Vinkmag ad

دماغ کا فالج: معذوری کو کمزوری نہیں، طاقت بنائیں

دماغ کا فالج: معذوری کو کمزوری نہیں، طاقت بنائیں

   تحریر: اقصٰی نعیم

مشکلات اورآزمائشیں زندگی کا حصہ ہیں جن پرہرشخص کا ردعمل مختلف ہوتا ہے۔ کچھ لوگ مثبت رویہ اختیارکرتے ہوئے ہمت سے حالات کا مقابلہ کرتے ہیں جبکہ بعض خود کویا دوسروں کو کوستےرہتے ہیں۔ چارسالہ بچی بشاشہ کے والد محمدافضل کی مثال پہلےوالے افراد کی ہے جوہرچیزکامثبت پہلوڈھونڈ نکالتے ہیں۔ ان کا تعلق مالدیپ سے ہےاورپانچ سال قبل وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئےاسلام آباد منتقل ہوئے۔

پاکستان آنے کے دوسرے ہی دن انہیں بشاشہ کی صورت میں ایک خوبصورت تحفہ ملا۔ بیٹی کےعلاج کے لئے شفاانٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد آئے توشفانیوزسے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا

ہمارے پہلے بھی تین بچے ہیں۔ ان کی بارزیادہ مسائل نہیں ہوئے لیکن اس دفعہ میری اہلیہ کافی بیمارتھیں۔ ہم نے بدلتی آب وہوا کو اس کی وجہ سمجھا۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ ان کی حالت بگڑتی جا رہی تھی ۔ایک روزگھر پہنچا تو وہ زمین پرگری ہوئی تھیں اوران کے منہ سے کچھ مواد نکل رہا تھا لہٰذا میں انہیں فوری طورپرہسپتال لےگیا۔ یہ کیس پہلےہی پیچیدہ تھا کیونکہ ڈاکٹروں کے مطابق بچہ رحم میں ٹھیک جگہ پر نہیں تھا۔ انہوں نےبتایا کہ بچے کی نشوونما رک چکی ہے لہٰذا حمل کے ساتویں ماہ ہی ڈیلوری کرانا ضروری ہے۔ یوں بچی کی قبل ازوقت پیدائش ہوگئی۔

بشاشہ کو پیدائش کے بعد 14 سے 16 روز کے لئے نوزائیدہ بچوں کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں رکھا گیا کیونکہ ان کا دماغ ، پھیپھڑے اور دیگراعضاء ادھورے بنے ہوئے تھے۔ اس کے بعد انہیں گھر بھیج دیا گیا۔ آٹھ ماہ گزرنے کے بعد بھی جب دانت نہ نکلے تووالدین نے ڈاکٹر سے رابطہ کیا۔ طبی معائنے اورسی ٹی سکین کے بعد معلوم ہوا کہ بچی سی پی یعنی دماغی فالج کی شکارہے۔ دانت ابھی تک نہ نکلنے کا سبب یہی تھا۔ انہیں بتایا گیا کہ بچی کی عمومی نشوونمامیں بھی تاخیرہوسکتی ہے۔

مرض کی تفصیل

دماغی فالج یا سی پی بچوں میں معذوری کی عام پائی جانے والی قسم ہے۔ بیماریوں سے بچاؤ اوران پر قابو پانے والے امریکی ادارے سی ڈی سی کے مطابق دنیا بھرمیں ہر 1000 میں سے تقریباً چاربچےاس کا شکار ہوتے ہیں۔ اس مرض کے85  سے 90 فی صد کیسزکا تعلق پیدائش سے پہلے یا اس دوران ہونے والے مسائل سے ہے۔ عالمی ادارہ صحت کےمطابق پیدائشی نقائص کے تقریباً 94 فی صد کیسزترقی پذیر ممالک میں ہوتے ہیں۔ ان کا بالواسطہ تعلق حمل کے دوران خواتین میں غذائیت کی کمی، انفیکشن کا شکارہونے یا معیاری طبی سہولیات تک رسائی نہ ہونے سے ہے۔

مرض کی تفصیل بتاتے ہوئے شفاانٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کےماہراعصابی و دماغی امراض ڈاکٹر قمرزمان نے بتایا کہ دماغ آکسیجن کے حوالے سے بہت حساس ہوتا ہے

جسم کے دیگراعضاء مثلاً گردے اورجگروغیرہ آکسیجن کے بغیرتھوڑی دیرزندہ رہ سکتے ہیں لیکن اگردماغ تک اس کی فراہمی کچھ سیکنڈزکے لئے بھی منقطع ہوجائے تواسے نقصان پہنچنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ دورانیہ دوسے تین منٹ تک بڑھ جائے تودماغ پوری طرح متاثرہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کوسی پی کہا جاتا ہے۔ بعض بچوں میں اس کی تشخیص پیدائش کے فوراً بعد جبکہ کچھ میں چند ماہ بعد ہوجاتی ہے۔ آکسیجن کی کمی کے باعث دماغ کے مختلف حصے متاثر ہوتے ہیں جس کی بنا پرمختلف علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اس کے نتیجےمیں بچوں کے جسم میں اکڑاؤ پیدا ہوجاتا ہے، ان کی حرکات بےقابو ہو جاتی ہیں یا ان کا توازن برقرارنہیں رہتا۔

مرض کے امکانات بڑھانے والےعوامل

شفا نیشنل ہسپتال فیصل آباد کی ماہرامراض نسواں ڈاکٹرعالیہ حفیظ کہتی ہیں

قبل ازوقت یعنی 37 ہفتوں سے پہلےبچے کی پیدائش، ایک وقت میں ایک سے زائد بچوں کا پیدا ہونا،لیبرپین کا طویل دورانیہ،زچگی کے دوران یوٹرس کا پھٹ جانا، رحم سےبچے کو جوڑنے والی نالی کا الگ ہوجانا یا ایسےدیگرمسائل اس کا سبب بن سکتے ہیں جن کا تعلق بچے تک آکسیجن کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا کرنےسے ہو۔ ماں کا موٹاپے، شوگراورہائی بلڈپریشرکا شکارہونا بھی ایک وجہ ہے۔زچگی کے وقت بچے کا نارمل وزن اوسطاً اڑھائی کلوہوتا ہے۔ یہ اس سے جتنا کم ہوگا مرض کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ مزیدبرآں حمل ٹھہرانے کے مصنوعی طریقے (مثلاً آئی وی ایف) استعمال کرنے سے بھی پیدا ہونے والا بچہ دماغی فالج کا شکارہوسکتا ہے ۔

ڈاکٹر قمر نے بتایا کہ اس مرض کی ایک وجہ موروثیت بھی ہے تاہم پاکستان میں عموماًحمل اورزچگی کے دورا ن پیش آنے والے مسائل اس کازیادہ سبب بنتے ہیں۔

خوراک کے مسائل

ان بچوں میں پیدائش کے بعد مسائل پرگفتگوکرتے ہوئے شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کی سپیچ پتھالوجسٹ فائزہ بدر کہتی ہیں

یہ بچےعموماً ذہنی طورپرٹھیک ہوتے ہیں اورباتوں کوسمجھتے ہیں تاہم انہیں بولنے اورکھانے میں دقت ہوتی ہے۔ پیدائش کے بعد ان کے پٹھوں میں دودھ چوسنے کی طاقت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔اگرطاقت نہ ہو تو خاص قسم کے فیڈراورچوسنیاں تجویز کی جاتی ہیں۔

بولنے کے لئےسرگرمیاں

انہیں ابتدائی طورپرایسے الفاظ سکھائیں جو روزمرہ کی ضروریات میں کام آسکیں۔اس کے لئے تصاویراورکھیل کی سرگرمیاں سودمند ثابت ہوتی ہیں مثلاً

٭رنگوں اورچیزوں میں فرق کے لئے ایک پیالے میں دو رنگ کی اشیاء رکھیں۔ پھرانہیں باہرنکالیں، بچے کو دکھائیں اوران کا رنگ اورنام بولیں۔ سرگرمی مکمل کرنے کے بعد بچے سے دہرائی کروائیں۔

٭مختلف رنگ کے کاغذوں کے ٹکڑے کریں اورایک صفحے پردرخت بنا کر اس پر گوند لگا دیں۔ جس رنگ کی نشاندہی کرا رہےہیں، بچے سے کہیں کہ اس کا ٹکڑا درخت پر چسپاں کرے۔

٭توجہ کا دورانیہ بڑھانے کے لئےایک کاغذ پرپنسل سے سوراخ کریں۔ پھر بچے کو تسمہ دے کرسوراخ کے اندر ڈالنے کو کہیں۔ اس دوران گنتی بھی شروع کروائیں۔

٭سیٹی بجوائیں اور ٹَک ٹَک کی آوازنکلوائیں تاکہ منہ کے پٹھوں کو حرکت ملتی ہے۔

مذکورہ بالا سرگرمیاں گھر پرکی جاسکتی ہیں۔ تاہم اس دوران راہنمائی کے لئے سپیچ تھیراپسٹ سے رابطے میں رہیں تاکہ بچوں میں مزید بہتری لائی جاسکے۔

کرنے کے کام

٭والدین بچوں کی بدلتی ضروریات سے خود کو آگاہ رکھیں۔ کچھ چیزیں وقتی طورپرفائدہ بخش ہوتی ہیں اورانہیں تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ مثال کے طورپرپٹھوں میں لچک پیدا کرنے کے لئےابتدائی مرحلے میں آسان ورزشیں ہوتی ہیں،پھرضرورت کے مطابق انہیں تبدیل کیا جاتا ہے۔

٭یہ بچے زیادہ حساس ہوتے ہیں لہٰذا دوسروں کو سمجھائیں کہ وہ ان کے ساتھ ایسا مذاق نہ کریں جو ان کی دلآزاری کا سبب بنے۔

٭بچوں کو گھرکے اندرمحدود نہ کریں۔ انہیں مختلف سرگرمیوں میں شامل کریں اوردوسرے بچوں کے ساتھ وقت گزارنے دیں۔

٭اس مرض سے بچنے کے لئے خواتین حمل کے دوران اپنی صحت کا خاص خیال رکھیں اورباقاعدگی سے معائنہ کروائیں۔

٭زچگی کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کریں جہاں معیاری سہولیات میسر ہوں تاکہ ہنگامی صورت حال سے نپٹاجاسکے۔

٭اگرخاندان میں یہ مرض ہو تو کزنزمیں شادیاں کرنے سے اجتناب کریں۔

ہمارے معاشرے میں بعض افراد بچوں کی معذوری کو والدین کے لئے خدا کاعذاب سمجھتے ہیں جو درست نہیں۔ لوگوں کو چاہئے کہ ان بچوں کی جانب اپنےرویوں کو درست کریں اوران کے والدین کے لئے آسانیاں پیدا کریں۔ مزید برآں والدین بچوں کی زندگیوں کو آسان بنانے کی جتنی کوشش بس میں ہے، وہ کریں اورامید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔

cerebral palsy, causes of cerebral palsy, cerebral palsy patient issues and care

Vinkmag ad

Read Previous

پیڈیاٹرک میڈیسن: کون سا ڈاکٹر‘کون سا شعبہ

Read Next

سیریبرل پالسی: والدین کے لئے اہم ہدایات

Leave a Reply

Most Popular