ماہرین کے مطابق پاکستان میں کینسر کے زیادہ تر مریض تیسرے یا چوتھے مرحلے میں تشخیص ہوتے ہیں۔ اس دوران علاج کے امکانات انتہائی محدود ہو جاتے ہیں۔ اکثر خاندان اپنی جمع پونجی علاج پر خرچ کرتے ہیں، تاہم تاخیر کے سبب بچنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ صرف تین فیصد مریض ابتدائی اور قابلِ علاج مرحلے میں شناخت ہو پاتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار سوسائٹی آف میڈیکل اونکالوجی پاکستان کی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں کیا گیا۔
ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے وائس چانسلر پروفیسر شہزاد علی خان نے کہا کہ کینسر کی بروقت تشخیص انتہائی ضروری ہے۔ ان کے مطابق بریسٹ کینسر کے پہلے مرحلے میں تشخیص اور علاج سے زندہ بچنے کے امکانات 99 فیصد تک ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں کینسر کے علاج کی سہولیات انتہائی محدود ہیں، اور ہر 10 لاکھ افراد کے لیے صرف ایک ماہر اونکالوجسٹ دستیاب ہے۔ ان کے بقول ریفرل سسٹم کی کمی اور آگاہی کا فقدان دیر سے تشخیص کی بڑی وجوہات ہیں۔
ماہرین نے انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر کے اعداد و شمار بھی پیش کیے۔ ان کے مطابق خواتین میں چھاتی کا کینسر 31 فیصد، سر اور گلے کا 8.6 فیصد، پھیپھڑوں کا 5.6 فیصد اور بڑی آنت کا 5.1 فیصد ہے۔ ان کے مطابق پاکستان میں کینسر کے مریضوں کے لیے علاج کی جدید سہولیات اور سستی ادویات ناگزیر ہیں۔