نایاب بیماریوں میں مبتلا افراد کو ذرا مختلف قسم کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ ان کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہوتی ہے کہ اکثر ڈاکٹر بھی مرض کو نہیں جانتے ہوتے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ریاستیں انہیں اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ پبلک ہیلتھ پالیسی میں انہیں نظرانداز کیا جاتا ہے۔ یہ بات ایک نئی تحقیق میں سامنے آئی ہے۔ اس کے لیے محققین نے 5 کروڑ 80 لاکھ افراد کے ہیلتھ ریکارڈز کا تجزیہ کیا۔ یونیورسٹی کالج لندن (یو سی ایل) اور یونیورسٹی آف گلاسگو کے ماہرین نے آٹھ نایاب بیماریوں کی نشاندہی کی۔ ان میں سے کچھ کو زیادہ خطرناک قرار دیا گیا۔ ان میں بلس پمفیگوئڈ (جلد کی بیماری)، آسٹیوجینیسس ایمپرفیکٹا (ہڈیوں کی بیماری) اور پولی سسٹک کڈنی ڈیزیز شامل ہیں۔
تحقیق کے مطابق برطانیہ کی "شیلڈنگ لسٹ” میں زیادہ تر نایاب بیماریاں شامل نہیں۔ اس وجہ سے کئی ہائی رسک افراد ضروری طبی رہنمائی اور مدد سے محروم رہتے ہیں۔ یو سی ایل کے پروفیسر جوان تھیگسن کے مطابق نایاب بیماریوں پر بنیادی معلومات محدود ہیں۔ یہ مسئلہ پبلک ہیلتھ پالیسی میں انہیں شامل کرنے کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔
برطانوی حکومت نے 2021 میں ریئر ڈیزیز فریم ورک اور 2024 میں انگلینڈ ریئر ڈیزیز ایکشن پلان متعارف کرایا۔ تاہم موجودہ حکومت نے اس حوالے سے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے۔ نایاب بیماریوں میں مبتلا افراد کی زندگیاں بہت مشکل ہوتی ہیں۔ اس لیے اس تناظر میں پالیسیوں اور حکمت عملیوں کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔