ملک میں انفلوئنزا کے نئے کیسز میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے جسے سپر فلو کہا جاتا ہے۔ یورپ، خاص طور پر برطانیہ میں، Influenza A (H3N2) اور اس کی ذیلی قسم Subclade K کے سبب ہسپتالوں میں داخل مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں سپر فلو کا اثر نسبتاً کم رہنے کا امکان ہے۔
ڈاکٹر جاوید اکرم، سابق وزیر صحت پنجاب اور رائل کالج آف لندن کے بین الاقوامی مشیر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے، بزرگ اور دائمی بیماری والے افراد زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے فلو ویکسین لگوانے پر زور دیا جو اس کا خطرہ 70 فیصد تک کم کرتی ہے۔ ان کے مطابق سپر فلو سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، تاہم احتیاط ضروری ہے
ماہرین کے مطابق وائرس زیادہ تر نوجوانوں کے ذریعے پھیلتا ہے، تاہم شدید پیچیدگیاں بزرگوں میں زیادہ ہوتی ہیں۔ قریبی رابطہ اور بھیڑ والی جگہیں پھیلاؤ کے اہم عوامل ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں سپر فلو کا پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ماسک، ہاتھ دھونے، فاصلہ رکھنے اور ویکسینیشن پر زور دیا۔