نہ رو منے, نہ رو

     ننھے بچے پھولوں کی طرح ہوتے ہیں لہٰذا ہمیشہ کھِلے کھِلے اور ہنستے مسکراتے ہی اچھے لگتے ہیں اورجب وہ بہت زیادہ اور بظاہربلاوجہ رونے لگیں تو ان کے والدین پریشان ہوجاتے ہیں۔خصوصاً ماﺅں کے ذہن میں کئی طرح کے سوالات جنم لیتے ہیں۔ وہ سوچتی ہیں کہ کیا اُسے بھوک لگی ہے‘ نیند آئی ہے‘ اس کی نیپی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے‘ اسے پیاس لگی ہے‘ وہ تنہائی محسوس کررہا ہے‘ وہ ڈر رہا ہے‘ اُسے کہیں درد ہو رہا ہے ےا اس کے رونے کا کوئی اور سبب ہے۔ جب انہیں اپنے سوالوں کا جواب نہیں ملتا تو وہ بے چین ہوجاتی ہیں۔

رونے کے اسباب
بچے کے رونے کی ممکنہ وجوہات درج ذیل ہیں:
٭بھوک بچے کے رونے کی سب سے بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔ چھوٹے بچوں کا معدہ جلدی بھر جاتا اور جلدی خالی ہو تا ہے ‘اس لئے انہیں باربار بھوک لگتی ہے۔جب وہ خالی پیٹ ہوتا ہے تو رونا شروع کر دےتا ہے۔اس لئے ماﺅں کو چاہئے کہ چھوٹے بچوں کو24گھنٹے میں کم از کم سات سے آٹھ بار دودھ پلائےں۔

٭اگر دودھ پلانے کے باوجود بھی بچہ روئے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بھوکا نہیں بلکہ اسے کوئی اور بات ستا رہی ہے۔ ایسے میں بچے کے کپڑوں کا جائزہ لینا چاہیے کیونکہ بعض اوقات تنگ کپڑے بھی اس کے رونے کی وجہ ہو سکتے ہیں۔
٭چھوٹے بچوںکی نیند کاکوئی مخصوص وقت نہیں ہوتا۔وہ وقفے وقفے سے جاگتے اور سوتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات گھر میں مہمانوں کی آمد کی وجہ سے اگر ماں مصروف ہوجائے اور بچہ سونا چاہتا ہو‘ تب بھی وہ روتا ہے۔
٭بچے کی نیپی جب گیلی ہوجائے تو بھی وہ روتا ہے‘ اس لئے اسے وقفے وقفے سے چیک کر تے رہنا چاہیے۔ بچے کی جلد بہت نازک ہوتی ہے اوراگر نیپی کی تبدیلی میں دیر ہوجائے تو اس کی جلد پر دانے پیدا ہو سکتے ہیں اوراسے خارش ہو سکتی ہے ۔
٭ نہلانے کی وجہ سے بچے کا رونا عام سی بات ہے‘ اس لئے اس پر ماﺅں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

٭ بہت زیادہ گرم اور سرد ماحول بھی بچے کے رونے کااےک سبب ہو سکتا ہے۔اس لئے بچے کو معمول کے درجہ حرارت پر رکھیں اور اسے بہت زیادہ مت ڈھانپیں۔
٭بعض اوقات بچے بلاوجہ بھی روتے ہیں۔انہیں نہ تو بھوک ستا رہی ہوتی ہے اور نہ نیند کی طلب ہوتی ہے۔ بچے ماں کا ساتھ چاہتے ہیں او ر اس کی توجہ اور پیارپانے کے بعد چُپ ہوجاتے ہیں۔
٭ بچے بعض اوقات درد کی وجہ سے بھی روتے ہیں ۔ایسی صورت میں بچے کے پیٹ پر ہلکی سی مالش کریں اوراسے سہلائیں۔ اگر وہ پھر بھی رورہا ہو تو اُسے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔
٭چھ ماہ تک کا بچہ رات کو دو سے تین بارضرور اٹھتا ہے۔اس عمرکے بچے میں ماں کو پہچاننے کی سمجھ بوجھ پیدا ہوچکی ہوتی ہے اور وہ رات کو اٹھ کر اس بات کا اطمینان کرتا ہے کہ ماں اس کے پاس ہے یا نہیں۔ جب اسے اطمینان ہو جاتا ہے تو وہ پھر سو جاتا ہے۔اس لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

رونے کا انداز‘ بچے کا پیغام
بچے کے رونے کی آواز سے ا س کی ضرورت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے رونے کی وجوہات اور انداز درج ذیل ہیں:

بھوک میں انداز
بھوک لگنے پر بچہ پہلے آہستہ سے رونا شروع ہوتا ہے اور پھر بتدریج اس کی آواز بڑھتی چلی جاتی ہے۔اگر ماں نے ابھی ابھی اپنے بچے کو دودھ پلایاہے تو ٹھیک ہے‘ ورنہ اس بات کا خیال رہے کہ بچہ بھوکا نہ رہے۔ایسے میں اسے دوبارہ دودھ پلائیں۔

درد کی وجہ سے رونا
بچے کا درد کی وجہ سے رونا عام رونے سے مختلف ہوتا ہے۔ اگر وہ درد میں مبتلا ہو تو مسلسل روتا اور چیختا ہے۔ ایسے میں رونے کی آوازمیں تیزی، سختی، غیر سریلا پن اور چھوٹاسا وقفہ ہوتا ہے۔

جب بے چینی رلائے
جب بچہ پریشان ہو تو وہ ہلکی آواز اور وقفوں کے ساتھ بھی رو تا ہے۔ بے چینی کی وجہ سے رونے اور بھوک کے رونے میں فرق ہوتا ہے۔ اس طرح کے رونے میں آواز آہستہ آہستہ بلند ہوتی ہے۔ اس کی کچھ وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
٭ بچہ چاہتا ہے کہ اسے گود میں لیا جائے۔
٭ بچے رحم مادر میں چھوٹی سی جگہ میں ہوتے ہیں اور دنیا میں جب انہیں کھلا ماحول ملتا ہے یا وہ جھولا دیکھتے ہیں تو انہیں ڈرلگنے لگتا ہے۔
٭ گیلی نیپی بھی بچے کی بے چینی میں اضافہ کرتاہے۔

آپ کیا کر سکتے ہیں
٭چھ ہفتے سے لے کرتین ماہ تک کی عمر کے بچوں کو پیٹ مےں درد ہوتا ہے جسے قولنج کہا جاتا ہے۔ ےہ بالعموم تین ماہ کے بعد خودبخود ختم ہوجاتا ہے جبکہ کچھ بچوں میں یہ چھ ماہ تک بھی رہتا ہے۔ یہ درد تقریباًسب بچوں کو ہوتا ہے لہٰذا اس مےں دوا کا استعمال کم سے کم کرنا چاہیے۔ اکثر مائیں ڈاکٹر سے رجوع کیے بغیر بازار سے پیٹ دردکی دواخرید کر بچوں کو دے دیتی ہیں۔ ےہ عمل بچوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
٭چھوٹے بچوں کو ادویات سے جتنا دوررکھا جائے اتنا ہی فائدہ مند ہے۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے بغےر کوئی بھی دوا انہےں استعمال نہ کروائیں۔
٭ہمارے ہاں ماﺅں میں ایک غلط تصور یہ پایا جاتا ہے کہ جب بھی بچہ روئے تو وہ اسے دودھ پلادےتی ہیں۔ اس وجہ سے وہ بھوک کے معاملے میں غلط معمول اختیار کر لیتا ہے۔ اس عمل کوسےکھی ہوئی بھوک کہتے ہیں۔ اگر ےہ عادت پختہ ہو جائے تو اسے بعد میں دور کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔اس لئے ہردفعہ رونے پر اسے دودھ نہ پلائیںبلکہ اس کے رونے کی وجہ کا تعین کریں۔
٭چھ ماہ کی عمر کے بعد بچے کو الگ بستر پرسلائیں اورضرورت محسوس ہو تو اُسے بھالو‘ گڑیا یاسرہانا وغیرہ پکڑا دےں۔ اس طرح اس کا انحصار ماںپر کم ہوگا اور اس کی اپنی شخصےت پروان چڑھ سکے گی۔
٭چھوٹے بچوں کو نیند کی دوا ہرگز نہیں دینی چاہیے۔

چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال ایک اہم کام ہے جسے اگر احتیاط اور ذمہ داری سے نبھایا جائے تونہ صرف ماں کےلئے بچے کی پرورش آسان ہو جاتی ہے بلکہ بچہ بھی صحت مند رہتا ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

بہار کے رنگ پودے لگائیے‘صحت پائیے

Read Next

قدرت کے کھیل

Most Popular