Vinkmag ad

ہراسگی کے واقعات

سکولوں اور دیگر جگہوں پر ہراسگی یا بولنگ (bullying) کے واقعات کافی عام ہیں۔ بچوں میں پائے جانے والے اس رویے کے لیے غنڈہ گردی کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔ غنڈے (bully) کی اصطلاح ایسے فرد کے لیے استعمال ہوتی ہے جو بلاوجہ دوسروں کو تنگ کر کے خوش ہوتا ہے۔ اس تنگ کرنے میں بہت سی چیزیں آ جاتی ہیں۔ ان میں مارنا پیٹنا، مذاق اڑانا، آوازیں کسنا، گالیاں دینا اور بلیک میلنگ کرنا شامل ہیں۔ بچوں کا لنچ یا استعمال کی دیگر چیزیں چھین لینا وغیرہ بھی اس کی مثالیں ہیں۔

ایسی صورت میں ذات، مذہبی عقائد، جنس یا جسمانی معذوری کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہراساں کرنے کی یہ قسم جسمانی، ذہنی یا جذباتی کسی بھی شکل میں ہو سکتی ہے۔ آج کل انٹرنیٹ کے ذریعے بھی ایسا کیا جاتا ہے۔

غنڈہ گردی میں تین کردار

اس معاملے میں تین قسم کے افراد شامل ہوتے ہیں۔ پہلا ہراساں کرنے والا، دوسرا اس کا شکار فرد اور تیسرا اس معاملے کو خاموشی سے دیکھنے والا۔

ہراساں کرنے والے بچے

ہراساں کرنے والے بچے خود کو زیادہ طاقتور، اہم یا مقبول سمجھ کر یہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ایسے بچے بعض اوقات کسی سپر ہیرو سے متاثر ہو کر بھی ایسا کرتے ہیں۔ ان رویوں کے فروغ میں ٹی وی، فلموں، انٹرنیٹ اور ویڈیو گیمز کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ رویہ دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بھی اختیار کیا جاتا ہے۔

والدین کا پر تشدد رویہ، بچوں کے حوالے سے عدم توجہی اور والدین یا بہن بھائیوں میں اختلافات بھی اس کا سبب ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات احساسِ کمتری کے شکار بچے اپنے اس احساس کو دبانے کے لیے دوسروں کو ہراساں کرتے ہیں۔ کچھ بچوں کو اندازہ نہیں ہوتا کہ کسی کو ہراساں کرنا ان کے لیے کس قدر تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔

بری صحبت یا والدین کا بےجا لاڈ پیار بھی انہیں ایسا بنا سکتا ہے۔ جب والدین بچے کو چھوٹا سمجھ کر اس کی حرکتوں کو نظرانداز کرتے ہیں تو اس میں دوسروں کو تنگ کرنے کا حوصلہ اور ترغیب پیدا ہوتی ہے۔

ہراساں ہونے والے بچے

دوسرا گروہ ایسے بچوں پر مشتمل ہے جو ہراساں کرنے والوں کا شکار بنتا ہے۔ شرمیلے اور اپنے آپ میں گم رہنے والے بچے اس کا زیادہ نشانہ بن سکتے ہیں۔ اس معاملے کا تعلق معاشرتی اور معاشی اونچ نیچ سے بھی ہے۔

کم نمبر لینے والے یا استاد کی ڈانٹ کا زیادہ شکار ہونے والے بچوں کو بھی ان کے دوست تنگ کرنے لگتے ہیں۔ بچوں کا آپس میں ایک دوسرے کو تنگ کرنا اگر ایک حد میں رہے تو اس میں حرج نہیں ہے۔ تاہم یہ حدود سے تجاوز کر جائے تو بہت سے نفسیاتی مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔

لا تعلقی کا رویہ

سکول میں ہی نہیں، معاشرے میں بھی ہراساں کرنے اور ہونے کے بے شمار واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ ان پر لوگوں کی بڑی تعداد خاموشی اور لاتعلقی کا رویہ اختیار کر لیتی ہے۔ اگر ایسا کوئی واقعہ سامنے آئے تو اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس رجحان کے فروغ کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسے روکنا اہم نہیں سمجھا جاتا۔ سکول میں اسے معمول کی اور عام سی بات سمجھ کر نظرانداز کرنے کا رویہ ہراساں کرنے اور ہراساں ہونے والے دونوں بچوں کی نفسیات پر گہرے منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

کرنے کے کام

یہ واقعات انٹرنیٹ پر ہوں یا سکولوں میں، انہیں روکنے کے لیے کچھ امور کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ وہ یہ ہیں:

٭ ہراساں کرنے والے بچے شہہ ملنے پر خود کو فتح یاب سمجھنے لگتے ہیں۔ والدین، بہن بھائیوں اور دوستوں کو چاہیے کہ ان کی غلط حرکات پر ان کا ساتھ نہ دیں۔

٭ ہراساں کرنے والے بچے کو نظرانداز کریں۔ جو بچے توجہ حاصل کرنے کے لیے دوسروں کو ہراساں کرتے ہیں، وہ نظرانداز کیے جانے پر دوبارہ تنگ نہیں کرتے۔

٭ اساتذہ ہراساں ہونے والے بچے پر خاص توجہ دیں اور اسے اکیلا نہ چھوڑیں۔ اس کے ساتھیوں کو کہیں کہ وہ اس کے ساتھ رہیں۔ ممکن ہو تو اس کی نگرانی خود کریں۔ بچوں کے والدین کو اس بارے میں ضرور آگاہ کریں۔

٭ والدین اور اساتذہ غنڈہ گردی کا نشانہ بننے والے بچے سے دوستانہ رویہ رکھیں گے۔ والدین یا بڑوں کا ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے بچے کسی کو کچھ نہیں بتا پاتے۔ لہٰذا خود ان سے پوچھیں۔ انہیں بتائیں کہ کوئی انہیں تنگ کرے تو فوراً کسی بڑے کو آگاہ کریں۔

٭ بچوں میں دوستی، محبت اور خلوص کا جذبہ تب تک فروغ نہیں پا سکتا جب تک وہ بڑوں میں اس کی جھلک نہ دیکھیں۔ اس لیے چھوٹوں پر شفقت کا عملی نمونہ پیش کریں۔ گھر میں بچے کی اچھی تربیت پر توجہ دیں۔

٭ بے جا لاڈ پیار یا ڈانٹ ڈپٹ، دونوں ہی انتہائی نقصان دہ رویے ہیں۔ بچوں کو کسی چیز سے منع کرنا ہو تو اس کی وجہ سمجھائیں۔ بچے کو جب معلوم ہی نہ ہو کہ کوئی چیز غلط کیوں ہے تو وہ کبھی اس سے باز نہیں آئے گا۔

٭ بچوں کے احساسات کو سمجھیں اور کسی پریشانی کی صورت میں ان کی مدد لازماً کریں۔

٭ دن بھر کی مصروفیات میں سے بچوں کے لیے وقت نکالیں اور ان سے بات کریں۔ بچوں کا آپ کو اپنا ہمدرد سمجھنا بہت ضروری ہے جو ان کی نفسیاتی و معاشرتی تربیت میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

تشدد کی شکار خواتین کے لیے ٹیلی میڈیسن کلینک کا آغاز

Read Next

پاکستانی نوجوانوں میں خودکشی کے رجحان میں خطرناک اضافہ

Leave a Reply

Most Popular