نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق بائیو میڈیکل ریسرچ کے دوران ہونے والے تجربات میں سے 95 فی صد میں چوہے ہی بطور لیبارٹری جانور استعمال ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ انتہائی ذہین ہوتے ہیں۔ ان کی یادداشت بھی بہت اچھی ہوتی ہے۔ یہ ایک مرتبہ کسی جگہ سے گزر جائیں تو اس راستے کو بھولتے نہیں۔
چوہوں سے متعلق دلچسپ حقائق
٭ ان کی کم و بیش 60 اقسام ہیں جن میں سائز کی بنا پر فرق کیا جا سکتا ہے۔
٭ چوہوں کے سامنے والے دانت زندگی بھر بڑھتے رہتے ہیں۔ یہ انہیں غیر معمولی طور پر بڑھنے سے روکنے کے لیے انہی سے مختلف چیزیں چباتے، کاٹتے اور دانتوں کو آپس میں رگڑتے ہیں۔
٭ عمومی تاثر یہ ہے کہ چوہے گندے ہوتے ہیں مگر یہ دن کا قابل ذکر حصہ اپنی صفائی ستھرائی میں گزار دیتے ہیں۔ نفاست پسندی میں یہ بلیوں سے بھی آگے ہیں۔
٭ خلاء میں بھیجے جانے والے جانوروں کی فہرست میں چوہے بھی شامل ہیں۔ انہیں پہلی مرتبہ 1950 میں بھیجا گیا تھا۔
٭ چوہوں کی سونگھنے کی حس کافی تیز ہوتی ہے۔ اسی لیے ان کی کچھ اقسام کو بارودی سرنگوں اور ٹی بی کی تشخیص کے لیے تربیت دی گئی ہے۔ اسی سلسلے میں 2020 میں میگاوا نامی افریقی چوہے کو برطانیہ میں بیمار جانوروں کی دیکھ بھال کے ایک ہسپتال کی جانب سے کمبوڈیا میں 39 بارودی سرنگیں اور 28 دیگر خطرناک اشیاء کی کھوج لگانے پر گولڈ میڈل بھی دیا گیا۔

٭ کمزور نظر کے حامل ان جانوروں میں رنگوں کا نابینا پن پایا جاتا ہے۔ یہ سرخ رنگ کی پہچان نہیں کر پاتے تاہم نیلے اور سبز رنگ کے کچھ شیڈز دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
٭ یہ جانور ہوا میں دو فٹ اونچائی تک جبکہ دائیں سے بائیں چار فٹ دور چھلانگ لگا سکتے ہیں۔
٭ چوہوں میں جسمانی درجہ حرارت کو برقرار رکھنے کے لیے انسانوں کی طرح پسینہ خارج نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس یہ عمل ان کی دم میں موجود خون کی نالیوں کے سکڑنے اور پھیلنے سے ہوتا ہے۔ یہ اپنی دم کو توازن برقرار رکھنے اور دوسرے ساتھیوں سے رابطہ کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
٭ چوہے 50 فٹ کی بلندی سے گرنے کے بعد بھی بڑی چوٹ سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
٭ یہ بہت احتیاط سے چلتے ہیں، اسی لیے انہیں پکڑنا مشکل ہوتا ہے۔ ان کے ماحول میں کوئی تبدیلی کی جائے مثلاً انہیں پکڑنے کے لیے جال بچھایا جائے تو وہ فوراً اس میں نہیں آتے۔