آم نہ کھائیں بلکہ اس کی جگہ کوئی اور کم میٹھا پھل کھالیں:
” اگر کسی شخص کی شوگر کنٹرول میں ہے او راس کا دل آم کھانے کو بہت چاہ رہا ہے تو وہ اس کی ایک یا دو پھانکیں کھا سکتا ہے لیکن اسے ایک ہی وقت میں تین یا چار آم کھانے کی اجازت نہیں ہے۔“
جب ان کی توجہ اس میں موجود کیلوریز کی کم تعداد کی طرف دلائی گئی تو انہوں نے کہا کہ آم کو توچھوڑیں‘ ایک گرام خالص چینی میں بھی صرف چار کیلوریز ہوتی ہیں جبکہ اس کے برعکس تلی ہوئی چیزوںکے ایک گرام میں نو(۹) کیلوریز ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود ہم شوگر کے مریض کو میٹھی چیزوں سے روکتے ہیں ‘خواہ ان میں کیلوریز کم ہی کیوں نہ ہوں۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا:
” میڈیسن میں ایک اصطلاح ’گلائسیمک انڈیکس‘ استعمال ہوتی ہے جس سے مراد یہ ہے کہ کھانے یاپینے کی کوئی چیزکتنی تیزی سے بلڈشوگر میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے ۔ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹس‘ میدے‘آم ‘ انگور اور کھجوروغیرہ کاگلائسیمک انڈیکس زیادہ جبکہ سبزیوں، آلو اور مکئی وغیرہ کا کم ہوتا ہے ۔“

جلد پر بھی مثبت اثر
موتی خان کا کہنا ہے کہ آم سکن کی کلینزنگ کرنے کے علاوہ اس کو نم بھی رکھتا ہے۔ان کے بقول کچھ لوگ اسے جلد پر بھی لگاتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ ہم جو کچھ کھاتے ہیں‘ اس کا اثر جلد پر بھی آ جاتا ہے ۔لہٰذا بہتر جلد کے لئے اسے کھانا ہی بہتر ہے۔

بلڈپریشر پر کنٹرول
عبدالمومن کے مطابق جس چیز میں پوٹاشیم ہو، وہ بلڈپریشر کو کنٹرول کرتی ہے۔ آم میں اس کی وافر مقدار پائی جاتی ہے لہٰذا یہ اس مرض کے شکار افراد کے لئے دن میں ایک سے دوآم کھانا فائدہ مند ہے۔ گردے کے مریض کو یہ کم مقدارمیںکھاناچاہئے یا اس سے پرہیز کرنا چاہئے‘ اس لئے کہ اس میں موجود پوٹاشیم ان کے لئے اچھا نہیں۔ کولیسٹرول کے مریض اسے آرام سے استعمال کر سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت اپنی روزمرہ کی غذا میں پھل بہت کم شامل کرتی ہے ۔ اس کی ایک وجہ لوگوں کی کمزور قوت خریدبھی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک رویہ بھی ہے‘ ا س لئے کہ بہت سے لوگ جنک فوڈ پر اچھا خاصا خرچ کر دیتے ہیں لیکن پھل نہیں کھاتے۔ ہمیں اپنی غذائی عادات کو صحت مندانہ بناتے ہوئے اپنی غذا میں موسمی پھل ضرور شامل کرنے چاہئیں۔
مرزا غالب کہتے ہیں کہ آم میں دو خوبیاں ہونی چاہئیں۔ ایک یہ کہ وہ میٹھے ہوں اور دوسری، بہت سارے ہوں۔ میڈیکل سائنس یہ کہتی ہے کہ اعتدال‘ دیگر امور کے ساتھ ساتھ صحت کے تناظر میں بھی بہترین حکمت عملی ہے۔

_______________________________________________________________________________
کچی اور آم
دیہات میں ایک رواج آم کھانے کے ساتھ ”کچی“ پینے کا ہے ۔یہ لسی کی ایک شکل ہے جس میںدودھ کی مقدار کے برابر پانی (یاتھوڑے دودھ میں بہت سا پانی )شامل کیا جاتا ہے۔ماہرغذائیات موتی خان کے بقول یہ بہت صحت بخش چیزہے:
”گاﺅںکے لوگوں کا طرز زندگی شہر میں رہنے والوں کے مقابلے میں زیادہ پرمشقت ہوتاہے لہٰذا انہیں زیادہ توانائی چاہئے ہوتی ہے ۔کچی کے ساتھ آم کھاناانہیں زیادہ توانائی بخشتا ہے‘ ان میںپانی کی کمی دور ہوتی ہے اورکیلشیم بھی ملتا ہے۔یہ ایک انرجی بوسٹر ہے جو جسمانی مشقت کرنے والوں کے لئے بہت اچھا ہے۔“
_________________________________________________________________________________
آموں کا تعارف
پاکستان میں 110 سے زیادہ اقسام کے آم پیدا ہوتے ہیں۔ملتان میں آموں کے ایک باغ کے مالک مرسلین کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں جن میں سے پہلی کو دیسی اور دوسری کو قلمی کہا جاتا ہے۔قلمی آموںمیں دسہری، مالدا‘سرولی، کالاچونسہ، سفید چونسہ (نواب پوری چونسہ) ،سندھڑی، الفانسو، لنگڑا اور سفید الماس نمایاںہیں جبکہ دیسی آموں میں انور رٹول ‘بتاشہ، لڈو، گلاب جامن، سفید گولا، سبز گولا اور سندوری وغیرہ شامل ہیں۔مرسلین کے بقول آم اگر پھلوں کا بادشاہ ہے تو ’انور رٹول‘ سب آموں کا بادشاہ ہے۔اس کی پہچان بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
”یہ سائز میں چھوٹا ہوتا ہے‘ اس کی گٹھلی باریک ہوتی ہے اور اس میں ریشہ نہیں ہوتا۔اس کی خوشبو بہت زیادہ ہوتی ہے اور ذائقے میں ایسا لاجواب ہوتا ہے کہ جو شخص ایک بار اسے کھا لے ‘ وہ اس کاگرویدہ ہوجاتا ہے۔تحائف کے طور پربھیجے جانے والے آموں میں زیادہ تر اسی کو ترجیح دی جاتی ہے ۔“
قلمی آموں میں سندھڑی زیادہ مقبول ہے‘ جس کا سبب اس کا سائز میں بڑا، رنگت میں خوبصورت اور ذائقے میں میٹھا ہونا ہے۔اس آم کی ابتداء1909میں انڈیا کے شہر مدراس سے ہوئی ۔ کہاجاتا ہے کہ آم کی یہ قسم سابق وزیر اعظم پاکستان محمد خان جونیجو مرحوم کے والد دین محمد جونیجو سندھ میں لائے اور اپنے گاﺅں سندھڑی (ضلع سانگھڑ) کے نام پر اس پھل کا نام رکھا۔دیگر آموں کاتعارف کچھ یوں ہے :
٭”د±سہری“ لمبوترا ہوتا ہے جس کا چِھلکا خوبانی کی رنگت جیسا باریک اور گودے کے ساتھ چِمٹا ہوتا ہے۔اس کا گودا گہرا زرد، نرم، ذائقہ دار اور شیریں ہوتا ہے۔
٭”چونسے“ کا چھلکا درمیانی موٹائی والا اور اس کی رنگت پیلی ہوتی ہے۔ اس کا گودا گہرا زرد، نہایت خوشبو دار اور شیریں ہوتا ہے۔ اِس کی گ±ٹھلی پتلی لمبوتری، سائز بڑا اور ریشہ کم ہوتا ہے۔
٭ ”لنگڑا“ مختلف سائز کا ہوتا ہے۔ اس کا چھلکاچکنااور بے حد پتلا جبکہ گودا س±رخی مائل زرد، ملائم، شیریں اور رسیلا ہوتا ہے۔اکبرالہ بادی نے علامہ اقبال کو بذریعہ ڈاک لنگڑے آموں کا تحفہ بھیجا۔ اقبال نے اس کی رسید پر یہ شعر لکھ بھیجا:
اثر یہ تیرے اعجازِ مسیحائی کا ہے اکبر
الٰہ آباد سے چلا لنگڑا، لاہور تک آیا
٭”الماس“کی شکل گول،سائز درمیانہ، چِھلکا زردی مائل، س±رخ، گودا خوبانی کے رنگ جیسا م±لائم، شیریں اور ریشہ برائے نام ہوتا ہے۔
٭ گولا شکل و صورت میں گول ہوتا ہے۔اس کا سائز درمیانہ، چِھلکا گہرا نارنجی اور پتلا ہوتا ہے۔ اس کاگودا پیلا ‘ہلکا ریشے دار اور رسیلا ہوتا ہے۔
٭مالدا سائز میں بڑا نہیں‘ درمیانے بلکہ چھوٹے اور درمیانے کے درمیانی سائز کا ہوتا ہے جبکہ اس کی گٹھلی بہت چھوٹی ہوتی ہے۔
٭سہارنی سائز میں درمیانہ اور ذائقے میںقدرے میٹھا ہوتا ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

متعدی امراض اور قدیم ویکسین

Read Next

ہر گھر‘ ہر دفتر کی ضرورت۔۔۔ابتدائی طبی امداد کی تربیت

Most Popular