نمک جتنا کم‘ اتنا بہتر

    ملازمین خواہ سرکاری ہوں یا پرائیویٹ، اکثر کے لئے ”یکم“ کا لفظ ایک خاص کشش رکھتا ہے‘ اس لئے کہ زیادہ تر جگہوں پرانہیں اس تاریخ کو ماہانہ تنخواہ (salary)ملتی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ لاطینی زبان میں لفظ سیل (sal)کا مطلب ” نمک“اور سیلری (salary) کا ”نمک سے متعلق“ کوئی بات یاچیزہے ۔عہدقدیم کے روم میں لوگوں کو کام کی اجرت یا اس کا کچھ حصہ نمک کی صورت میں دینے کا رواج تھا جس کے لئے وہ سیلری کا لفظ استعمال کرتے تھے۔بعد میں یہ اصطلاح ہر طرح کی تنخواہ کے لئے استعمال ہونے لگی۔
ہمارے ہاں کھانوں میں نمک کا استعمال اس قدرعام ہے کہ یہ لفظ ہماری گفتگوﺅں میں ہی نہیں‘ محاوروں تک میں شامل ہو گیا ہے ۔” زخموں پر نمک چھڑکنا“،”کسی کا نمک کھانا“ ، ” حق نمک ادا کرنا“ ، ”نمک حرامی یا نمک حلالی کرنا“اور ”پلکوں سے نمک چننا“ اس کی چند مثالیں ہیں۔ لوگوں کی اکثریت اس کے زیادہ استعمال کی اس قدر عادی ہے کہ اگر کھا نے میں اس کی مقدار کم ہو تو انہیں مزہ ہی نہیں آتا۔کیا نمک کا زیادہ استعمال صحت کے لئے ٹھیک ہے؟فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ماہرامراضِ قلب ڈاکٹر حامد سعیدکے مطابق اس کا جواب نفی میں ہے:
”ہمارے ہاں ہائی بلڈپریشر تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کا ایک سبب نمک کا زیادہ استعمال بھی ہے ۔جن لوگوں کے خاندان میں یہ مرض پہلے سے موجود ہو‘ ان میں یہ وقت سے پہلے نمودار ہو سکتا ہے۔ یہ گردوں کی بیماریوں کا بھی سبب بنتا ہے۔ مزیدبرآں اس کے زیادہ استعمال سے دل کے پٹھوں پر غیرضروری دباﺅ پڑتا ہے جس سے فرد مختلف مسائل‘ حتیٰ کہ ہارٹ اٹیک کا بھی شکار ہوسکتا ہے۔“
پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ‘کڈنی سنٹر کراچی میں کنسلٹنٹ ڈائی ٹیشن فائزہ خان کا کہنا ہے کہ نمک کا زیادہ استعمال موٹاپے کا بھی سبب بن سکتا ہے۔ اس کی توجیہہ پیش کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں:
”سوڈیم پانی کو جذب کر لیتا ہے لہٰذاآپ جتنا زیادہ نمک کھاتے ہیں‘ اتنی ہی پیاس زیادہ لگتی ہے۔دیکھا گیا ہے کہ بہت سے لوگ زیادہ نمکین کھانوںکے دوران یا بعد میںپیاس بجھانے کے لئے کولڈ ڈرنکس استعمال کرتے ہیں جو وزن بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔“

کتنی مقدار محفوظ ہے
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایک عام بالغ اور صحت مند آدمی کو روزانہ اوسطاً پانچ گرام نمک (چائے کا ایک چمچ) یعنی 2000 ملی گرام سوڈیم اور 3510 ملی گرام پوٹاشیم استعمال کرنا چاہئے۔ سوڈیم کی اس سے زیادہ اورپوٹاشیم کی اس سے کم مقدار کا نتیجہ ہائی بلڈپریشر میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے جو امراض قلب اور فالج کے امکانات کوبڑھا دیتا ہے۔ڈبلیو ایچ او ہی کے مطابق دنیا بھر میں ایک شخص روزانہ اوسطاً 9سے 12گرام نمک استعمال کرتا ہے جو مطلوبہ مقدار سے تقریباً دو گنا ہے۔

پوشیدہ نمک کا مسئلہ
بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے گھر میں جو ہانڈی بنتی ہے‘ اس میں ایک چمچ کے برابر نمک ڈالاجاتا ہے جو کچھ زیادہ نہیں۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فائزہ خان کہتی ہیں کہ زیادہ بڑا مسئلہ چھپا ہوا نمک ہے جس کے بارے میں ہمیں علم ہی نہیں ہوتا ۔ مثلاً بیکری کی اشیاءکی تیاری میں بیکنگ سوڈاستعمال ہوتاہے جس میں سوڈیم ایک بڑے عنصر کے طور پر شامل ہوتا ہے۔ ہم لوگ چائے کے ساتھ نمکو اور دیگر نمکین چیزیں بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔پروسیسڈ گوشت کے علاوہ کھانے کی دیگرچیزوں کو محفوظ رکھنے کے لئے نمک کی اضافی مقدار ڈالی جاتی ہے۔ ان چیزوںکے استعمال سے ہماری غذا میں نمک کا استعمال بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

توازن کیسے رکھیں
جب نمک ہماری خوراک میں ظاہری اور مخفی‘ دونوں طرح سے شامل ہو تو پھر اپنی خوراک میں اس کی مطلوبہ مقدارکیسے برقرار رکھی جا سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں یونیورسٹی آف لاہور کے اسلام آباد کیمپس میں غذائیات کے اسسٹنٹ پروفیسرعبدالمومن کہتے ہیں:
”اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ اپنی خوراک میں جنک فوڈ‘ فاسٹ فوڈ اور بیکری کی اشیاءکی بجائے قدرتی چیزیں مثلاً پھل ‘ سبزیاں‘ دودھ‘ دہی‘ ٹماٹر‘ لیموں‘ ہرا دھنیا‘ مرچیں اور سرکہ استعمال کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب ڈبہ بند چیزیں خریدیں تو ان کے لیبل ضرور پڑھیں جن پر واضح لفظوں میں لکھاہوتاہے کہ اس میں سوڈیم یا نمک کی کتنی مقدار شامل ہے۔“
اگر ہم خوردنی نمک کی 100گرام(17.58چائے کے چمچ) مقدار کاجائزہ لیں تو اس میں تقریباً 40,000ملی گرام سوڈیم ہوتا ہے۔ 100گرام دودھ میں اس کی مقدار 50 ملی گرام اور انڈے میں 80 ملی گرام ہوتی ہے۔اس کے برعکس 100 گرام ڈبل روٹی میں اس کی مقدار 250 ملی گرام، پروسیسڈ گوشت اور سنیکس میں1500 ملی گرام، سویا ساس میں 7000 ملی گرام اور چکن کیوب میں کم و بیش 20000 ملی گرام ہوتی ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدرتی اور مصنوعی چیزوں میںسوڈیم کی مقدار میں کتنا فرق ہے ۔ڈبہ یا پیکٹ بند خوراک کے ضمن میں فائزہ خان ایک عملی مسئلے کی نشاندہی کر تی ہیں:
”پاکستان میں فوڈ کنٹرول کا نظام زیادہ منظم اور موثر نہیں‘ اس لئے یہ یقین کرنامشکل ہوتا ہے کہ لیبل پر جن چیزوں کا ذکر ہے‘ وہ اتنی ہی مقدار میں اس میں موجود ہیں۔ مثلاً آپ چپس کا پیکٹ اٹھاکر دیکھ لیں۔ اس پر سوڈیم کی مقدار کم لکھی ہو گی لیکن جب آپ اسے کھائیں گے تو وہ آپ کو خاصا نمکین لگے گا۔“

کم سوڈیم والا نمک
خوردنی نمک یعنی سوڈیم کلورائیڈ میں ”سوڈیم “ ہی وہ جزو ہے جو ہائی بلڈپریشر‘ امراض قلب اورفالج کاسبب بنتاہے۔ایسے میں سوڈیم کی جگہ ”پوٹاشیم“ کے استعمال سے نیا نمک متعارف کرایا گیاہے جسے کم سوڈیم والے نمک (low sodium salt) کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ کیا اس نمک کا استعمال محفوظ ہے؟ عبدالمومن کہتے ہیں:
” بلڈپریشر کے مریضوں کے لئے اس کا استعمال نہ صرف محفوظ بلکہ فائدہ مند ہے، اس لئے کہ یہ سوڈیم کو مقدارکم کرتا ہے جس سے بلڈپریشربھی کم ہوجاتا ہے۔ جن لوگوں کو بیک وقت ہائی بلڈ پریشر اور گردوں کا مسئلہ ہو‘ ان کی غذا میں سوڈیم اور پوٹاشیم کا استعمال مریض کی صورت حال‘ عمر اور جنس کے مطابق خاص تناسب میں کیا جاتا ہے۔ “
عبدالمومن کا کہنا ہے کہ پوٹاشیم کلورائیڈ کا ذائقہ عام نمک سے قدرے مختلف ہوتا ہے جس کے عام لوگ عادی نہیں ہوتے۔ اس لئے اسے قابل قبول بنانے کے لئے اس میں عام نمک کی کچھ مقدار ملا دی جاتی ہے۔ ایسے میں وہ عام نمک کا متبادل نہیں رہتا۔ اس لئے اگر آپ پوٹاشیم کلورائیڈ استعمال کر رہے ہیں تو یہ اچھے برانڈ کاہونا چاہئے اور آپ اس کے لیبل کوا چھی طرح سے پڑھ لیں۔ ڈاکٹر حامدسعید کہتے ہیںکہ جو لوگ پیشاب آور دوائیں لے رہے ہوں یا جن کے گردے ٹھیک طرح سے کام نہ کر رہے ہوں‘ ان کے لئے یہ نمک اچھانہیں لہٰذا وہ ڈاکٹری مشورے کے بغیراسے ہرگزاستعمال نہ کریں۔
آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی کے سابق پرنسپل جنرل محمود اختر کے بقول بیلجیئم میں جب قومی سطح پر کوششوں کے نتیجے میں نمک کا استعمال مقررہ حد میں لایا گیا تو 10 سال کے اندر ہارٹ اٹیک کے 10 ملین اور فالج کے آٹھ ملین مریض کم ہوگئے۔ عالمی ادارئہ صحت کے مطابق اگرنمک کے استعمال کو متعین سطح پر لے آیا جائے تودنیا بھر میں2.5ملین اموات سے بچاجاسکتا ہے۔ اسی لئے ڈبلیو ایچ او کے ممبرممالک نے تحریراًاس بات کا عزم کیا ہے کہ 2025ءتک نمک کے استعمال کی موجودہ شرح میں 30فی صد کمی لائی جائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں کھانے پینے کی تمام چیزوں میں نمک کی مقدار قانوناً کم کر دی گئی ہے۔ جاپان میں تو اسے سفید زہر کہا جاتا ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے ایک واقعہ بھی سنایا:
” میں ایک دفعہ اپنے ایک دوست ٹوکیو (جاپان) کے ایک ہوٹل میں کھانا کھا رہا تھا کہ میرے دوست نے ویٹرس سے نمک لانے کو کہا۔ وہ روایتی انداز میں گھٹنوں کے بل ادب سے جھکی اوربولی ’ سر! معذرت خواہ ہوں، میںآپ کو سفید زہر نہیں دے سکتی۔“
اگرچہ ہمارے کلچر میں تیز نمک والی چیزیں کھانے کا رواج بہت زیادہ ہے لیکن کلچر کوئی جامد چیز نہیں اوروہ وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ اگرآج ہم اپنی غذاﺅں میں نمک کا استعمال کم کر لیں گے تو کل بہت سی بیماریوں سے بچ جائیں گے۔ جو لوگ پھیکی چائے پینے کے عادی ہیں‘ انہیں میٹھی چائے پینا ایسا ہی بدمزہ لگتا ہے جیسے میٹھی چائے پینے والوں کو پھیکی چائے پینابرا لگتا ہے۔اسی طرح کم نمک والی اشیاءشروع میں ہمیںذرا پھیکی لگیں گی لیکن جب ہم اس کے عادی ہو جائیں گے تو ان میں مزا آنے لگے گا۔مزیدبرآں اگر ہم اس چھوٹی سی قربانی کے نتیجے میں بڑی پریشانیوں اور بیماریوںسے بچ جائیں تو یہ سودا مہنگا نہیں۔

چینی نمک: حقیت اور فسانہ
     اجینو موتو یا چینی نمک کے فائدہ مند یا نقصان دہ ہونے کے بارے میں متضاد آراءپائی جاتی ہے ۔ ایک خیال یہ ہے کہ اس میں ایسا مادہ(ایم ایس جی) پایاجاتا ہے جو کینسر کاباعث بن سکتاہے۔بعض لوگوں کوسُوپ پینے کے بعد سینے میں عجیب سی جکڑن اور درد شروع ہوجاتا ہے جسے ”چائنیز ریسٹورنٹ سینڈروم“ کا نام دیا گیا ہے۔اس لئے کچھ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ اس کی بجائے چکن کیوبز استعمال کرلئے جائیں۔
    پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ‘(کڈنی سنٹر) کراچی کی کنسلٹنٹ ڈائی ٹیشن فائزہ خان اس سے اتفاق نہیں رکھتیں۔ ان کے مطابق اسے بھی قدرتی چیزوں سے اخذکیا جاتا ہے لہٰذا اس میں کوئی نقصان نہیں۔البتہ حلال اور حرام کے تناظر میں اسے لازماً دیکھ لینا چاہئے‘ اس لئے کہ اسے بعض اوقات حرام ذرائع سے بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ جب ان سے پوچھاگیا کہ اس کے بارے میں شدیدمنفی رائے کیوں پیدا ہوئی تو انہوں نے کہا:
     ”ایک تحقیق ہوئی تھی جس میں کہا گیا کہ جب چوہوں کو چائنیز نمک دیا گیاتوانہیں نہ صرف سٹروک ہو گیابلکہ ان میںدیگر منفی تبدیلیاں بھی رونما ہو گئیں۔اس پر شور تو بہت اٹھالیکن بدقسمتی سے تحقیق کے اس حصے کو نظرانداز کر دیا گیا جس میں کہاگیاتھاکہ چوہوں کو یہ نمک بہت زیادہ مقدار میں دیا گیا۔بعد میں ماہرین غذائیات اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر آپ نارمل مقدار میں یہ نمک کھائیں تو اس کا کوئی نقصان نہیں۔میری نظر میں تو یہ زیادہ بہتر ہے ‘ اس لئے کہ اس میں سوڈیم کی مقدار عام نمک سے تقریباًآدھی ہوتی ہے ۔ “
    ”ایف ڈی اے“ خوراک اور دواﺅں سے متعلق ایک امریکی ادارہ ہے جس کی گائیڈلائنزکو دنیابھر میں تسلیم کیا جاتا ہے ۔ادارے کی ویب سائٹ پراسے جی آر اے ایس (generally recognized as safe) یعنی ”بالعموم محفوظ“ کی کیٹگری میں شمار کیا گیا ہے‘ تاہم یہ بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ کچھ لوگ اس میں پائے جانے والے مخصوص جزو کے بارے میں حساس بھی ہوتے ہیں۔

کالا نمک‘ سمندری نمک اور آئیوڈین ملانمک
    یونیورسٹی آف لاہور کے اسلام آباد کیمپس میں غذائیات کے اسسٹنٹ پروفیسرعبدالمومن کے مطابق کالا نمک معدے میں تیزابیت‘ گیس اور درد سے نجات میں مدد دیتا ہے ۔اس لئے اگر سینے میں جلن ہو‘ کھاناٹھیک طرح سے ہضم نہ ہوا ہو یا کسی دن زیادہ کھالیاہو تو اس نمک کا استعمال فائدہ مند ہو سکتا ہے لیکن یہ تصور غلط ہے کہ کالا نمک نقصان دہ نہیںہے۔ ہائپرٹینشن کے حوالے سے اس کے نقصانات بھی وہی ہیں جو سفید نمک کے ہیں لہٰذا اس کی مقدار بھی دن بھر میں پانچ یا چھ گرام سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔اس کی سیاہ رنگت اورطبی فوائد اس میں پائی جانے والی گندھک کی وجہ سے ہیں۔
    ڈاکٹرحامد سعید کا کہناہے کہ جن علاقوں کی آبادی میں آئیوڈین کی کمی پائی جاتی ہے‘ وہاں کے لوگوں کو آئیوڈین ملانمک ضرور استعمال کرنا چاہئے ۔باقی جگہوں پراس کی اتنی ضرورت نہیں اور بالعموم لوگوں کو عام نمک کم مقدار میں استعمال کرنا چاہئے۔مزید برآںسمندری نمک عام نمک سے بھی بہتر ہے،اس لئے کہ اس میں ایسے عناصر زیادہ ہوتے ہیں جو جسم میں عضویاتی اور کیمیائی عمل کے لئے ضروری ہیں ۔

Vinkmag ad

Read Previous

ایک زہریلی فصل

Read Next

ڈاکٹروں کی اخلاقی تربیت

Most Popular