مائیلو فائبروسس (Myelofibrosis) ہڈیوں کے گودے کا ایک نایاب قسم کا کینسر ہے جس میں خون کے خلیوں کی معمول کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ گودا عام طور پر نرم ہوتا ہے لیکن اس بیماری میں وہ آہستہ آہستہ سخت اور داغ دار ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے جسم میں خون کی شدید کمی ہو جاتی ہے۔ نتیجتاً کمزوری و تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ اس مرض میں خون جمنے میں مدد دینے والے خلیے (پلیٹ لیٹس) بھی کم ہو جاتے ہیں، جس سے خون بہنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تلی (spleen) بھی بڑھ سکتی ہے۔
مائیلو فائبروسس کو دائمی لیوکیمیا سمجھا جاتا ہے، جو خون بنانے والے ٹشوز کو متاثر کرتا ہے۔ یہ امراض کے ایک گروپ مائیلو پرو لائفریٹو ڈس آرڈرز (Myeloproliferative Disorders) سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ مرض ازخود بھی پیدا ہو سکتا ہے جسے پرائمری مائیلو فائبروسس کہتے ہیں، اور گودے کی کسی دیگر بیماری سے بھی نشوونما پا سکتا ہے جسے سیکنڈری مائیلو فائبروسس کہا جاتا ہے۔
کچھ افراد میں مائیلو فائبروسس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ انہیں فوری علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس کچھ لوگوں کی بیماری سنگین ہوتی ہے جس میں بلا تاخیر علاج ضروری ہوتا ہے۔ علاج کا بنیادی مقصد علامات کنٹرول کرنا ہوتا ہے جس کے لیے مختلف آپشنز استعمال ہوتے ہیں۔
علامات
مائیلو فائبروسس چونکہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہے لہٰذا زیادہ تر لوگوں کو آغاز میں کوئی خاص علامت محسوس نہیں ہوتی۔ جیسے جیسے خون کے خلیے ٹھیک طرح سے نہیں بنتے، ویسے ویسے علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ عمومی علامات یہ ہیں:
٭ خون کی کمی (انیمیا) کی وجہ سے تھکاوٹ، کمزوری یا سانس پھولنا
٭ تلی بڑھنے کی وجہ سے بائیں پسلی کے نیچے درد یا بھرا بھرا سا محسوس ہونا
٭ معمولی چوٹ سے بھی نیل پڑ جانا
٭ آسانی سے خون بہنا
٭ رات کے وقت بہت زیادہ پسینہ آنا
٭ بخار
٭ ہڈیوں میں درد
ڈاکٹر سے کب رجوع کریں
مائیلو فائبروسس کا علاج عام طور پر ماہر امراض خون (ہیماٹالوجسٹ) کرتا ہے۔ اگر کوئی پریشان کن علامت محسوس ہو تو بلاتاخیر ڈاکٹر سے ملاقات کریں۔
وجوہات
مائیلو فائبروسس اس وقت ہوتا ہے جب بون میرو کے سٹیم سیلز کے ڈی این اے میں تبدیلیاں (میوٹیشنز) آ جاتی ہیں۔ سٹیم سیلز وہ بنیادی خلیے ہیں جن کی تقسیم در تقسیم سے خون کے خلیے (سرخ خلیے، سفید خلیے اور پلیٹ لیٹس) بنتے ہیں۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ سٹیم سیلز میں جینیاتی تبدیلیاں کیوں پیدا ہوتی ہیں۔
جب متاثرہ سٹیم سیلز تقسیم ہوتے ہیں تو اپنی میوٹیشنز بھی نئے خلیوں میں منتقل کرتے ہیں۔ جب ایسے متاثرہ خلیے بڑھتے ہیں تو خون بنانے کے عمل پر برا اثر پڑنے لگتا ہے۔ نتیجتاً سرخ خلیوں کی کمی ہو جاتی ہے جو انیمیا کی وجہ بنتی ہے۔ اس کے ساتھ سفید خلیوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے اور پلیٹ لیٹس کی تعداد میں بھی تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔
مائیلو فائبروسس کے مریضوں میں کچھ خاص جینیاتی بھی تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ سب سے عام تبدیلی ”جے اے کے 2” جین میں پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ”سی اے ایل آر” اور ”ایم پی ایل” میں بھی تبدیلی ہو سکتی ہے۔ کچھ مریضوں میں کوئی واضح جینیاتی تبدیلی نہیں بھی ملتی۔ ان تبدیلیوں کا مرض سے تعلق معلوم ہونا علاج کا آپشن چننے میں مدد ثابت ہوتا ہے۔
خطرے کے عوامل

اگرچہ مائیلو فائبروسس کی بنیادی وجہ معلوم نہیں ہو سکی، تاہم یہ عوامل اس کا خطرہ بڑھا سکتے ہیں:
عمر: یہ بیماری کسی بھی عمر میں ہو سکتی ہے، تاہم زیادہ تر کیسز میں یہ 50 سال سے زائد عمر کے افراد میں تشخیص ہوتی ہے
خون کی کوئی اور بیماری: کچھ لوگوں میں یہ مرض پہلے سے موجود خون کے امراض کی ایک پیچیدگی کے طور پر سامنے آتا ہے
کیمیکلز سے تعلق: اس مرض کا تعلق کچھ صنعتی کیمیکلز، خصوصاً ٹولوئین اور بینزین سے بھی پایا گیا ہے
ریڈی ایشنز: ریڈی ایشنز سے زیادہ سامنا بھی اس کا خطرہ بڑھا سکتا ہے
پیچیدگیاں
مائیلو فائبروسس سے مختلف طرح کی طبی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں:
پورٹل ہائیپرٹینشن
تلی سے خون ایک بڑی رگ (پورٹل وین) کے ذریعے جگر میں جاتا ہے۔ اگر تلی بڑھ جائے تو اس میں خون کا بہاؤ بڑھ جاتا ہے۔ اس سے اس رگ میں دباؤ بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ اسے ”پورٹل ہائیپرٹینشن” کہتے ہیں۔ یہ اضافی خون معدے اور غذائی نالی کی چھوٹی رگوں کی طرف بھی جا سکتا ہے۔ اس سے ان رگوں کے پھٹنے اور اندرونی خون بہنے کا خدشہ ہوتا ہے۔
پیٹ یا کمر میں درد
بہت زیادہ بڑھی ہوئی تلی پیٹ میں دباؤ ڈال سکتی ہے۔ اس سے پیٹ یا کمر میں درد محسوس ہو سکتا ہے۔
گودے سے باہر خلیے بننا
عام طور پر خون کے خلیے ہڈی کے گودے میں بنتے ہیں، تاہم اس بیماری میں یہ گودے سے باہر بھی بننے لگتے ہیں۔ اس عمل (extramedullary hematopoiesis) کے نتیجے میں بننے والی گٹھلیاں بعض اوقات معدے میں خون بہنے، کھانسی یا تھوک میں خون آنے، ریڑھ کی ہڈی پر دباؤ پڑنے یا دوروں (seizures) جیسے مسائل پیدا کر سکتی ہیں۔
خون بہنے کی شکایت
وقت کے ساتھ ساتھ مریض کے خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد کم ہو جاتی ہے، اور ان کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس سے معمولی سی چوٹ پر بھی زیادہ خون بہنا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی سرجری کرانی ہو تو ڈاکٹر کو اس مرض کے بارے میں لازماً بتائیں۔
اکیوٹ لیوکیمیا
کچھ مریضوں میں مائیلو فائبروسس آگے چل کر ایکیوٹ مائیلوجینس لیوکیمیا (اے ایم ایل) میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ کینسر کی یہ قسم خون اور ہڈی کے گودے کو تیزی سے متاثر کرتی ہے۔
تشخیص

مائیلو فائبروسس کو پہچاننے کے لیے ڈاکٹر جسمانی معائنہ اور کچھ ٹیسٹ کرتے ہیں:
جسمانی معائنہ
ڈاکٹر نبض، بلڈ پریشر چیک کرتا ہے اور پیٹ، تلی اور لمف نوڈز کو ہاتھ سے دبا کر دیکھتا ہے کہ کچھ سوجن یا تبدیلی تو نہیں آئی۔
خون کے ٹیسٹ
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کہیں خون کے سرخ خلیے کم تو نہیں۔ ان کی کمی اکثر اس بیماری میں ہوتی ہے۔ خون کے سفید خلیے اور پلیٹ لیٹس بھی نارمل سے زیادہ یا کم ہو سکتے ہیں۔
ایکس رے یا ایم آر آئی
ایسے ٹیسٹ سے جسم کے اندر کی تصویر لی جاتی ہے تاکہ بیماری کے بارے میں زیادہ معلومات مل سکیں۔
ہڈی کے گودے کا ٹیسٹ
کولہے کی ہڈی میں سوئی کی مدد سے ہڈی اور گودے کا نمونہ لیتا ہے۔ اسے لیبارٹری میں دیکھا جاتا ہے تاکہ خون کے خلیوں کی قسم اور مقدار معلوم ہو سکے۔
جینیاتی تبدیلیوں کا ٹیسٹ
خون یا ہڈی کے گودے کے خلیوں کا لیبارٹری میں تجزیہ کیا جاتا ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ ان میں ”جے اے کے 2” ، ”سی اے ایل آر” یا ”ایم پی ایل”جیسے جینز میں کوئی تبدیلی تو نہیں ہوئی۔ ان ٹیسٹوں سے حاصل ہونے والی معلومات سے ڈاکٹر یہ طے کرتا ہے کہ بیماری کا آئندہ رخ کیا ہو سکتا ہے اور علاج کے لیے کون سے آپشنز بہتر ہوں گے۔
علاج

زیادہ تر مریضوں کے علاج کا مقصد بیماری کی علامات اور اثرات کو کم کرنا ہوتا ہے۔ کچھ افراد کے لیے بون میرو ٹرانسپلانٹ مکمل صحت یابی کا موقع فراہم کر سکتا ہے، تاہم یہ ایک سخت علاج ہے جو ہر مریض کے لیے موزوں نہیں ہوتا۔ آپ کا معالج موزوں علاج کا تعین مختلف فارمولوں کے ذریعے کرتا ہے۔ فارمولے بیماری کی شدت اور مجموعی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے خطرے کی درجہ بندی (رسک کیٹیگری) کرتے ہیں۔
کم خطرے والے مائیلو فائبروسس میں فوری علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔ زیادہ خطرے والے مریضوں کے لیے بون میرو ٹرانسپلانٹ کے آپشن پر غور کیا جاتا ہے۔ درمیانے خطرے کی صورت میں علاج عام طور پر علامات کو قابو میں رکھنے پر مرکوز ہوتا ہے۔
فوری علاج ضروری نہیں
اگر کوئی علامت ظاہر نہ ہو، تلی بڑھی ہوئی نہ ہو، یا خون کی کمی بہت ہلکی ہو تو فوری علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس صورت میں ڈاکٹر مریض کی صحت کی نگرانی کرتے ہیں اور بیماری کی پیش رفت پر نظر رکھتے ہیں۔ بعض افراد میں کئی برسوں تک علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔
خون کی کمی کا علاج
اس کے لیے یہ آپشن استعمال ہوتے ہیں:
خون کی منتقلی
اگر خون کی کمی شدید ہو تو وقتاً فوقتاً انتقال خون سے سرخ خلیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے تھکاوٹ اور کمزوری جیسی علامات میں بہتری آتی ہے۔ بعض اوقات دواؤں سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔
اینڈروجن تھیراپی
مردانہ ہارمونز کے مصنوعی ورژن سے بھی سرخ خلیوں کی پیداوار بڑھ سکتی ہے۔ یہ بعض افراد میں فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے، تاہم اس علاج کے مضر اثرات بھی ہیں۔ مثلاً جگر کو نقصان پہنچ سکتا ہے یا خواتین میں مردانہ اثرات پیدا ہوسکتے ہیں۔
مخصوص ادویات
تھالیڈومائیڈ اور لینالیدومائیڈ جیسی ادویات خون کے خلیوں کی تعداد بہتر بنانے اور تلی بڑھنے کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ یہ عام طور پر سٹیرائیڈز کے ساتھ دی جاتی ہیں۔ یہ پیدائشی نقائص کا سبب بن سکتی ہیں، اس لیے ان کا استعمال بہت احتیاط سے کیا جاتا ہے۔
بڑھی ہوئی تلی کا علاج
اگر تلی بڑھ جاننے سے پیچیدگیاں پیدا ہوں تو یہ علاج تجویز کیے جا سکتے ہیں:
ٹارگٹ شدہ ڈرگ تهیراپی
اس تھیراپی میں ہدف مخصوص جینیاتی تبدیلیاں، مثلاً ”جے اے کے2 ” میوٹیشن والے خلیے ہوتے ہیں۔ یہ تلی سے متعلق علامات کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔
کیمو تھیراپی
طاقتور ادویات کے ذریعے کینسر زدہ خلیے ختم کیے جاتے ہیں۔ کیمو تھیراپی تلی کا سائز کم کرنے اور اس سے جڑی علامات کم کرنے میں مفید ہو سکتی ہے۔
تلی نکالنے کا عمل
اگر تلی بہت زیادہ بڑھ جائے اور تکلیف یا خطرناک پیچیدگیاں پیدا کرے تو اسے سرجری کے ذریعے نکالا جا سکتا ہے۔ اس عمل کے خطرات میں انفیکشن، زیادہ خون بہنا، یا خون کے کلاٹ بننا شامل ہیں، جو فالج یا پلمونری ایمبولزم (Pulmonary Embolism) کا سبب بن سکتے ہیں۔ پلمونری ایمبولزم ایک خطرناک حالت ہے جس میں پھیپھڑوں کی شریان میں کوئی چیز (اکثر خون کا لوتھڑا) پھنس جاتی ہے، جس سے خون کا بہاؤ رک جاتا ہے۔ تلی نکالنے کے بعد بعض افراد میں پلیٹ لیٹس کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھ سکتی ہے۔
ریڈی ایشن تھیراپی
اگر تلی کو سرجری سے نکالنا ممکن نہ ہو، تو ریڈی ایشن تھیراپی (مثلاً ایکس رے یا پروٹونز) سے اس کا سائز کم کیا جا سکتا ہے۔
بون میرو ٹرانسپلانٹ
بون میرو یا سٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کے ذریعے متاثرہ بون میرو کو خون بنانے والے صحت مند خلیوں سے بدلا جاتا ہے۔ مائیلو فائبروسس کے مریضوں میں یہ عمل اکثر ڈونر سے حاصل شدہ سیلز کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اس طریقۂ علاج سے بیماری ختم ہو سکتی ہے، مگر اس میں خطرناک مضر اثرات کا امکان بھی ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال گرافٹ ورسز ہوسٹ (GVHD) ہے۔ یہ حالت بون میرو یا سٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کے بعد تب ہوتی ہے جب ڈونر کے خلیے مریض کے جسم کو دشمن سمجھ کر اس پر حملہ کرتے ہیں۔ اس سے جلد، جگر، آنتیں اور دوسرے اعضا کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
یہ علاج سب مریضوں کے لیے موزوں نہیں ہوتا، خاص طور پر وہ افراد جن کی عمر زیادہ ہو یا جنہیں دیگر طبی مسائل کا بھی سامنا ہو۔ اس علاج سے پہلے کیموتھراپی یا ریڈی ایشن سے مریض کا پرانا بون میرو ختم کیا جاتا ہے، پھر ڈونر کے سٹیم سیلز دیے جاتے ہیں۔
پیلی ایٹو کیئر
پیلی ایٹو کیئر (Palliative Care) ایسا علاجی نظام ہے جس کا مقصد زندگی کے معیار کو بہتر بنانا ہوتا ہے، خاص طور پر اُن مریضوں کے لیے جنہیں شدید یا لاعلاج بیماری لاحق ہو۔ اس میں بنیادی توجہ سنگین بیماریوں کی علامات اور تکلیف کو کم کرنے پر مرکوز ہوتی ہے۔ یہ کیئر ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر ماہرین پر مشتمل ٹیم فراہم کرتی ہے۔
یہ کیئر بیماری کے کسی بھی مرحلے پر سرجری، کیموتھیراپی یا ریڈی ایشن جیسے دیگر علاجوں کے ساتھ دی جا سکتی ہے۔ ایسے میں مریض نہ صرف بہتر محسوس کرتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں زیادہ عرصے تک زندہ بھی رہتے ہیں۔
اپوائنٹمنٹ کی تیاری
اگر آپ کے فیملی ڈاکٹر کو مائیلو فائبروسس کا شبہ ہو — جو عام طور پر تلی کے بڑھنے اور غیر معمولی خون کے ٹیسٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے — تو ممکن ہے کہ آپ کو خون کی بیماریوں کے ماہر (ہیمٹالوجسٹ) کے پاس بھیجا جائے۔ چونکہ اپوائنٹمنٹ کا وقت مختصر ہوتا ہے، اس لیے اس کی تیاری کرنا مفید ہے۔ یہاں کچھ اہم نکات دیے جا رہے ہیں جو اس میں مدد دے سکتے ہیں:
آپ کیا کر سکتے ہیں
٭ جب آپ اپوائنٹمنٹ کا وقت لیں تو ضرور پوچھیں کہ کیا آپ کو اس سے پہلے کچھ خاص تیاری کرنی ہے؟مثلاً کھانے پینے پر کوئی پابندی وغیرہ
٭ اپنی تمام علامات درج کریں، چاہے وہ اس بیماری سے متعلق نہ بھی لگیں
٭ اپنی حالیہ زندگی میں کوئی بڑا دباؤ یا تبدیلی ہوئی ہو، جیسے ذاتی یا خاندانی مسائل، تو وہ بھی نوٹ کریں
٭ جو بھی ادویات، وٹامنز یا سپلیمنٹس آپ لے رہے ہیں، ان کی مکمل فہرست تیار رکھیں
٭ کبھی کبھی اپوائنٹمنٹ کے دوران دی گئی تمام معلومات کو یاد رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر کوئی قریبی شخص آپ کے ساتھ ہو تو وہ ایسی باتیں یاد رکھ سکتا ہے جو آپ سے رہ جائیں
ڈاکٹر سے پوچھنے کے لیے سوالات
ڈاکٹر کے پاس وقت محدود ہوتا ہے، اس لیے سوالات کی ایک فہرست تیار کرنا اس وقت کو بھرپور استعمال کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ سوالات کو اہمیت کے لحاظ سے ترتیب دیں۔ سب سے اہم سوال پہلے رکھیں، تاکہ اگر وقت کم پڑ جائے تو وہ رہ نہ جائیں۔ مائیلو فائبروسس کے حوالے سے کچھ بنیادی سوالات یہ ہو سکتے ہیں:
٭ میری علامات یا بیماری کی سب سے ممکنہ وجہ کیا ہے؟
٭ اس کی دیگر ممکنہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟
٭ مجھے کس قسم کے ٹیسٹ کرانے کی ضرورت ہے؟
٭ کیا میری حالت عارضی ہے یا دائمی؟
٭ سب سے بہتر ین علاج کیا ہے؟
٭ آپ جو علاج تجویز کر رہے ہیں، کیا اس کا کوئی متبادل بھی ہے؟
٭ مجھے کچھ دیگر طبی مسائل بھی ہیں۔ میں ان سب کو اکٹھے کیسے مینج کر سکتا ہوں؟
٭ کیا مجھے کچھ خاص پابندیاں کرنا ہوں گی؟
٭ کیا مجھے کسی اور ماہر صحت سے ملنے کی ضرورت ہے؟
٭ علاج پر خرچ کتنا ہوگا، اور کیا میری انشورنس اسے کور کرے گی؟
٭ آپ جو دوا تجویز کر رہے ہیں، کیا اس کا کوئی سستا متبادل (جنیرک دوا) بھی موجود ہے؟
٭ کیا آپ کے پاس کوئی بروشر یا تحریری مواد ہے جو میں ساتھ لے جا سکوں؟ آپ کون سی ویب سائٹس تجویز کرتے ہیں؟
٭ کن باتوں سے طے ہوگا کہ مجھے فالو اپ وزٹ کی ضرورت ہے یا نہیں؟
پہلے سے تیار کیے گئے سوالات کے علاوہ کوئی اور سوال ذہن میں آئے تو پوچھنے سے مت ہچکچائیں۔
ڈاکٹر آپ سے کیا پوچھ سکتا ہے
آپ کا ڈاکٹر آپ سے کئی سوالات پوچھ سکتا ہے۔ ان کے لیے تیار رہنے سے آپ کو دیگر اہم نکات پر بات کرنے کے لیے زیادہ وقت مل سکتا ہے۔ کچھ ممکنہ سوالات یہ ہو سکتے ہیں:
٭ آپ کو پہلی بار علامات کب ظاہر ہوئیں؟
٭ کیا یہ علامات مسلسل رہتی ہیں یا وقفے وقفے سے آتی ہیں؟
٭ آپ کی علامات کتنی شدید ہیں؟
٭ کیا کسی چیز سے آپ کی علامات میں بہتری آتی ہے؟
٭ کیا ایسی کوئی چیز ہے جس سے آپ کی علامات بگڑتی ہیں؟
نوٹ: یہ مضمون قارئین کی معلومات کے لیے شائع کیا گیا ہے۔ صحت سے متعلق امور میں اپنے معالج کے مشورے پر عمل کریں۔
