یورپین سوسائٹی آف ہیومن جینیٹکس کی حالیہ کانفرنس میں ایک نیا بلڈ ٹیسٹ متعارف کرایا گیا ہے۔ یہ ٹیسٹ نومولود اور بچوں میں ہزاروں جینیاتی بیماریوں کی شناخت تین دن میں کر سکتا ہے۔ اسے آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف میلبورن کے سائنسدانوں نے تیار کیا ہے۔ اس ٹیسٹ میں صرف ایک ملی لیٹر خون درکار ہوتا ہے۔ یہ طریقہ پٹھوں کی بائیوپسی جیسے روایتی طریقوں سے کم تکلیف دہ ہے۔
اس نئے ٹیسٹ میں ” trio analysis ” نامی طریقہ استعمال ہوتا ہے۔ اس میں بچے کے ساتھ والدین کے نمونے بھی شامل کیے جاتے ہیں۔ یونیورسٹی آف میلبورن سے وابستہ ڈاکٹر ڈینیئلا ہاک اسے فیملیز کے لیے انقلابی پیش رفت قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول، فیملی سیمپلز کی شمولیت سے تشخیص میں اعتماد کی سطح بلند ہوئی ہے۔
ٹیسٹ نہ صرف جلد تشخیص فراہم کرتا ہے بلکہ متاثرہ بچوں کو بروقت علاج، درست پیش گوئی اور آئندہ حمل میں جینیاتی بیماری کی روک تھام کے لیے فیصلے کرنے کے قابل بھی بناتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہزاروں جینیاتی بیماریوں کی فوری شناخت کرنے والا یہ ٹیسٹ مستقبل میں درجنوں مخصوص ٹیسٹوں کی جگہ لے سکتا ہے۔ اس سے صحت کے نظام پر مالی بوجھ کم ہو گا اور علاج کا آغاز جلد ممکن ہو سکے گا۔
نایاب جینیاتی بیماریاں تعداد میں کم نظر آتی ہیں، مگر دنیا بھر میں ان کی تعداد 7,000 سے زائد ہے۔ ان سے تقریباً 30 کروڑ افراد متاثر ہوتے ہیں۔ ان میں سے کئی لوگوں کو ساری زندگی درست تشخیص نہیں مل پاتی، یا انہیں برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے