نوجوانوں میں بڑھتے غذائی مسائل ماہرین کے لیے تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا ان مسائل کے پھیلاؤ میں خطرناک کردار ادا کر رہا ہے۔ ان پر ایسی ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہو رہی ہیں جو بری غذائی عادات کو فروغ دیتی ہیں۔ یہ اثرات نوجوان لڑکیوں اور خواتین میں زیادہ دیکھے جا رہے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق 2000 میں غذائیت سے متعلق بیماریوں کی شرح 3.5 فیصد تھی۔ 2018 تک یہ بڑھ کر 7.8 فیصد ہو گئی۔ یہ وہی وقت تھا جب سوشل میڈیا کا استعمال دنیا بھر میں تیزی سے پھیلا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا براہِ راست اس کی وجہ نہیں، تاہم حساس ذہنوں کے لیے یہ ایک بڑا محرک بن چکا ہے۔
حال ہی میں ایسی ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں نوجوان لڑکیاں نہایت کمزور جسم دکھاتی ہیں۔ کچھ ویڈیوز میں قبض کشا ادویات یا قے کو وزن کم کرنے کے طریقے کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہ رجحان صحت کے لیے سنگین نتائج لا سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق نوجوانوں میں بڑھتے غذائی مسائل کے ساتھ ساتھ علاج کے مراحل بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ نوجوان ناقص غذائی مشوروں کو زیادہ سچ سمجھتے ہیں۔ فیک کوچز اور انفلوئنسرز غیر سائنسی، خطرناک اور گمراہ کن ہدایات دے رہے ہیں۔ ان کے اثرات اتنے گہرے ہیں کہ حقیقی ماہرین کے مشورے پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔