خوشی اور صحت کے درمیان تعلق

تقریباً 10ماہ قبل اقوام متحدہ کے تعاون سے”خوشی کے عالمی اشارئیے “کے عنوان سے ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کل 158ملکوں میں سے پاکستان‘ خوش رہنے والے ممالک میں 81ویں نمبر پر ہے ۔ اس تحقیق میں دنیا کے تمام ممالک میں خوشی کو جانچنے کے لئے کئی پیمانوں کا استعمال کیا گیا تھا۔تاہم یہ ہماری توجہ کا مرکزی نکتہ نہیں ہے ۔ ہم یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ ہمیں خوشی کس چیز سے ملتی ہے اور کیا خوشی اور صحت کا آپس میں کوئی تعلق بھی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ”صحت صرف بیماری کے عدم وجود یا جسمانی ضعف کا نام نہےں بلکہ ایسی کیفیت ہے جس میں ایک فرد خود کو جسمانی‘ ذہنی اور سماجی سطح پر بہترمحسوس کرے ۔“
ایسا نہیں ہے کہ عالمی ادارہ¿ صحت کی مذکورہ بالا تعریف سے قبل لوگ اس حقیقت سے نا واقف تھے۔مشہور کرد کہاوت ہے کہ ”تمام تر صحت کی جڑ دماغ میں اور تنا جذبات میں ہے۔شاخیں اور پتے اس کا جسم ہیں اور صحت کا یہ پھول تب ہی کھِلتا ہے جب مذکورہ بالا تمام حصے مل کر کام کریں۔“
صحت کی یہ تفہیم بہت عام ہے اور کسی نہ کسی شکل میں ہر ثقافت میںموجودہے۔ ممکن ہے کہ ہرثقافت میں مذکورہ بالا کرد کہاوت کی طرح صحت کی باقاعدہ تعریف موجودنہ ہو مگراس بات کے عملی شواہد موجود ہیں کہ صحت اور خوشی کو ہرجگہ مربوط اور باہم لاز م و ملزوم ہی لیا گیا ہے ۔
عام فہم زبان میں خوشی ایک جذبہ ہے جو اداسی کا متضاد ہے۔خوشی ‘بہتر محسوس کرنے یااطمینان کااحساس ہے۔جب لو گ خود کو کامیاب ،مامون یا خوش قسمت محسوس کریں تو وہ خوش ہوتے ہیں۔صحت بھی عام بول چال میں بیماری اورناتوانی سے آزادی کا نام ہے۔ایک بیمار شخص کے خوش ہونے کا امکان کم ہی ہے تاہم اس میں مستثنیات بھی ہیں۔ لیکن ایک ناخوش شخص بالعموم اپنے آپ کو غیرصحت مند ہی محسوس کرتا ہے ۔
خوشی اور صحت کے درمیان موجودناگزیر تعلق سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ انسانی معاشرے عفو درگزر،دردمندی،محبت،مہربانی،دیانت داری،فیاضی اورانصاف جیسی اقدار پراتنا زور کیوں دیتے ہیں۔یہ اقدار انتقام اور نفرت جیسے ان جذبوں کا تریاق ہیں جوانسانی سوچ کو منفی انداز سے متاثر کرتے اور خوشی کے امکانات کو ختم کرتے ہیں۔
بددیانتی اور ناانصافی کا ارتکاب انسانوں میں نفرت اور انتقام کے جذبات کو پروان چڑھاتا ہے ۔ اس کے برعکس متاثرہ افراد کی طرف سے معاف کر دینے کا عمل افراد کے درمیان محبت اور احترام کی بنیاد پر اعلیٰ ترین سطح پر تعلقات کو قائم کرتا اور انہیں جلا بخشتا ہے ۔ اسی طرح دوسروں کے درد کو محسوس کرنا اور ان کے ساتھ رحمدلی سے پیش آنا انسانوں کے درمیان فاصلے کم کرتا ہے اور وہ باہم محبت کے جذبات رکھنے لگتے ہیں ۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ علاج کی سہولیات پہلے سے بہتر ہو رہی ہیں۔آج ہمیں پچھلی نسلوں کی نسبت امراض کی تشخیص کی بہتر سہولیات میسر ہیں اورہم میڈیسن میں جدیدتحقیقات کے ثمرات سے بہتر طور پرمستفید ہورہے ہیں۔ یہ یقیناً ایک رحمت ہے لیکن اس کے باوجود ہم خوشی اور صحت کے اس فیض رساں تعلق سے محروم ہیں جس سے ہمارے آباﺅ اجداد مالامال تھے ۔
کیا یہ ”لاعلمی “ تھی جو ان کے لئے ”باعث ِرحمت“ تھی؟ کیا کسی چیز کے بارے میں نہ جاننا ‘اسے جان لینے سے زیادہ اطمینان بخشتا ہے ؟کیا ہم اس لئے کم خوش ہیں کہ تشخیص کی تیز اوربہتر سہولیات نے ہمیں بیماریوں کے شکار ہونے کے خدشات سے دوچار کر دیا ہے ؟یا اس کا جواب اپنی اس گم گشتہ خوشی کو دوبارہ تلاش کرنے اور ان اقدار پر مضبوطی سے قائم ہونے میں ہے جو ہمارے دلوں کو خوش کرتی اور ہمیں ایک ایسے معاشرے کی شکل میں ڈھالتی ہیں جس کے افراد ایک دوسرے کے بارے میں خیرخواہی کے جذبات رکھتے ہوں ۔
اب یہ ہم پر ہے کہ خوشی اور صحت کی اس نامکمل مساوات کو مکمل کرنے کے لئے انفرادی طور پر اوربحیثیت معاشرہ اس خوشی کو تلاش اوراز سرنوحاصل کریں۔ خوشی اور صحت کے درمیان تعلق کوئی نیا تصور ہر گز نہیں۔

Vinkmag ad

Read Previous

آپ کے صفحات

Read Next

ایسی بے توجہی

Most Popular