ایک زہریلی فصل

دنیا میں ایسی غذائیں‘ فصلیں اور اجناس بھی ہیں جنہیں استعمال کرنے سے قبل اگرٹھیک طرح سے تیار نہ کیا جائے تو وہ زہریلی ثابت ہو سکتی ہیں۔مثال کے طور پر آلو ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کی پسندیدہ سبزی ہے اور روزانہ لاکھوں ٹن کی مقدارمیں پکائی اور کھائی جاتی ہے۔ اگرآلوﺅں کو کچھ عرصے کے لئے ذخیرہ کر لیا جائے اور اس دوران اُن پر روشنی پڑ تی رہے تو ان کا رنگ قدرے سبزی مائل ہو جاتا ہے۔ اس کا سبب ان میں کلوروفل نامی مادے کا پیدا ہو جاناہے۔سبز رنگ کا یہ مادہ پودوں اور درختوں کے پتوں میں پایا جاتا ہے اوران کا سبز رنگ اسی کی وجہ سے ہے۔ یہ مضر صحت نہیں ہوتا لہٰذابہت سے جانور انہیں رغبت سے کھاتے ہیں‘ تاہم آلو میں اس کاپیدا ہونا اس بات کی نشاندہی کرتاہے کہ اس میں ایک اور زہریلا مادہ بھی پیدا ہو گیا ہے جسے سولانین ) (solanine کہا جاتا ہے ۔یہ زہر چھلکوں کے نیچے پایا جاتا ہے اور اگر آلوﺅں کا سبزحصہ کاٹ دیا جائے تو زہر بھی ہٹ جاتا ہے۔
دنیا بھر میںایسی فصلیں اگانے کو ترجیح دی جاتی ہے جن کے اندر نشاستہ(starch) زیادہ مقدار میں موجود ہو۔ چاول‘ گندم‘ جوار‘ مکی اور آلو اس کی کچھ مثالیں ہیں۔ پیداوار میں زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ قیمت میں کم ہوتی ہیں لہٰذالوگ انہیں باآسانی خرید سکتے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیاءمیں چاول اور مکئی کے بعد تیسرے نمبر پر مقبول ترین فصل کساوا (cassava) ہے جس کا پودا جھاڑی کی شکل کا ہوتا ہے۔ اگرچہ کاربوہائیڈریٹس کی کچھ مقدار اس پودے کے پتوں میں بھی پائی جاتی ہے لیکن اس کا زیادہ تر حصہ اس کی جڑ میں ہوتا ہے جو آلو کی طرح موٹی ہوتی ہے۔ اس کا رنگ آلو جیسا بھورا جبکہ شکل گاجر کی طرح لمبی ہوتی ہے۔ ایسی جڑ کو سائنس کی اصطلاح میں بصلہ (tuber) کہا جاتا ہے جو اصل میںپودے کا زیرزمین چھوٹا اور دبیز تنا ہے۔ کساوا کے موٹے سروں کا قطر اوسطاًچارانچ اور لمبائی 12 انچ ہوتی ہے جبکہ گودے کا رنگ بالکل سفید یازردی مائل ہوتا ہے۔ اس کے پودوں کو زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی لہٰذا اگر بارشیں نہ ہوں تو بھی یہ خودبخود اُگ کر بڑے ہوجاتے ہےں اور دو سال تک پھلتے پھولتے رہتے ہیں۔ ان کی اسی خوبی کی وجہ سے یہ بنجر زمین میں بھی اگ آتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ قارئین کی اکثریت ”کساوا“ کے نام سے آگاہ نہ ہو لیکن وہ ”ساگودانہ“ سے خوب واقف ہوں گے اور انہوں نے اسے پڈنگ یا کھیر کے طور پر کھایا بھی ہو گا۔ یہ اسی فصل سے بنتا ہے۔
”جہاں پھول‘وہاں کانٹے“ کے مصداق اس پودے کی ایک خامی یہ ہے کہ اس کے اندر ایک زہریلا مادہ پایا جاتا ہے جس سے سایانائیڈ) (cyanide بنتا ہے۔ اس مادے کی زیادہ تر مقدار پتوں میں ہوتی ہے جو پودے کو تحفظ فراہم کرتی ہے‘ اس لئے کہ اس کے سبب اس کے پتے کڑوے اور زہریلے ہو جاتے ہیں لہٰذا جانورانہیں کھانے سے اجتناب کرتے ہیں۔ اس پودے کو کھانے کے قابل بنانے کے لئے خاص طریقہ کار اپنایا جاتا ہے۔ اس کے لئے پتوں کو توڑ کر کئی دنوں کے لئے پانی میں گھول دیا جاتا ہے تاکہ اس دوران سایانائیڈ بخارات بن کر اڑ جائے اور زہر کی زیادہ تر مقدار ختم ہو جائے۔ یہ ایک وقت طلب اور صبرآزما لیکن ضروری عمل ہے اوراگر اس میں جلدبازی کی جائے تو اس سے تیارشدہ آٹے میں زہر کی بڑی مقدارشامل ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے جو بساوقات جان لیوا بھی ثابت ہوتی ہے۔ قحط سالی کے دنوں میںاسے تیارکرنے والوں سے اس طرح کی جلدبازی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کے زہر سے ہونے والی اموات کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ ایسی خبریں بھی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں آتی رہتی ہیں کہ فلاں سکول کے بچے زہریلا کساوا کیک کھانے کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔جاپان ایسا ملک ہے جہاں کی وزارت صحت نے کساوا کے بطور انسانی غذا استعمال پر پابندی لگا رکھی ہے لہٰذا جاپان میں کساوا کھاناقانوناً منع ہے۔
کساوا دو طرح کا ہوتا ہے جن میں سے ایک میٹھا اوردوسرا کڑوا ہے۔ میٹھے کساوا میں کوئی مٹھاس نہیں ہوتی بلکہ کڑواہٹ کی کمی وجہ سے یہ قدرے میٹھا لگتا ہے۔ میٹھے کساوا میں زہربہت کم پایا جاتا ہے لہٰذ اسے صرف ابال کر ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کی دوسری قسم میں کڑواہٹ اس میں موجود زہر اور دیگر کیمیائی مرکبات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ا س لئے اسے استعمال کرنے سے پہلے ٹھیک طرح سے تیار کرنا ضروری ہوتا ہے۔میٹھے کساوا کی فی کلوگرام تازہ جڑ سے تقریباً 20 ملی گرام سائنائیڈ بنتا ہے جبکہ اس کی کڑوی قسم میں 50 گنا سے بھی زیادہ (یعنی ایک گرام تک) زہر پایا جا سکتا ہے۔ اس کے پودوں میں زہر دو مرکبات کی صورت میں پایا جاتا ہے ۔ ان میں سے ایک کا نام لینامرین(linamarin) ہے جو زیادہ مقدار میں ہوتا ہے جبکہ دوسرے کا نام لوٹاسٹرالین) (lotaustralinہے۔ یہ زہر جسم کے اندر سایانائیڈ میں تبدیل ہو کر اپنا اثر دکھاتے ہیں۔اس کے اثرات بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک فوری اور شدید( acute ) جبکہ دوسرا طویل المعیاد (chronic ) ہے۔اول الذکر قسم میں زہر کی زیادہ مقدار جسم میں داخل ہو کر مہلک ثابت ہوتی ہے جبکہ موخرالذکر میں یہ تھوڑی تھوڑی مقدار میں شامل ہو کر جسم میں آہستہ آہستہ زہریلے اثرات پھیلاتا رہتا ہے۔ اس صورت میں یہ اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے جس سے جسم کے پٹھے بتدریج مفلوج ہو جاتے ہیں اور مریض بالاخر چلنے پھرنے سے معذور ہو جاتا ہے ۔ اسی وجہ سے اس زہر کو نیوروٹاکسن (neurotoxin) کہا جاتا ہے۔ ایسے مریضوں میں دیگر علامات بھی نمودارہوتی ہیںجن میں گلہڑ(goiter) بن جانا‘ چال میںبے ڈھنگاپن آجانا‘ہاتھوں اور پاﺅں کے پٹھوں میں کھچاﺅ اور تشنجیت (spasticity)پیدا ہو جانا اور نظر کمزور پڑ جانا شامل ہیں۔ اس بیماری کوکانزو (konzo)کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
کساوا دنیا کے اس جنوب مشرقی حصے میں 80 کروڑ لوگوں کی سٹیپل فوڈ ‘ یعنی ایسی غذا ہے جو روزانہ اور عام استعمال کی جاتی ہے۔ سائنسدانوں نے یہ بھی معلوم کیا ہے کہ مختلف فصلیں ایک دن میں فی ہیکٹر ( تقریباً 2.41 ایکڑ یا10,000مربع میٹر) زمین میں کتنی کیلوریز کی حامل غذا فراہم کرتی ہیں ۔ایک ہیکٹرزمین پر کساوا ایک دن میں اوسطاً اڑھائی لاکھ سے بھی زیادہ کیلوریز دیتی ہے۔ اس کے مقابلے میں مکئی 2 لاکھ‘ چاول ایک لاکھ76ہزار اور گندم ایک لاکھ 10 ہزار کیلوریز دیتی ہے۔ یوں کساوا ایک مفید فصل ہے بشرطیکہ اس کی تیاری میں جلد بازی اور لاپروائی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔

Vinkmag ad

Read Previous

مریض اور معالج کے تعلقات۔قابل غور پہلو

Read Next

نمک جتنا کم‘ اتنا بہتر

Most Popular