’’پولیو سے پاک پاکستان‘‘ کی طرف گامزن

بیماری، ضعف اور معذوری‘ درد اور پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔ بیماری اور معذوری کے نتیجے میں لاحق ہونے والے دکھوں کے اثرات صرف مریض تک محدود نہیں رہتے بلکہ اس کے پورے خاندان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ایسے میں اہل خانہ کو اپنے اس رکن کی بیماری یا معذوری کی مالی اور جذباتی‘ دونوں طرح کی قیمت ادا کرناپڑتی ہے۔ مزید براں یہ مرض خاندان کو ایک ایسی کیفیت میں دھکیل سکتا ہے جس میں اہل خانہ کو یہ مشکل فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ خاندان کے ایک بیمار فرد کو ترجیح دیں یا بچے کی تعلیم وغیرہ جیسے چیلنجز کو فوقیت دیں۔ایسی صورت حال بعض اوقات بہت ہی اندوہناک انجام پر ختم ہوتی ہے۔ ایسے واقعات میں سے کچھ‘ کبھی کبھار اخبارات میں اور ٹی وی چینلزپر نمودار ہوتے رہتے ہیں۔ دکھ‘ اس وقت پچھتاوے کی صورت اختیار کر جاتا ہے جب بیماری قابل تدارک قسم سے تعلق رکھتی ہو یا اس کا سبب خاندان یاوالدین کی غفلت ہو۔

پولیو اس کی ایک مثال ہے ۔ اس باآسانی قابل تدارک مرض کا پاکستان اور افغانستان کے سوا دنیا بھر سے خاتمہ ہو چکا ہے ۔اکثر صورتوں میں اس کے شکار فرد کو محتاجی کی اور قابل رحم زندگی گزارنا پڑتی ہے حالانکہ اس سے پرہیز بہت سادہ اور بالکل مفت ہے ۔یہ بات ہمارے لئے باعث شرم ہے کہ ہم ابھی تک پولیو سے پاک قوم نہیں بن سکے ۔ اس ناکامی کے اسباب محض غفلت اورسراسر جہالت ہیں۔

تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ گزشتہ برس پاکستان میں پولیو کی شرح نے اُس سے پچھلے سال (2014ء ) کی نسبت خاصابڑا پلٹا کھایاہے۔ 2014ء کا سال گزشتہ ایک عشرے میں اس حوالے سے بدترین تھا۔حکومتی ذرائع کے مطابق 2014ء کی نسبت 2015ء میں پولیو کی شرح میں 70فی صد کمی آئی ہے ۔2014ء میں اس کے 306کیس سامنے آئے جبکہ 2015ء میں یہ تعداد51رہی۔2009ء کے بعد سے یہ اس کی سب سے کم شرح ہے ۔
پاکستان میں پولیو کے خاتمے سے متعلق پروگرام کے ایمرجنسی کوارڈینیٹر ڈاکٹر رانا محمد صفدر کا کہنا ہے کہ 2015ء میں پولیو کے خاتمے کی قومی مہم اب تک کی سب سے کامیاب مہم تھی جس میں ملک کے تمام صوبوں کے 90فی صدعلاقوں کو کور کیاگیا ۔آزاد ذرائع کاتخمینہ بھی یہی ہے ۔

2015ء میں پولیو کیسزکی سب سے زیادہ تعداد وفاق کے زیر اہتمام قبائلی علاقے( فاٹا)میں رپورٹ ہوئی جو16 تھی۔2014ء کے دوران یہاں 179کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔ دوسرے نمبر پر زیادہ تعداد خیبر پختونخوا میں رہی جو 15تھی۔ 2014ء میں اس صوبے میں یہ تعداد 68تھی۔

ایک اور حوصلہ افزا ء بات ان بچوں کی تعداد میں کمی ہے جو پولیو ویکسی نیشن سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ 2014ء میں تقریباً 10 لاکھ بچے پولیو کے قطروں سے محروم رہے جبکہ گزشتہ سال کی مہم میں یہ تعداد کم ہو کر ایک لاکھ رہ گئی ۔

اسی طرح ان اضلاع کی تعداد بھی کم ہو کر نصف ر ہ گئی جن میں پولیو کے انفیکشن ظاہر ہوتے یاوہاں کے ماحولیاتی تجزئیے میں پولیو وائرس کی رپورٹ مثبت آتی تھی ۔ یہ شرح 2014ء میں 44تھی جو 2015ء میں22 رہ گئی ۔
ایک اور حوصلہ افزاء بات پولیو کارکنوں پر حملوں کی تعداد میں کمی ہے۔2013-14ء کے دوران 30حملوں کے مقابلے میں2015ء میں پولیو ورکرز پر صرف ایک حملہ ہوا۔ڈاکٹر صفدر کا

کہنا ہے کہ اس سے پولیو کارکنوں کامورال بڑھنے میں بہت مدد ملی ہے۔
ہم پرامید ہیں کہ پاکستان جلد ہی پولیو سے پاک ملک بن جائے گا۔اس کے ساتھ ساتھ ہماری یہ بھی خواہش ہے کہ 2016ء میں ہمارے معاشرے کے لیے دیگر ضرر رساں ’ ’پولیو‘‘ مثلاً جہالت اورعدم برداشت بھی ختم ہوجائیں ۔نیا سال مبارک ہو!

Vinkmag ad

Read Previous

Beware of bullying

Read Next

There she goes again

Leave a Reply

Most Popular