Vinkmag ad

دو بچہ دانیاں

سعدیہ کو شادی کے دو برس بعد جب پہلی دفعہ حمل ٹھہرنے کی خوشخبری ملی تو سب بہت خوش ہوئے۔ اس کے آرام اور خوراک کا خاص خیال رکھا جانے لگا۔ اس کے ساتھ ہی گائناکالوجسٹ کے پاس جانے اور طبی معائنوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ دو ماہ بعد اس کا پہلا الٹراساؤنڈ ہوا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ ان میں ایک نہیں، دو بچہ دانیاں (uteruses) ہیں۔

ڈاکٹر نے احتیاط اور مناسب آرام کا مشورہ دیا جس پر عمل تو ہوا مگر بدقسمتی سے تیسرے ماہ کے اختتام سے پہلے ہی ان کا حمل ضائع ہو گیا۔ تقریباً چار ماہ بعد وہ پھر امید سے ہو گئیں اور یہ خوشخبری بھی ایک نہیں، جڑواں بچوں کی تھی۔ اس بار ان کے ہاں صحت مند بیٹوں کی ولادت ہوئی۔

وجہ کیا ہے

ڈیرہ اسماعیل خان کی گائناکالوجسٹ، ڈاکٹر ماریہ غفور کہتی ہیں کہ یہ ایک ایسی پیدائشی ابنارملٹی ہے جو بہت ہی کم پائی جاتی ہے۔ ان کے مطابق بچیوں میں اس کی بنیاد اسی وقت پڑ جاتی ہے جب وہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہوتی ہیں۔ تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا:

ہر بچہ دانی دو چھوٹی نالیوں (mullerian ducts) سے شروع ہوتی ہے۔ یہ نشوونما پانے کے بعد مل کر بچہ دانی میں ضم ہو جاتی ہیں۔ تاہم بہت ہی کم صورتوں میں یہ نہیں مل پاتیں اور دو الگ بچہ دانیاں بن جاتی ہیں۔ اس حالت کو دوہری بچہ دانیاں (didelphys) کہتے ہیں۔ اسے دل کی شکل کی بچہ دانی (bicornuate uterus) سے گڈمڈ کر دیا جاتا ہے لیکن یہ اس سے بالکل مختلف ہے۔

تشخیص اور علاج

ڈاکٹر ماریہ کہتی ہیں کہ یہ معاملہ اندرونی اعضاء سے متعلق ہے لہٰذا خواتین کو اس کا علم نہیں ہو پاتا۔ عموماً پیڑو کے معائنے میں اس کی تشخیص ہوتی ہے۔ اس کی مکمل پرکھ شرمگاہ کے الٹراساؤنڈ یا پھر ایم آر آئی سے ہوتی ہے۔ واضح اور حتمی وجوہات تو سامنے نہیں آئیں تاہم جینیاتی عوامل اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں خاندانی ہسٹری اس ضمن میں اہم ہے۔

پشاور کی گائناکالوجسٹ، ڈاکٹر نور جہاں کہتی ہیں کہ اگر کوئی خاص علامات ظاہر نہ ہوں تو علاج کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تاہم دوران حمل کسی پیچیدگی کا سامنا ہو تو علاج کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر بار بار حمل گرنے کی شکایت ہو تو پھر سرجری کرنا پڑ سکتی ہے جس سے مسئلہ مکمل طور پر حل ہو جاتا ہے۔ عموماً سرجری کی ضرورت کم ہی پڑتی ہے اور ادویات کے ذریعے ہی حمل کو مستحکم اور مکمل کیا جا سکتا ہے۔

حمل پر اثر

ڈاکٹر ماریہ کہتی ہیں کہ یہ عامل عموماً حمل میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ حمل کبھی ایک بچہ دانی میں ٹھہرتا ہے تو کبھی دونوں میں الگ الگ، تاہم دوسری صورت بہت ہی کم پیش آتی ہے۔ دونوں صورتوں میں حمل کے بعد ڈاکٹر سے مسلسل رابطہ اور مشورہ انتہائی ضروری ہے۔ یہ حالت تکلیف پیدا کیے بغیر بہت سی خواتین میں اینڈومیٹریوسس، بانجھ پن، بار بار اسقاط حمل، گردوں کے مسائل اور قبل ازوقت زچگی کا باعث بن سکتی ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

سی اے ایچ: ایک جینیاتی نقص

Read Next

ہانیہ عامر ذہنی تناؤ کی شکار

Leave a Reply

Most Popular