پاکستان میں اموات کی تیسری بڑی وجہ جراثیم کش ادویات کا غیرمؤثر ہو جانا ہے۔ اینٹی بائیوٹک مزاحمت سے پاکستان میں ہر سال سات لاکھ افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ اس کا بڑا سبب جراثیم کش ادویات کا بہت زیادہ استعمال ہے۔ چین اور بھارت کے بعد یہ ادویات سب سے زیادہ پاکستان میں استعمال ہوتی ہیں۔ ملک میں گزشتہ برس 126 ارب روپے کی اینٹی بائیوٹک ادویات استعمال کی گئیں۔
ان خیالات کا اظہار کراچی میں منعقدہ ملک کی پہلی نیشنل اینٹی مائیکروبیل اسٹیورڈ شپ سمٹ 2024 میں کیا گیا۔ اس کا اہتمام گیٹز فارما نے وفاقی وزارت صحت، ہیلتھ سروسز اکیڈمی اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے اشتراک سے کیا۔
سمٹ میں 1400 سے زائد ہیلتھ کیئر پروفیشنلز نے شرکت کی۔ ان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ہیلتھ سیکرٹریز اور ڈائریکٹر جنرلز، این آئی ایچ اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حکام، میڈیکل سوسائٹیز کے عہدیداران، ہیلتھ کیئر ریگولیٹری اتھارٹی کے حکام، سینئر ڈاکٹروں اور پالیسی سازوں نے شرکت کی۔
اینٹی بائیوٹکس حیرت انگیز دوائیں ہیں۔ انہوں نے عالمی جنگوں اور وبائی امراض کے دوران لاکھوں جانیں بچائیں۔ تاہم ان کے غیر محتاط یا غلط استعمال سے اینٹی مائیکروبیل مزاحمت پیدا ہوئی۔ یہ اب پوری دنیا میں نگہداشت صحت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق خود علاجی، اتائی معالج، ڈاکٹروں کی طرف سے اینٹی بائیوٹکس کے بلاجواز نسخے لکھنا، اینٹی بائیوٹکس کا کورس پورا نہ کرنا اور کچھ کمپنیوں کی تیار کردہ غیر معیاری اینٹی بائیوٹکس اینٹی بائیوٹک مزاحمت کی بڑی وجوہات ہیں۔ حکومت، متعلقہ اداروں اور ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیموں کو چاہیے کہ اس کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر عوام میں شعور اجاگر کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
One Comment
[…] خلاف غیرمؤثر ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کے سبب پاکستان میں ہر سال سات لاکھ افراد جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ اس تناظر میں پنجاب میں نسخے کے بغیر اینٹی […]