پاکستان میں ڈی ریگولیشن پالیسی کے نتیجے میں عام استعمال کی ادویات کی قیمتیں اوسطاً 32 فیصد تک بڑھ گئی ہیں۔ بعض ادویات کی قیمتوں میں 50 سے 100 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات وزارت صحت اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) کی ایک رپورٹ میں سامنے آیا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت نے پاکستان فارماسوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) سے اس حوالے سے وضاحت طلب کی ہے۔ کمیٹی نے کہا کہ جہاں قیمتوں میں 50 فیصد یا زیادہ اضافہ ہوا، وہاں صنعت سے جواب لیا جائے گا۔ اگر کسی قسم کی ملی بھگت پائی گئی تو معاملہ کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کے سپرد کیا جائے گا۔
پی پی ایم اے نے کہا کہ حقیقی اضافہ صرف 12 سے 15 فیصد کے درمیان ہے۔ اضافی قیمتیں نئی ادویات کی لانچنگ سے متعلق ہیں۔ ایسوسی ایشن نے مزید کہا کہ ڈی ریگولیشن پالیسی نے نایاب ادویات کی پیداوار ممکن بنائی۔ یہ سب کچھ بڑھتی پیداواری لاگت، افراط زر اور دیگر مالی مشکلات کے باوجود ہوا ہے۔