مشکلات اور آزمائشیں زندگی کا حصہ ہیں اور ان پر ہر شخص کا رد عمل مختلف ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ہمت سے حالات کا مقابلہ کرتے ہیں جبکہ بعض خود کو یا دوسروں کو کوستے رہتے ہیں۔ چار سالہ بچی بشاشہ کے والد محمد افضل کی مثال پہلے والے افراد کی ہے۔ ان کی بیٹی بشاشہ سیریبرل پالسی نامی مرض کی شکار ہیں مگر انہوں نے اس پر ہمت نہ ہاری۔
ان کا تعلق مالدیپ سے ہے اور کچھ سال قبل وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے اسلام آباد منتقل ہوئے۔ شفانیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کے پہلے بھی تین بچے تھے۔ ان کی بار زیادہ مسائل نہیں ہوئے لیکن اس دفعہ ان کی اہلیہ کافی بیمار تھیں۔ ایک روز جب وہ گھر پہنچے تو ان کی اہلیہ زمین پر گری ہوئی تھیں اور ان کے منہ سے کچھ مواد نکل رہا تھا۔ یہ کیس پہلے ہی پیچیدہ تھا کیونکہ ڈاکٹروں کے مطابق بچہ رحم میں ٹھیک جگہ پر نہیں تھا۔ ہسپتال پہنچنے پر معلوم ہوا کہ بچے کی نشوونما رک چکی ہے لہٰذا حمل کے ساتویں ماہ ہی ڈلیوری کرانا ضروری ہے۔
بشاشہ کو پیدائش کے بعد 14 سے 16 روز کے لیے نوزائیدہ بچوں کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں رکھا گیا۔ ان کا دماغ، پھیپھڑے اور دیگر اعضاء ادھورے بنے ہوئے تھے۔ اس کے بعد انہیں گھر بھیج دیا گیا۔ آٹھ ماہ گزرنے کے بعد بھی جب دانت نہ نکلے تو والدین نے ڈاکٹر سے رابطہ کیا۔ طبی معائنے اور سی ٹی سکین کے بعد معلوم ہوا کہ بچی سی پی یعنی سیریبرل پالسی کی شکار ہے۔
سیریبرل پالسی کیسی بیماری ہے
سی پی بچوں میں معذوری کی عام پائی جانے والی قسم ہے۔ سی ڈی سی کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1000 میں سے تقریباً چار بچے اس کا شکار ہوتے ہیں۔ اس مرض کے 85 سے 90 فیصد کیسز کا تعلق پیدائش سے پہلے یا اس دوران ہونے والے مسائل سے ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پیدائشی نقائص کے تقریباً 94 فیصد کیسز ترقی پذیر ممالک میں ہوتے ہیں۔ ان کا بالواسطہ تعلق حمل کے دوران خواتین میں غذائیت کی کمی، انفیکشن کا شکار ہونے یا معیاری طبی سہولیات تک رسائی نہ ہونے سے ہے۔
شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کے ماہر اعصابی و دماغی امراض، ڈاکٹر قمر زمان نے بتایا کہ دماغ آکسیجن کے حوالے سے بہت حساس ہوتا ہے۔ جسم کے دیگر اعضاء مثلاً گردے اور جگر وغیرہ آکسیجن کے بغیر تھوڑی دیر زندہ رہ سکتے ہیں۔ تاہم دماغ تک اس کی فراہمی کچھ سیکنڈز کے لیے بھی منقطع ہو جائے تو اسے نقصان پہنچنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ دورانیہ دو سے تین منٹ تک بڑھ جائے تو دماغ پوری طرح متاثر ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کو سی پی کہتے ہیں۔
بعض بچوں میں اس کی تشخیص پیدائش کے فوراً بعد جبکہ کچھ میں چند ماہ بعد ہو جاتی ہے۔ آکسیجن کی کمی کے باعث دماغ کے مختلف حصے متاثر ہوتے ہیں جس کی بنا پر مختلف علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں بچوں کے جسم میں اکڑاؤ پیدا ہو جاتا ہے، ان کی حرکات بے قابو ہو جاتی ہیں یا ان کا توازن برقرار نہیں رہتا۔
مرض کی وجوہات
شفا نیشنل ہسپتال فیصل آباد کی ماہر امراض نسواں، ڈاکٹر عالیہ حفیظ کے مطابق یہ عوامل اس کے امکانات میں اضافہ کر سکتے ہیں:
٭ قبل ازوقت یعنی 37 ہفتوں سے پہلے بچے کی پیدائش
٭ ایک وقت میں ایک سے زائد بچوں کا پیدا ہونا
٭ لیبر پین کا طویل دورانیہ
٭ زچگی کے دوران یوٹرس پھٹ جانا
٭ رحم سے بچے کو جوڑنے والی نالی کا الگ ہو جانا
٭ بچے تک آکسیجن کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا ہونا
٭ ماں کا موٹاپے، شوگر اور ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہونا
٭ پیدائش کے وقت بچے کا وزن اڑھائی کلو سے کم ہونا
حمل ٹھہرانے کے مصنوعی طریقوں کے ذریعے بھی پیدا ہونے والا بچہ بھی اس کا شکار ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر قمر نے بتایا کہ اس مرض کی ایک وجہ موروثیت بھی ہے۔ تاہم پاکستان میں عموماً حمل اور زچگی کے دوران پیش آنے والے مسائل اس کا زیادہ سبب بنتے ہیں۔
خوراک کے مسائل
شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کی سپیچ پتھالوجسٹ فائزہ بدر کہتی ہیں کہ یہ بچے عموماً ذہنی طور پر ٹھیک ہوتے ہیں۔ یہ باتوں کو سمجھتے ہیں تاہم انہیں بولنے اور کھانے میں دقت ہوتی ہے۔ پیدائش کے بعد ان کے پٹھوں میں دودھ چوسنے کی طاقت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اگر طاقت نہ ہو تو خاص قسم کے فیڈر اور چوسنیاں تجویز کی جاتی ہیں۔
بولنے کے لیے سرگرمیاں
انہیں ابتدائی طور پر ایسے الفاظ سکھائیں جو روزمرہ کی ضروریات میں کام آ سکیں۔ اس کے لیے تصاویر اور کھیل کی سرگرمیاں سودمند ثابت ہوتی ہیں۔ مثلاً:
٭ رنگوں اور چیزوں میں فرق کے لیے ایک پیالے میں دو رنگ کی اشیاء رکھیں۔ پھر انہیں باہر نکالیں، بچے کو دکھائیں اور ان کا رنگ اور نام بولیں۔ سرگرمی مکمل کرنے کے بعد بچے سے دہرائی کروائیں۔
٭ مختلف رنگ کے کاغذوں کے ٹکڑے کریں اور ایک صفحے پر درخت بنا کر اس پر گوند لگا دیں۔ جس رنگ کی نشاندہی کرا رہے ہیں، بچے سے کہیں کہ اس کا ٹکڑا درخت پر چسپاں کرے۔
٭ توجہ کا دورانیہ بڑھانے کے لیے ایک کاغذ پر پنسل سے سوراخ کریں۔ پھر بچے کو تسمہ دے کر سوراخ کے اندر ڈالنے کو کہیں۔ اس دوران گنتی بھی شروع کروائیں۔
٭ سیٹی بجوائیں اور ٹَک ٹَک کی آواز نکلوائیں تاکہ منہ کے پٹھوں کو حرکت ملتی ہے۔
مذکورہ بالا سرگرمیاں گھر پر کی جاسکتی ہیں۔ تاہم اس دوران راہنمائی کے لیے سپیچ تھیراپسٹ سے رابطے میں رہیں۔
دیگر ہدایات
٭ والدین بچوں کی بدلتی ضروریات سے خود کو آگاہ رکھیں۔ کچھ چیزیں وقتی طور پر فائدہ بخش ہوتی ہیں اور انہیں تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ مثلاً پٹھوں میں لچک پیدا کرنے کے لیے ابتدائی مرحلے میں آسان ورزشیں ہوتی ہیں۔ پھر ضرورت کے مطابق انہیں تبدیل کیا جاتا ہے۔
٭ یہ بچے زیادہ حساس ہوتے ہیں لہٰذا دوسروں کو سمجھائیں کہ وہ ان کے ساتھ ایسا مذاق نہ کریں جو ان کی دلآزاری کا سبب بنے۔
٭ بچوں کو گھر کے اندر محدود نہ کریں۔ انہیں مختلف سرگرمیوں میں شامل کریں اور دوسرے بچوں کے ساتھ وقت گزارنے دیں۔
٭ خواتین حمل کے دوران اپنی صحت کا خاص خیال رکھیں اور باقاعدگی سے معائنہ کروائیں۔
٭ زچگی کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کریں جہاں معیاری سہولیات میسر ہوں۔
٭ خاندان میں یہ مرض ہو تو کزنز میں شادیاں کرنے سے اجتناب کریں۔
ہمارے معاشرے میں بعض افراد بچوں کی معذوری کو والدین کے لیے خدا کا عذاب سمجھتے ہیں جو درست نہیں۔ ان بچوں کی جانب اپنےرویوں کو درست کریں اور ان کے والدین کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ اسی طرح والدین بچوں کی زندگیوں کو آسان بنانے کی جتنی کوشش بس میں ہے، وہ کریں اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔