فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے تمباکو اور میٹھے مشروبات پر ٹیکس کم کرنے کی تجویز دی ہے۔ ایف بی آر حکام کے مطابق اس اقدام سے 90 سے 100 ارب روپے کا ریونیو حاصل ہو گا۔ دوسری طرف ماہرین صحت نے اس پر شدید تنقید کی ہے۔ ان کے مطابق اس کی اصل قیمت جانوں کے ضیاع اور بیماریوں میں اضافے کی صورت میں چکانا پڑے گی۔
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ذیابیطس کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ 3 کروڑ 30 لاکھ افراد اس بیماری کا شکار ہیں۔ اگر صورت حال نہ بدلی تو 2045 تک یہ تعداد 6 کروڑ 20 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ سٹڈیز بتاتی ہیں کہ میٹھے مشروبات کے زیادہ استعمال سے ذیابیطس کا خطرہ 30 فیصد بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے انہیں مزید مہنگا کرنا چاہئے تاکہ ان کا استعمال کم ہو۔ مگر حکومت انہیں عارضی فائدے سستا کرنے پر غور کر رہی ہے۔
تمباکو کے معاملے میں بھی صورت حال ایسی ہی ہے۔ پاکستان میں ہر سال 1 لاکھ 63 ہزار افراد تمباکو نوشی سے متعلق بیماریوں کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ٹیکس میں کمی اسے مزید سستا کر دے گی، جس سے نوجوانوں میں اس کا استعمال بڑھے گا۔ دیگر ممالک تمباکو پر بھاری ٹیکس لگا رہے ہیں، جبکہ پاکستان اس کے برعکس کر رہا ہے۔
ہیلتھ پالیسی سے متعلق ادارے فلورش پاکستان نے تمباکو اور میٹھے مشروبات پر ٹیکس میں کمی کی تجویز پر شدید تنقید کی ہے۔ ادارے کے ایک عہدیدار زوہیب ضیا کے مطابق ٹیکس میں کمی ان اشیاء کے استعمال کو فروغ دے گی جو پہلے ہی صحت کے بحران کا باعث ہیں۔