Vinkmag ad

موت کی بُو

دنیا میں ایسے لوگ بہت ہی کم ہوں گے جو وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکیں کہ انہوںنے محاورتاً نہیں‘ حقیقتاًاپنی قوت شامہ کی مدد سے کسی کی موت کو سونگھا ہے۔ میں نے اپنی زندگی کا 40سال سے زیادہ عرصہ ایک فعال ڈاکٹر کی حیثیت سے گزارا ہے اور اس دوران بہت سے لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھا ہے۔ بحیثیت ڈاکٹراکثر مجھے اندازہ ہو جاتا کہ مریض آخری دموں پر ہے یاوہ چند ہفتے یا مہینے زندہ رہ پائے گا لیکن دو دفعہ میں نے موت کی بو کوباقاعدہ طور پرسونگھا ہے۔ آج ان میں سے ایک واقعے کی تفصیل بیان کرنا چاہوں گا۔

میں 1974ءمیں جب بسلسلہ ملازمت امریکہ کی ریاست ایلاباما کے ایک چھوٹے سے قصبے جیسپر(Jasper) میں منتقل ہوا تو وہاں ایک بہت ہی بزرگ جبکہ تین نسبتاً کم بوڑھے سرجن مجھ سے پہلے کام کر رہے تھے۔ ان میں سے دو کی عمریں 60 سال کے لگ بھگ تھیں جن میں سے ایک کو دل کا عارضہ تھا لہٰذا وہ بہت کم سرجریز کرتا تھا جبکہ تیسرا سرجن توانا اور متحرک آدمی تھا۔آغاز میں وہ مجھ سے کتراتا رہالیکن بعد میںمانوس ہو گیا اور ہم ایک دوسرے کے اچھے دوست بن گئے۔ میں اس کے لئے ’ڈاکٹر سلیتھ‘ کا فرضی نام استعمال کروں گا۔ اس کا لبلبے کے کینسر کی وجہ سے انتقال ہو گیا جس کے بعد اس کی تقریباً 60سالہ اہلیہ میری مریضہ بنی ۔ میں اُسے فرضی نام ”مارگو“ سے مخاطب کروں گا۔

مارگو کے بچے اپنی تعلیم یا ملازمت کے سلسلے میں گھر چھوڑ چکے تھے لہٰذا وہ گھر میں اکیلی رہتی اوراحساسِ تنہائی کم کرنے کے لئے سگریٹ نوشی کا سہارا لیتی۔ وہ روزانہ اوسطاً 15 سگریٹ پیتی تھی لیکن یہ تعداد بڑھ کر اب25-20 ہوگئی۔ اسے کھانسی کی شکایت پہلے بھی تھی جس میں اب نہ صرف اضافہ ہو گیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کا وزن بھی پانچ پونڈ کم ہوگیا۔ میں نے اُسے کہا کہ چونکہ وہ 20برس سے سگریٹ نوشی کررہی ہے اور اس میں مسلسل کھانسی اور وزن میں کمی جیسی علامات بھی دیکھنے میں آرہی ہیںلہٰذا وہ چھاتی کا ایکسرے کرا لے۔ اس نے میری تجویز کو نہ مانا اور کہا کہ اس کی کھانسی کا سبب گلے کی خراش ہے جو سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہے۔ وزن کم ہونے کا سبب اس کے نزدیک بوجہ تنہائی بھوک کم ہو جانا تھا ۔ وہ اس پر تشویش کا شکار ہونے کی بجائے خوش تھی۔اس نے سگریٹ کا لمبا ساکش لے کر دھواں فضاءمیں اُڑاتے ہوئے کہا :

”میں چاہتی تھی کہ کسی طرح اپنا وزن چند پونڈ اورگھٹالوں۔یہ تو اچھا ہوا کہ بغیر کسی محنت یا فاقہ کشی کے میرا وزن پانچ پونڈ کم ہوگیا۔ خداکرے کہ یہ 10پونڈمزیدکم ہوجائے۔“ آپ نے دیکھا ہوگا کہ دُبلی سے دُبلی عورت بھی اپنے آپ کو موٹاسمجھتی ہے اور چاہتی ہے کہ اُس کا وزن کم ہو‘ خواہ ایسا کسی بیماری کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو۔ یہ غلط رویہ ہے۔ وزن کو مخصوص حد میں رکھنا چاہئے اور اسے صرف صحت مندانہ انداز سے کم کرنا چاہئے۔
تقریباً دو ماہ بعد وہ میرے کلینک میں طبی مشورے کے لئے آئی تو بہت کمزور لگ رہی تھی اور اس کا چہرہ بھی زرد پڑ گیا تھا۔ میں نے اسے دیکھتے ہی کہا”مارگو!ٹھیک تو ہونا؟تم بہت کمزور لگ رہی ہو۔ ایسے لگتا ہے کہ تمہارے جسم میں خون کی بھی کمی ہے۔“ اور پھر اس کے جواب کا انتظار کئے بغیرکہا”فائل میں درج ہے کہ تمہارا وزن پچھلے دوماہ میں آٹھ پونڈ مزید کم ہوگیا ہے۔ یہ بتاﺅ تمہاری بھوک کیسی ہے ؟“
مارگو نے اپنا گلا صاف کیا اور جب بولی تو اس کا گلا بیٹھا ہوا تھا اور حلق سے اس کی آواز بھی تکلیف کے ساتھ نکل رہی تھی ۔ وہ کہنے لگی:

”ڈاکٹر صاحبزادہ! میری طبیعت اکثرخراب رہتی ہے۔ کھانسی پہلے سے بڑھ گئی ہے اور اس کی وجہ سے میں رات کوتین یا چار بجے تک جاگتی رہتی ہوں۔“میں نے اُسے ٹوکا:”اور اس دوران تم مزید سگریٹ پیتی ہوگی؟“ مارگو نے اثبات میں سر ہلادیا۔میں نے اس سے کہا ”تمہیں معلوم ہے کہ سگریٹ نوشی سے کھانسی مزید بڑھ جاتی ہے۔“ مارگو نے ہاں کے انداز میںسرہلادیالیکن بولی کچھ نہیں۔ میں نے مزید سوال کیا ”کھانسی کے ساتھ بلغم آتی ہے یا صرف خشک کھانسی ہوتی ہے؟“ اس نے کہا ”خاصی مقدار میں زرد بلغم نکلتی ہے۔“ میں نے پوچھا ”اس میں کبھی خون تو نہیں آیا؟“ ایک دفعہ پھر اس کا جواب ہاں میں تھا: ”ایک یادوبار ایسے لگا کہ تھوڑا سا خون تھوک میں شامل ہے۔“ میں نے پوچھا ” اور تھوک کا رنگ کالا تھایا لال؟“ اس نے جواب دیا”لال، لیکن بہت تھوڑی مقدار میں۔“مارگو کے منہ سے الفاظ ایسے نکل رہے تھے جیسے کوئی سرگوشی کر رہا ہو ‘ اس لئے کہ اُس کا گلا بیٹھا ہواتھا۔

وزن میں اتنی زیادہ کمی‘ شدیدکھانسی اور بلغم میں خون سے میرا میرا ماتھا ٹھنکااور دھیان فوراً پھیپھڑوں کے سرطان کی طرف گیا تاہم میں نے اس کا اظہار کرنے کی بجائے اسے تاکیداً کہا کہ وہ جلدازجلد چھاتی کاایکسرے کروائے۔ ”کب کرواﺅں؟“اس نے مجھ سے پوچھا۔ ”آج اور اسی وقت! “میں نے مختصراً جواب دیا اوراُسے ساتھ لے کر اپنے دفتر آگیا اور فون پر اپنے ریڈیالوجسٹ سے کہا کہ جلدی سے ایکسرے کرکے مجھے اس کی رپورٹ دیں۔“مارگو وہاں سے سیدھی ایکسرے ڈپارٹمنٹ میں پہنچ گئی۔آدھ گھنٹے بعد ریڈیالوجسٹ مجھے رپورٹ دے دی جس کی بنیاد پر میں نے مارگو کو بائیوپسی کرانے کو کہا۔ اگلے دن بائیوپسی ہوئی جس سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ اُسے پھیپھڑوں کا کینسر ہے۔ میں نے اسے ماہر کینسر (oncologist) کے پاس بھیج دیا جس نے اس کی کیموتھیراپی شروع کردی۔

مارگو کے بیٹے اور بیٹی کو جب اپنی ماں کی بیماری کی خبر ملی تو وہ گھر لوٹ آئے۔ کیمو تھیراپی مفید ثابت نہ ہو رہی تھی لہٰذا میری تجویز پر سب نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ اُسے بند کرکے مریضہ کو جہاں تک ہوسکے آخری دنوں میں آرام پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ درد اور کھانسی میں آرام کے لئے دوائیں شروع کرا دی گئیں اور سانس میں آسانی کے لئے آکسیجن کے سلنڈر کا بندوبست کیاگیا۔وہ مرض کے جس مرحلے پر تھی‘ اسے ”ٹرمینل کینسر“ کہا جاتا ہے اور حکومت کی طرف سے ایسے لوگوں کی دیکھ بھال کے لئے دوائیں اور صحت کی دیگر سہولتیں ماہر عملے اور نرسوں کی نگرانی میں گھر پر ہی مہیا کردی جاتی ہیں۔ اس پروگرام کو مریض خانہ (hospice) کہاجاتا ہے۔ اس میں ہر وہ مریض شامل کیاجاسکتا ہے جس کے متعلق گمان ہو کہ وہ اگلے چھ ماہ سے زیادہ عرصے تک زندہ نہ رہ پائے گا۔ مریضوں کی مدتِ حیات کے بارے میں محض اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے‘ اس لئے کہ موت کا صحیح وقت خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
میں نے مختلف محکموں سے رابطہ کرکے مارگو کی آخری دنوں میں دیکھ بھال کے انتظامات کرلئے۔اس کو دوائیں وغیرہ ملتی رہیں لیکن کھانسی اور سانس کی تکلیف بڑھتی گئی اوروزن کم ہوتا چلا گیا۔اپنے بہت اچھے دوست کی بیوہ ہونے کے ناتے میں روزانہ اس کے پاس جاتااور اُسے تسلیاں دیتالیکن وہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھی لہٰذا اُسے معلوم تھا کہ وہ اس دنیا میں محض چند دن کی مہمان ہے اور پھر ایک دن وہ فوت ہو گئی۔

اس کی وفات سے چاریا پانچ روز قبل جب میں اس کے کمرے میں داخل ہوا تو خاص قسم کی بُو ایک بھبکے کی صورت میں میرے نتھنوں میں داخل ہوئی۔ یہ کسی حد تک ناگوارسی تھی جس پر مجھے متلی کا احساس ہوا اور چند منٹ کے بعد اس کا احساس ختم ہوگیا۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ یہ ناگوارسی بُو تیز ہوتی چلی گئی اور اب وہ مارگو کے کمرے تک محدود نہ تھی بلکہ مکان کا مین گیٹ کھلتے ہی آنے لگتی اور متلی کا احساس پیدا کر کے چند لمحوں بعد ختم ہو جاتی۔ گھر کے مکینوں کو شاید یہ محسوس نہ ہوئی لہٰذا انہوں نے کبھی اس کا مجھ سے ذکر نہ کیا۔ میںنے بھی اس بات کوچھیڑنا مناسب نہ سمجھا۔

بحیثیت ڈاکٹر مجھے معلوم تھا کہ یہ بدبُو رسولی کے گلنے سڑنے سے پیدا ہورہی ہے۔جب رسولی تیزی سے بڑھتی ہے تو اس میں خون کی رگیں کم بنتی ہیں لہٰذا اس کے نئے حصوں کو خون نہیں پہنچ پاتا۔غذا اور آکسیجن سے محرومی کی وجہ سے وہ حصے گل سڑ جاتے ہیں۔ طبی اصطلاح میں اسے ٹشوز کے خلیوں کی موت (tumor necrosis) کہاجاتا ہے۔ مارگو کی رسولی بھی گل سڑ کر بدبُو کا باعث بن رہی تھی جسے میں ’موت کی بُو ‘ کہوں گا‘ اس لئے کہ وہ اس کی عنقریب موت کا پتہ دے رہی تھی۔ باالفاظ دیگر میں مارگو کی موت کو قبل از وقت سُونگھ رہا تھا ۔

شام کے وقت مریض خانے کی نرس نے مجھے مارگو کی موت کی اطلاع دی۔اس کا گھر ہمارے گھر سے تقریباً تین کلومیٹر کے فاصلے پر تھا لہٰذا میں 20منٹ میں وہاںپہنچ گیا۔ جب میں نے اسے صبح دیکھا تو وہ خاصی تکلیف میں تھی لیکن اب پرسکون لیٹی ہوئی تھی۔ بڑھتی عمر اورطویل بیماری نے اس کے چہرے پر جھریاں ڈال دی تھیں اور چہرے کو زرد کر دیا تھا لیکن اس لمحے وہ ایک مطمئن فرد کا چہرہ دکھائی دیتا تھا۔میں نے موت کی تصدیق کے لئے سرٹیفکیٹ پر دستخط کرکے تاریخ اور وقت لکھ دیا اور اس کے بچوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرکے واپس چلا آیا۔

مارگو کی موت پھیپھڑوں کے سرطان کی وجہ سے ہوئی۔ اگر وہ میری بات مان کر سگریٹ چھوڑ دیتی اور بروقت ایکسرے کرا لیتی تو شاید اس کی صحت بہتر ہوجاتی۔آج میں اپنے ارد گرد لوگوں کو اس لت میں مبتلا دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے۔ ان سے گزارش ہے کہ سگریٹ نوشی چھوڑ دیں اور اگر مارگو والی علامات محسوس کریں تو لازماً معالج سے رابطہ کریں اور اس کی بات مانیں۔ اگرچہ مدت حیات ہمارے کنٹرول میں نہیں لیکن اس کی کوالٹی بڑی حد تک ہمارے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اسے ہاتھ سے جانے مت دیں۔

Vinkmag ad

Read Previous

شوگر کی کمی یا زیادتی فوری طور پر کیا کریں

Read Next

بچوں کی دیکھ بھال… اُف یہ سردیاں

Most Popular