Vinkmag ad

قدرت کے کھیل

    جو(Joe) ایک 42سالہ صحت منداورخوبصورت نوجوان تھا۔ خدا نے اسے نہ صرف اچھی شکل و صورت دے رکھی تھی بلکہ وہ خاصا مالداربھی تھا۔اسے آدھے سرکے درد یعنی مائیگرین (migraine) کی شکایت تھی۔ وہ ہفتے میں اوسطاً تین یاچار دفعہ رات کے 12بجے ہسپتال کے ایمرجنسی روم میں شدید سر درد کی کبھی کبھار حقیقی جبکہ اکثر جھوٹی شکایت کے ساتھ پہنچ جاتا۔ وہ جانتا تھاکہ اتنی رات گئے کوئی ڈاکٹر معائنے کے لیے نہیں آئے گا۔ایمرجنسی روم کی نرس ڈاکٹر کو فون پر اس کی حالت بتاتی اورڈاکٹر اکثرخود آنے کی بجائے نرس کو ہدایت کرتے کہ مریض کو فلاں ٹیکہ لگا دیا جائے یا گولیاں دے دی جائیں۔
دردختم کرنے اور کھانسی روکنے والی بعض ادویات میں افیون کی کچھ مقدار پائی جاتی ہے لہٰذا بعض لوگ اُنہیں نشے کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔”جو “کو نشے کی عادت پڑی ہوئی تھی اور وہ اُن کا ناجائز استعمال کئی مہینوں بلکہ برسوں سے کررہاتھا۔ میں1970ءمیں امریکہ کی ریاست الاباما کے ایک کلینک میں کام کررہا تھاجہاں میرے علاوہ دیگر ڈاکٹر بھی کام کر رہے تھے۔ ”جو “اُن میں سے ایک کے پاس طبی معائنے کے لئے اکثرآیا کرتا تھا۔
وہ ایک رات حسب معمول ہسپتال کے ایمرجنسی روم میں ٹیکہ لگوانے آیا اوراگلے دن اس نے ہسپتال میں ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اُس کا دعویٰ یہ تھا کہ گزشتہ رات نرس نے اسے ٹیکہ غلط طریقے سے لگادیا جس کی وجہ سے اسے اس جگہ پر سوجن ہو گئی اور گلٹی بن گئی۔اس کا کہنا تھا کہ اس سے درد کی ٹیسیں اُٹھ رہی ہیں اور یہ کہ اس نے ساری رات بہت تکلیف میں گزاری تھی۔ اس کے ڈاکٹر نے وہاں ایک گلٹی کی طرح کی سوجن دیکھی۔ اُسے مریض کی پریشانی اور اسے درد ہونے کا پورا یقین تھاتاہم اس نے مجھ سے بھی اس پررائے مانگی۔
میں جب ”جو “کو دیکھنے کے لیے اس کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ سٹریچر پر اوندھے منہ لیٹا ہوا تھا۔اُس نے پینٹ اتاررکھی تھی اور اپنے نچلے دھڑکو ایک چادر سے ڈھانپ رکھا تھا۔ میں نے رسمی علیک سلیک کے بعد چادر کا کونہ اٹھاکر گلٹی کا معائنہ کیا جو کولہے پر تھی اور اس کا سائز مرغی کے ایک چھوٹے انڈے جتنا تھا۔ میںنے جونہی اس گلٹی کو ہلکا ساچھوا تو وہ چیخ اُٹھا ’خدارا، اسے مت چھوئیں۔ اس پر ہلکا سا دباﺅ بھی ناقابل برداشت درد کا باعث بنتا ہے۔ اس کی وجہ سے میں بیٹھ بھی نہیں سکتا۔‘اس کے چہرے کے تاثرات سے ایسے لگ رہا تھا کہ وہ دردکی شدت سے نیچے گرجائے گا۔
مجھے اس کا انداز بناوٹی سا لگااوریہ گمان ہوا کہ وہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر کر رہا ہے۔ بطور سرجن میرا بھی اچھا خاصا تجربہ ہے۔ میںنے اُسے باتوں میں لگا کر اس کی توجہ کسی دوسری طرف مبذول کرادی۔ایسا کرنے سے اس کے ”درد“ کی شدت میں بھی نمایاں کمی آئی اور اس کاواویلابھی کم ہوگیا۔ میرا یہ یقین پختہ ہو گیا کہ وہ اپنے درد کوبڑھا چڑھا کر بیان کررہاہے۔ ایسا کرنے میں اس کے دو فائدے تھے۔ایک تووہ اپنے ڈاکٹر سے زیادہ تعداد میں گولیوں کا نسخہ لے سکتا تھا اور دوسری بات یہ تھی کہ وہ ایمرجنسی روم کی نرس پرعلاج میں غفلت کا الزام لگا کر اس کی تلافی کے طور پرہسپتال سے رقم حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس کا اصرار تھا کہ نرس نے غلط طریقے سے ٹیکہ لگا کراس کا کولہا خراب کردیاہے جس کی وجہ سے وہ مستقلاً درد میںمبتلا ہے۔
میراخیال تھا کہ جب نرس نے اُسے ٹیکہ لگایا توشاید سوئی کی زد میں آکر اس کی کوئی رگ زخمی ہوگئی جس سے خون نکل کر نچلے پٹھے (muscle)میں اکٹھا ہوگیا۔ ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے۔پیشہ ورانہ زبان میںاسے خون سے بھرا پھوڑا یا ہیماٹوما (hematoma) کہا جاتا ہے۔یہ خون کچھ دنوں کے بعدخودبخود واپس جسم میں جذب ہو کر غائب ہوجاتا ہے جبکہ کبھی کبھار اُسے موٹی سرنج کی مدد سے نکالنا پڑتاہے۔خون رگ سے نکلنے کے بعد چند لمحوں میں جم جاتاہے اوراُسے سوئی سے نکالانہیں جاسکتا۔کچھ دنوں کے بعد جب یہ جما ہوا خون اصلی حالت میں آتا ہے تواسے نکال لیا جاتا ہے۔ اس لئے اس عمل میں کچھ وقت لگتا ہے۔
جو نے مجھ سے کہا ’ڈاکٹر صاحبزادہ! براہ مہربانی مجھے کسی طرح اس شدید درد سے نجات دلائیں۔ مجھے بتائیں کہ اس گلٹی کو کس طرح جسم سے الگ کیا جا سکتا ہے ؟‘
میں نے اسے جواب دیا کہ ’اُس کا علاج یہی ہے کہ اس جگہ کو سُن کر کے یعنی لوکل انستھیزیا (local anesthesia)دے کر کٹ لگایاجائے اور خون کی گلٹی کو ہٹادیاجائے۔ اگر آپ کچھ دن انتظار کر سکتے ہیںتو پھر اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘
وہ بولا ’اس پرتو کئی دن لگیں گے اور میںبہت تکلیف میں ہوں۔میں ابھی اس سے چھٹکاراحاصل کرنا چاہتا ہوں۔‘
میں نے کہا کہ ’ اس کےلئے مجھے آپ کو لوکل انستھیزیا کا انجکشن لگانا ہوگا۔‘ وہ بولا ’نہیں!وہ جگہ بہت ہی حساس ہو چکی ہے۔ وہاں سوئی لگانے کا سوال ہی پید ا نہیں ہوتا۔‘اس طرح جو نے انجکشن لگوانے سے صاف انکار کر دیا۔اس پر میں نے کہا ’ اس کا مطلب ہے کہ مجھے مکمل بیہوشی یعنی جنرل انستیھیزیا (general anesthesia)کا سہارا لینا پڑے گا۔“
”جی ہاں، اور جلداز جلد!“ ”جو“ اس بات پر مُصر تھا۔
میں نے آپریشن کے لئے اگلے دن ہی انتظام کرلیا اورجنرل انستھیزیاکی فہرست میںاس کا نام بھی ڈال دیا۔”جو “ہسپتال سے اس وقت تک رخصت نہ ہو ا جب تک اس نے اپنے ڈاکٹر سے خواب آور گولیوں کا نسخہ حاصل نہیں کرلیا۔
اگلے دن میںنے آپریشن کیا۔ میںیہ دیکھ کرحیران رہ گیاکہ وہ ایک کینسر زدہ رسولی تھی جسے ہلکاسا چھونے یا ہلانے پر اُس سے خون بہنا شروع ہوجاتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ نرس کے ٹیکہ لگانے سے اُس سے پہلے خون بہا اور پھر جب وہ خاصی مقدار میںپٹھے کے اندر جمع ہوگیاتو رسولی آسانی سے دکھائی دینے لگی۔اس میں نرس کا کوئی قصور نہ تھا اور نہ اس نے کسی قسم کی لاپروائی برتی تھی۔میں نے آپریشن کے بعد”جو“ کو بتایا کہ نرس سے ناراض ہونے کی بجائے اُسے اس کا شکرگزار ہونا چاہیے جس کی وجہ سے اسے رسولی کا جلدی پتا چل گیا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اندر ہی اندر پھیل کرتمہاری زندگی ختم کردیتی۔اب بروقت علاج ہونے سے تمہاری جان بچ سکتی ہے ۔
ایسی رسولی کو طبی اصطلاح میں سارکوما (sarcoma) کہتے ہیں ۔جب تشخیص ہوگئی تو میں نے اُسے وہاں کے ایک بڑے شہر برمنگھم میںکینسر سپشلسٹ سرجن کے پاس بھیج دیا۔ انہوںنے اس کے مزید ٹیسٹ لینے کے بعد سرجری کی اور پھرریڈی ایشن (radiation)کے ذریعے اس کا علاج کیا۔
جب وہ اپنے ڈاکٹر سے ملنے آتا تو میں بھی اکثر اسے دیکھ لیتا تھا اور ویٹنگ رُوم میں اس سے علیک سلیک ہوجاتی تھی۔ ریڈی ایشن کے بعد اس کی صحت بہتر ہو گئی اور اب وہ پہلے جیسا صحت مند نظرآنے لگا۔ اُس کے بعدمیں نے کئی ماہ تک اسے نہیں دیکھا۔تقریباًسات ماہ بعدوہ ایمرجنسی روم میں داخل ہوا۔ وہ بُری طرح سے کھانس رہا تھا اور اس کے پھیپھڑوں سے خون بہہ رہا تھا۔ اس کا ڈاکٹروہاں سے جاچکاتھااوراب اُسے میری مدد کی ضرورت تھی۔
جو نے مجھے بتایا کہ پچھلے دوماہ سے اس کا کینسر پوری طرح سے لوٹ آیا ہے اور اس کے دونوں پھیپھڑے کینسر سے بھرے ہوئے ہیں۔ مرض اب لاعلاج ہوچکا تھا۔ سوائے درد کی گولیوں اور آکسیجن کے اور کوئی چارہ نہ تھا۔ اس حالت میں بھی وہ اپنے مرض کا ناجائزفائدہ اٹھا رہاتھا ۔ وہ وہی گولیاں چارچارگھنٹوں بعد کھاتا اور ڈاکٹر بھی اسے یہ گولیاں دے رہے تھے۔
میں نے ایمرجنسی رُوم میں اس کاایکسرے کروایا۔ سرطان اس کے دونوں پھیپھڑوں کو بری طرح سے متاثر کر چکاتھا۔ اُسے ڈبل نمونیاتھا اور وہ بہت مشکل سے سانس لے رہاتھا۔ ہوا اس کے پھیپھڑوں میں داخل نہیں ہورہی تھی۔
اُس رات پھیپھڑوں کے کئی ٹکڑے اس نے کھانسی کے ساتھ تھوک دئیے۔ وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا۔خون بہتا رہا اور پھر وہ مرگیا۔اس بیچارے نے بہت تکلیف میں دم توڑ ا۔اس کی بیوی اس سے طلاق لے چکی تھی۔اس کا ایک بیٹا تھاجو موت کے وقت اس کے ساتھ تھا۔
وہ ایک بے گناہ نرس کو علاج میں غفلت برتنے کے الزام میں پھنسانااور ہسپتال سے جرمانہ وصول کرنا چاہتا تھا لیکن اس کی بجائے اسے سرطان کی رسولی مل گئی جو آخر کار اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔ قدرت کی قدرت جانے، خدا اس کی روح پررحم فرمائے۔(آمین)

Vinkmag ad

Read Previous

نہ رو منے, نہ رو

Read Next

9مارچ …گردوں کا عالمی دن گردوں کی بیماری‘ موٹاپے کا کردار

Most Popular