Vinkmag ad

ایچ آئی وی/ ایڈز

ایچ آئی وی – شفا نیوز

ایڈز (Acquired immunodeficiency syndrome) ایک خاص وائرس سے پھیلتا ہے جسے ایچ آئی وی (Human Immunodeficiency Virus) کہا جاتا ہے۔ یہ جسم کے مدافعتی نظام کو شدید نقصان پہنچاتا ہے جس سے وہ انفیکشن سے لڑنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔ جس شخص کے خون میں اس وائرس کی تصدیق ہو جائے اسے ایچ آئی وی پازیٹو کہا جاتا ہے۔ اگر علاج نہ کیا جائے تو کچھ سالوں میں یہ ایڈز میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اگرشروع میں ہی علاج کرا لیا جائے تو یہ مرض میں تبدیل نہیں ہوتا۔

علامات

مختلف مراحل میں اس کی علامات الگ ہوتی ہیں۔ ان کی تفصیل یہ ہے:

ابتدائی انفیکشن

ابتدائی انفیکشن کو ایکیوٹ ایچ آئی وی بھی کہا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کو وائرس سے متاثر ہونے کے دو سے چار ہفتوں کے بعد فلو جیسی بیماری ہو جاتی ہے۔ یہ مرحلہ کچھ دن سے کئی ہفتوں تک جاری رہ سکتا ہے۔ بعض لوگوں میں اس دوران کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ فلو کے علاوہ اس کی دیگر علامات یہ ہیں:

٭ بخار

٭ سر درد

٭ پٹھوں اور جوڑوں میں درد

٭ ریشز

٭ گلے میں درد

* منہ میں ایسا زخم جو درد کا بھی باعث ہو

٭ لمف نوڈز کی سوجن (خصوصاً گردن پر)

٭ دست لگنا

٭ وزن میں کمی ہونا

٭ کھانسی لگنا

٭ رات کو پسینے آنا

یہ علامات اتنی ہلکی ہو سکتی ہیں کہ محسوس بھی نہ ہوں۔ تاہم اس وقت بھی خون میں وائرس کی مقدار (وائرل لوڈ) زیادہ ہوتی ہے۔ ابتدائی انفیکشن کے دوران چونکہ علامات ظاہر نہیں ہوتیں لہٰذا اس مرحلے میں وائرس دوسروں تک منتقل ہونے کے امکانات اگلے مراحل سے زیادہ ہوتے ہیں۔

طویل المعیاد انفیکشن

اگلے مرحلے کو کلینیکل لیٹنٹ انفیکشن یا کرانک ایچ آئی وی کہتے ہیں۔ اس میں ایچ آئی وی مدافعتی نظام کے اہم حصے خون کے سفید خلیوں میں موجود ہوتا ہے۔ تاہم اس دوران بہت سے لوگوں میں انفیکشن کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ وہ لوگ اس مرحلے میں کئی سال تک رہ سکتے ہیں جنہوں نے اینٹی ریٹرو وائرل تھیراپی (اے آر ٹی) نہیں کرائی۔ کچھ لوگوں میں زیادہ سنگین بیماری جلد بھی نمایاں ہو جاتی ہے۔

علامات کے ساتھ انفیکشن

جب وائرس بڑھتا اور مدافعتی خلیوں کو تباہ کرتا ہے تو ہلکا انفیکشن ہو سکتا ہے۔ اس میں یہ طویل مدتی علامات بھی سامنے آ سکتی ہیں:

٭ بخار

٭ تھکاوٹ

٭ لمف غدود کی سوجن (انفیکشن کی ابتدائی علامات میں سے ایک)

٭ دست لگنا

٭ وزن میں کمی

٭  ایک خاص انفیکشن (Oral yeast infection) جسے تھرش بھی کہا جاتا ہے

٭ شنگلز، جسے ہرپیز زوسٹر بھی کہتے ہیں

٭ نمونیا

ایچ آئی وی سے ایڈز تک کا سفر

ایچ آئی وی ایڈز سے قبل سالوں تک بغیر علامات کے رہ سکتا ہے۔ اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو وہ 8 سے 10 سال میں ایڈز میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب مدافعتی نظام بہت زیادہ متاثر ہو چکا ہے۔ ایڈز کے مریضوں میں ایسی کئی بیماریاں ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جو یہ مرض نہ ہونے کی صورت میں کم ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کمزور قوت مدافعت کی وجہ سے انفیکشنز کو موقع مل جاتا ہے۔ اسی لیے انہیں موقع پرست انفیکشنز اور کینسر کی صورت میں موقع پرست کینسر بھی کہا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کو بیماری کے ابتدائی مرحلے میں بھی موقع پرست انفیکشنز ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کی علامات یہ ہیں:

٭ پسینے آنا

٭ سردی لگنا

٭ بار بار بخار ہونا

٭ مسلسل دست لگنا

٭ لمف غدود کی سوجن ہونا

٭ زبان پر یا منہ میں مستقل سفید دھبے یا زخم ہونا

٭ مسلسل تھکاوٹ رہنا

٭ کمزوری محسوس ہونا

٭ وزن میں تیزی سے کمی ہونا

٭ جلد پر ریشز ہونا

ڈاکٹر سے کب رجوع کریں

اگر آپ کو انفیکشن لگنے کا شک بھی ہو تو بلا تاخیر معالج سے رجوع کریں۔

وجوہات

ایچ آئی وی پھیلنے کی ایک اہم وجہ غیر محفوظ جنسی تعلقات ہیں۔ انفیکشنز کی اس قسم کو جنسی عمل کے ذریعے ہونے والے انفیکشنز (ایس ٹی آئیز) کہا جاتا ہے۔ ایچ آئی وی انتقال خون کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے۔ اس کا امکان اس وقت ہوتا ہے جب لوگ استعمال شدہ سرنج یا سوئیاں استعمال کرتے ہیں۔ جس خاتون کے ایچ آئی وی کا علاج نہ ہوا ہو، اس سے یہ وائرس دوران حمل، دوران زچگی یا دودھ پلانے کے دوران بچے میں منتقل ہو سکتا ہے۔

ایچ آئی وی خون کے سفید خلیوں (سی ڈی 4 ٹی) کو تباہ کرتا ہے۔ سی ڈی 4 ٹی خلیے بیماریوں سے لڑنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ جتنے کم ہوں گے، مدافعتی نظام اتنا ہی کمزور ہوتا جائے گا۔

ایچ آئی وی کیسے پھیلتا ہے

ایچ آئی وی متاثرہ خون یا عضو تناسل کے مادے کے ذریعے پھیل سکتا ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب آپ:

٭ متاثرہ فرد کے ساتھ وجائنل یا اینل جنسی تعلق قائم کرتے ہیں۔ وائرس منہ کے زخموں یا جنسی تعلق کے دوران مقعد (anus) یا اندام نہانی (vagina) کے زخموں کے ذریعے منتقل ہو سکتا ہے۔ اورل سیکس میں اس کا خطرہ نسبتاً کم ہوتا ہے

٭ نشے کا انجیکشن لگانے کے لیے سوئی شیئر کرتے ہیں۔ متاثرہ سوئیاں اور سرنجیں شیئر کرنا ایچ آئی وی کے علاوہ دیگر متعدی بیماریوں مثلاً ہیپاٹائٹس کا بھی باعث بن سکتا ہے۔

٭ آپ کو متاثرہ فرد کا خون لگا ہو۔ ہسپتال اور بلڈ بینک انتقال خون سے قبل ایچ آئی وی کی سکریننگ کرتے ہیں، اس لیے ان جگہوں پر یہ خطرہ کم ہوتا ہے۔ کم وسائل والے ایسے ممالک میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے جہاں عطیہ شدہ خون کی جانچ کا مناسب انتظام نہ ہو۔

٭ حاملہ ہوں، بچے کو جنم دیں یا دودھ پلائیں۔ ایچ آئی وی سے متاثرہ خاتون سے یہ وائرس بچے کو منتقل ہو سکتا ہے۔ ایچ آئی وی پازیٹو خواتین اگر دوران حمل علاج کرائیں تو اس کا خطرہ کم ہو سکتا ہے۔

ایچ آئی وی کیسے نہیں پھیلتا

ایچ آئی وی پازیٹو افراد سے معمول کا رابطہ اس کے پھیلاؤ کا باعث نہیں بنتا۔ یعنی:

٭ یہ مرض متاثرہ شخص کے ساتھ گلے ملنے، بوسہ لینے، رقص کرنے یا ہاتھ ملانے سے نہیں پھیلتا

٭ یہ ہوا، پانی یا کیڑوں کے کاٹنے سے نہیں پھیلتا

٭ خون عطیہ کرنے سے نہیں ہوتا

خطرناک عوامل

یہ مرض کسی بھی عمر، نسل، جنس، یا جنسی رجحان کے حامل شخص کو ہو سکتا ہے۔ تاہم، اس کا امکان زیادہ ہے اگر آپ:

٭ غیر محفوظ جنسی تعلقات قائم کریں۔ مقعد کے راستے جنسی تعلق میں اس کا خطرہ وجائنل تعلق کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ اگر آپ کے ایک سے زیادہ جنسی ساتھی ہیں تو خطرہ بڑھ جاتا ہے

٭ جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن کے شکار ہوں۔ ایسے بہت سے انفیکشنز جنسی اعضا پر کھلے زخموں کا باعث بنتے ہیں۔ ایچ آئی وی کو ان کے ذریعے جسم میں داخل ہونے کا راستہ مل جاتا ہے۔

٭ منشیات کے انجیکشن لگواتے ہیں۔ اگر آپ سوئیاں اور سرنجیں شیئر کرتے ہیں تو جراثیم آپ کے خون میں آ سکتے ہیں

پیچیدگیاں

ایچ آئی وی انفیکشن بہت سے انفیکشنز اور خاص قسم کے کینسرز کا باعث بن سکتا ہے۔ ان کی تفصیل یہ ہے:

پھیپھڑوں کا نمونیا

اسے پی سی پی (نیموسسٹس نمونیا) بھی کہتے ہیں۔ یہ ایک فنگل انفیکشن ہے جو شدید بیماری کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ ایچ آئی وی سے متاثرہ لوگوں میں نمونیا کی سب سے عام وجہ ہے۔

کینڈیڈیاسز

کینڈیڈیاسز یا تھرش ایچ آئی وی سے متعلق عام انفیکشن ہے۔ یہ منہ، زبان، غذائی نالی یا اندام نہانی پرگاڑھی، سفید تہہ بناتا ہے

ٹی بی

یہ ایچ آئی وی سے متعلق ایک عام موقع پرست انفیکشن ہے۔ ٹی بی ایڈز کے شکار افراد میں اموات کی اہم وجہ ہے۔

سائٹو میگالو وائرس

یہ ہرپیز وائرس ہے جو جسمانی مائع جات مثلاً لعاب، خون، پیشاب، منی اور دودھ میں پایا جاتا ہے۔ صحت مند مدافعتی نظام اسے غیر فعال بنا دیتا ہے تاہم یہ جسم میں موجود رہتا ہے۔ اگر مدافعتی نظام کمزور ہو جائے تو یہ فعال ہو جاتا ہے اور آنکھوں، نظام انہضام، پھیپھڑوں یا دیگر اعضاء کو نقصان پہنچاتا ہے۔

کریپٹو کوکل میننجائٹس

میننجائٹس یا گرد توڑ بخار دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے گرد جھلیوں اور سیال کی سوجن ہے۔ کریپٹو کوکل میننجائٹس ایچ آئی وی سے جڑا اعصابی نظام کا عام انفیکشن ہے۔ مٹی میں پایا جانے والا ایک فنگس اس کا سبب بنتا ہے۔ یہ انفیکشن ”ٹاکسو پلازمہ گونڈی” نامی پیراسائیٹ سے ہوتا ہے۔ یہ زیادہ تر بلیوں کے فضلے سے منتقل ہوتا ہے۔ اس سے یہ دوسرے جانوروں اور انسانوں میں پھیل سکتا ہے۔

ٹاکسو پلاسموسس

یہ دل کی بیماری کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر یہ دماغ میں پھیلے تو دورے پڑ سکتے ہیں۔ یہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

ایچ آئی وی/ایڈز سے وابستہ عام کینسرز

لمفوما

یہ کینسر خون کے سفید خلیوں میں شروع ہوتا ہے۔ اس کی ابتدائی علامت لمف نوڈز کی بغیر درد کے سوجن ہے جو زیادہ تر گردن، بغل یا رانوں کے جوڑ کے حصے میں ہوتی ہے۔

کیپوسی سارکوما

یہ خون کی نالیوں کی دیواروں کا ٹیومر ہے۔ یہ سفید رنگت والے افراد میں زیادہ تر گلابی، سرخ یا جامنی زخموں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جنہیں لیژن کہا جاتا ہے۔ سیاہ یا بھوری جلد والے افراد میں یہ گہرے بھورے یا سیاہ نظر آ سکتے ہیں۔ کیپوسی سارکوما اندرونی اعضاء مثلاً پھیپھڑوں اور نظام انہضام کے اعضاء کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔

ایچ پی وی سے منسلک کینسرز

یہ کینسرز ایچ پی وی انفیکشن کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ان میں مقعد اور منہ کے سرطان کے علاوہ سروائیکل کینسر بھی شامل ہے۔

دیگر پیچیدگیاں

ویسٹنگ سنڈروم

اگر ایچ آئی وی/ایڈز کا علاج نہ کیا جائے تو یہ وزن میں بہت زیادہ کمی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے ساتھ دست، کمزوری اور بخار بھی ہو سکتا ہے۔

اعصابی نظام کی پیچیدگیاں

ایچ آئی وی اعصابی علامات مثلاً الجھن، بھولنے، ڈپریشن، بے چینی اور چلنے میں مشکل پیدا کر سکتا ہے۔ یہ علامات رویے میں تبدیلیوں اور ذہنی کارکردگی میں کمی جیسے ہلکے اثرات سے لے کر شدید ڈیمنشیا تک ہو سکتی ہیں۔

گردے کی بیماری

ایچ آئی وی ایسوسی ایٹڈ نیفرو پیتھی (ایچ آئی وی اے این) گردے کے چھوٹے فلٹرز کی سوزش ہے۔ یہ فلٹر خون سے اضافی سیال اور فضلہ نکال کر پیشاب میں منتقل کرتے ہیں۔

جگر کی بیماری

جگر کی بیماری بھی اس کی ایک بڑی پیچیدگی ہے، خاص طور پر ان لوگوں میں جو ہیپاٹائٹس بی یا ہیپاٹائٹس سی کے بھی شکار ہوں۔

احتیاطی تدابیر

ایچ آئی وی انفیکشن کی روک تھام کے لیے کوئی ویکسین نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی علاج ہے۔ تاہم آپ خود کو اور دوسروں کو انفیکشن سے بچا سکتے ہیں۔ اس کے لیے:

 پری ایکسپوژر پروفیلیکسس (PrEP) استعمال کریں

”پری ای پی” میں دو طرح کی دوائیں شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ منہ کے ذریعے جبکہ کچھ بذریعہ انجیکشن دی جاتی ہیں۔ یہ دوائیں زیادہ خطرے میں مبتلا افراد میں جنسی طور پر منتقل ہونے والے ایچ آئی وی انفیکشن کا امکان کم کرتی ہیں۔ سی ڈی سی کے مطابق پری ای پی جنسی تعلقات کے ذریعے ایچ آئی وی کے خطرے کو تقریباً 99 فیصد اور منشیات کے انجیکشن کے ذریعے خطرے کو 74 فیصد تک کم کر سکتی ہیں۔

کیبوٹیگراویر (Apretude) ایف ڈی اے سے منظور شدہ پہلی پری ای پی ہے جسے انجیکشن کے ذریعے دیا جا سکتا ہے۔ یہ لوگوں میں جنسی طور پر منتقل ہونے والے ایچ آئی وی انفیکشن کے خطرے کو کم کرتی ہے۔ ابتدائی دو ماہ میں دو انجیکشنز کے بعد اپریٹیوڈ ہر دو ماہ بعد دیا جاتا ہے۔ پری ای پی ان افراد کو تجویز کی جاتی ہے جنہیں ایچ آئی وی انفیکشن نہ ہو۔ اسے شروع کرنے سے پہلے ایچ آئی وی ٹیسٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ میڈیسن لینے کے دوران ہر تین ماہ بعد ٹیسٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔

علاج کو بطور پرہیز اختیار کریں

ایچ آئی وی پازیٹو افراد اگر ادویات لیں تو جنسی عمل کے ذریعے وائرس کی منتقلی کو روکا جا سکتا ہے۔ اگر خون کے ٹیسٹ میں وائرس ظاہر نہیں ہوتا تو اس کا مطلب ہے کہ وائرل لوڈ قابل شناخت نہیں۔ ایسے میں وہ کسی اور کو منتقل نہیں ہو گا۔ اس مرحلے میں ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق دوا لیں اور باقاعدہ چیک اپ کروائیں۔

پوسٹ ایکسپوژر پروفیلیکسس لیں

اگر آپ کو لگتا ہے کہ جنسی تعلق، سوئیوں کے استعمال یا کسی اور وجہ سے آپ کو ایچ آئی وی کا خطرہ ہے تو فوری طور معالج سے رابطہ کریں ۔ اگر پہلے 72 گھنٹوں کے اندرپوسٹ ایکسپوژر پروفیلیکسس ( پی ای پی) لی جائے تو ایچ آئی وی کا خطرہ کافی حد تک کم ہو سکتا ہے۔ دوا 28 دن تک لینا ضروری ہے۔

ہر بار نیا کنڈوم استعمال کریں

مردانہ اور زنانہ، دونوں طرح کے کنڈومز دستیاب ہیں۔ اگر آپ لوبریکنٹ استعمال کر رہے ہیں تو یقینی بنائیں کہ یہ پانی پر مبنی ہو۔ تیل پر مبنی لوبریکنٹ کنڈوم کو کمزور کرتے ہیں جس سے وہ لیک ہو سکتا ہے۔

سیکس پارٹنر کو اپنا مرض بتائیں

اپنے موجودہ اور سابقہ سیکس پارٹنرز کو بتائیں کہ آپ کو ایچ آئی وی ہے تاکہ وہ ٹیسٹ کروائیں۔

جراثیم سے پاک سوئیاں استعمال کریں

منشیات بذریعہ انجیکشن اس کے پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ ہیں۔ اس سے پرہیز کریں یا جراثیم سے پاک سوئیاں استعمال کریں۔

حاملہ خواتین بلا تاخیر طبی مدد لیں

ایچ آئی وی رحم مادر میں موجود بچے میں منتقل ہو سکتا ہے۔ اگر دوران حمل علاج کروایا جائے تو اس خطرے کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

مرد ختنہ ضرور کروائیں

سٹڈیز سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مردانہ عضو تناسل کی جلد ہٹانے سے ایچ آئی وی انفیکشن کی منتقلی کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ اس لیے ختنہ ضرور کروائیں۔

تشخیص

ایچ آئی وی/ ایڈز - شفا نیوز

ایچ آئی وی کی تشخیص خون یا لعاب کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔ اس کے ٹیسٹ یہ ہیں:

اینٹیجن-اینٹی باڈی ٹیسٹ

ان ٹیسٹوں میں خون کا نمونہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اینٹیجن، ایچ آئی وی پر موجود ہوتے ہیں اور عموماً ایچ آئی وی کی منتقلی کے چند ہفتوں کے اندر خون میں ظاہر ہوتے ہیں۔ ایچ آئی وی کی منتقلی کی صورت میں مدافعتی نظام اینٹی باڈیز بناتا ہے۔ انہیں خون میں ظاہر ہونے میں چند ہفتوں سے لے کر مہینے تک لگ سکتے ہیں۔ اس لیے یہ امکان موجود ہے کہ ایچ آئی وی کی منتقلی کے 2 سے 6 ہفتوں کے بعد بھی ٹیسٹ کا رزلٹ نیگٹو آئے۔

اینٹی باڈی ٹیسٹ

یہ ٹیسٹ خون یا لعاب میں ایچ آئی وی کے خلاف اینٹی باڈیز تلاش کرتے ہیں۔ ایچ آئی وی کے سب سے جلد رزلٹ دینے والے ٹیسٹ اینٹی باڈی ٹیسٹ ہیں۔ تاہم اس بات کا امکان ہے کہ ایچ آئی وی کی منتقلی کے 3 سے 12 ہفتے بعد تک اس ٹیسٹ کا پازیٹو تیجہ ظاہر نہ ہو۔

نیوکلک ایسڈ ٹیسٹ (این اے ٹی)

این اے ٹی خون میں موجود وائرس کی تعداد (وائرل لوڈ) کی جانچ کرتے ہیں۔ اگر آپ میں حالیہ چند ہفتوں میں ایچ آئی منتقل ہوا ہو تو آپ کو این اے ٹی تجویز کیا جس سکتا ہے۔ اگر ٹیسٹ منفی آتا ہے تو نتائج کی تصدیق کے لیے ہفتوں سے مہینے بعد فالو اپ ٹیسٹ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

مرض کا مرحلہ اور ٹیسٹ

اگر آپ میں ایچ آئی وی تشخیص ہو چکا ہو تو ایسے ڈاکٹر سے مشورہ کریں جو ایچ آئی وی کی تشخیص اور علاج میں تربیت یافتہ ہو۔ وہ مندرجہ ذیل امور میں آپ کی مدد کر سکتا ہے:

٭ دیگر ضروری ٹیسٹوں کا فیصلہ کرنا

٭ ایچ آئی وی اینٹی ریٹرو وائرل تھیراپی ( اے آر ٹی) کے بہترین آپشن کا تعین کرنا

٭ صحت کی نگرانی اور اس کی مینجمنٹ کرنا

ایچ آئی وی ٹیسٹ مرض کے مرحلے اور علاج کی حکمت عملی کے تعین میں معالج کی مدد کرتے ہیں۔ ان کی تفصیل یہ ہے:

سی ڈی 4 ٹی سیل کاؤنٹ

سی ڈی 4 ٹی خون کے سفید خلیے ہیں جنہیں ایچ آئی وی نشانہ بنا کر تباہ کرتا ہے۔ اگر علامات نہ ہوں تو بھی ایچ آئی وی انفیکشن اس وقت ایڈز بن جاتا ہے جب ان خلیوں کی تعداد  200 سے نیچے آ جائے۔

وائرل لوڈ یا ایچ آئی وی آر این اے

یہ ٹیسٹ خون میں وائرس کی مقدار کی پیمائش کرتا ہے۔ علاج شروع کرنے کے بعد معالج کا ہدف وائرل لوڈ اتنا کم کرنا ہوتا ہے کہ یہ ٹیسٹ میں ظاہر نہ ہو۔

دواؤں کے خلاف مزاحمت

ایچ آئی وی کی بعض اقسام دواؤں کے خلاف مزاحم ہوتی ہیں۔ یہ ٹیسٹ وائرس کی مزاحمت جانچنے میں مدد دیتا ہے۔

پیچیدگیوں کے ٹیسٹ

آپ کا معالج دیگر انفیکشنز یا پیچیدگیوں کے لیے بھی لیب ٹیسٹ کا مشورہ دے سکتا ہے۔ ان میں یہ شامل ہیں:

٭ تپ دق (ٹی بی)

٭ ہیپاٹائٹس بی یا ہیپاٹائٹس سی

٭ جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریاں

٭ جگر یا گردے کو نقصان

٭ پیشاب کی نالی کا انفیکشن

٭ سروائیکل اور اینل کینسر

٭ سائٹو میگالو وائرس

٭ ٹاکسو پلاسموسز

علاج

اگر ایچ آئی وی/ایڈز ہو جائے تو جسم اسے ختم نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ایسا کوئی علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا جو اسے مکمل طور پر ختم کر دے۔ تاہم ایسی ادویات موجود ہیں جو انفیکشن کو قابو میں رکھ کر بیماری کو بگڑنے سے روک سکیں۔ ان ادویات کے سبب دنیا بھر میں ایڈز سے ہونے والی اموات کی شرح کم ہوئی ہے۔

ایچ آئی وی کی تشخیص کے بعد ہر مریض کو اینٹی ریٹرو وائرل تھیراپی (اے آرٹی) کی ادویات لینی چاہئیں، چاہے مرض کسی بھی مرحلے پر ہو۔ اے آرٹی بالعموم مختلف اقسام کی دو یا زیادہ دواؤں کا مرکب ہوتا ہے۔ اس کا مقصد خون میں ایچ آئی وی کی مقدار کم سے کم کرنا ہوتا ہے۔ ان کے متعدد آپشنز موجود ہیں۔ ان میں ایک گولی میں کئی ایچ آئی وی ادویات شامل ہوتی ہیں اور اسے روزانہ ایک بار لیا جاتا ہے۔

دواؤں کی اقسام

دواؤں کی مختلف اقسام ہیں اور ہر دوا ایچ آئی وی کو مختلف طریقے سے روکنے کا کام کرتی ہے۔ دواؤں کی مختلف اقسام کو ملا کر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ:

٭ دوا کے خلاف مزاحمت (وائرل جینو ٹائپ) کا حساب لگایا جا سکے

٭ نئی مزاحم اقسام کے ایچ آئی وی سے بچا جا سکے

٭ خون میں وائرس کو زیادہ سے زیادہ دبایا جا سکے

دواؤں کے زیادہ تر مرکبات ایک قسم کی دو دواؤں کے ساتھ دوسری قسم کی تیسری دوا کا استعمال کرتے ہیں۔

اینٹی ایچ آئی وی دواؤں کی اقسام میں یہ مرکبات شامل ہیں:

نان نیوکلیوسائیڈ ریورس ٹرانسکرپٹیز انہیبیٹرز( این این آر ٹی آئز) ایچ آئی وی کی کاپیاں بنانے کے لیے درکار پروٹین کو غیر فعال کرتے ہیں

نیوکلیوسائیڈ یا نیوکلیوٹائڈ ریورس ٹرانسکرپٹیز انہیبیٹرز( این آر ٹی آئز) ایچ آئی وی کی کاپی بنانے کے لیے درکار بنیادی بلاکس کی غلط شکل فراہم کرتے ہیں

پروٹیز انہیبیٹرز( پی آئز) ایچ آئی وی کی کاپیاں بنانے کے لیے ضروری پروٹیز کو غیر فعال کرتے ہیں

اینٹیگریس انہیبیٹرز پروٹین اینٹیگریس کو روکتے ہیں۔ ایچ آئی وی پروٹین اینٹیگریس کو سی ڈی 4 ٹی سیلز میں اپنا جینیاتی مواد داخل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے

انٹری یا فیوژن انہیبیٹرز ایچ آئی وی کو سی ڈی 4 ٹی سیلز میں داخل ہونے سے روکتے ہیں

 ایچ آئی وی/ایڈز- شفانیوز

علاج کا آغاز اور اسے جاری رکھنا

ایچ آئی وی انفیکشن کے شکار ہر فرد کو (خواہ اس میں سی ڈی 4 ٹی سیلز کی تعداد یا علامات کچھ بھی ہوں) اینٹی وائرل دوا دی جانی چاہیے۔

اے آر ٹی جاری رکھنا (جس کے نتیجے میں خون میں ایچ آئی وی کی سطح ظاہر نہیں ہوتی) صحت مند رہنے کا بہترین طریقہ ہے۔ علاج کو مؤثر بنانے کے لیے اسے تجویز کردہ طریقے سے لینا ضروری ہے۔ اے آر ٹی جاری رکھنے سے یہ فوائد حاصل ہوتے ہیں:

٭ مدافعتی نظام مضبوط رہتا ہے

٭ انفیکشن کا خطرہ کم ہوتا ہے

٭ علاج سے مزاحم ایچ آئی وی کا امکان کم ہوتا ہے

٭ دوسروں میں ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کا امکان کم ہوتا ہے

ایچ آئی وی تھیراپی پر تسلسل سے قائم رہنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اپنی مشکل کی نوعیت پر معالج سے ضرور بات کریں۔ اس کے ممکنہ موضوعات میں ضمنی اثرات، دوائیں لینے میں مشکلات، ذہنی صحت کے مسائل یا نشہ آور مواد شامل ہیں۔ اپنی صحت اور علاج کے ردعمل کو جانچنے کے لیے باقاعدہ فالو اپ اپوائنٹمنٹ لیں۔ ایچ آئی وی تھیراپی سے متعلق مسائل پر بھی معالج سے بات کریں تاکہ ان کا کوئی حل نکل سکے۔

ضمنی مضر اثرات

علاج کے کچھ ممکنہ مضر اثرات یہ ہیں:

٭ متلی، قے یا اسہال

٭ دل کی بیماری

٭ گردے اور جگر کو نقصان

٭ ہڈیوں کا کمزور ہونا

٭ کولیسٹرول کی سطح بہت زیادہ ہونا

٭ خون میں شوگر کی بلند سطح

٭ سوچنے، محسوس کرنے اور نیند سے متعلق مسائل

عمر سے متعلق امراض کا علاج

صحت کے بعض مسائل عمر بڑھنے کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں۔ ایچ آئی وی کی صورت میں ان کا علاج مشکل ہو سکتا ہے۔ مثلاً دل، ہڈیوں، یا میٹابولزم کی عام دوائیں اینٹی ایچ آئی وی ادویات کے ساتھ ٹھیک طرح سے کام نہیں کر پاتیں۔ معالج سے صحت کے دیگر مسائل اور ان کے علاج کے بارے میں بات کریں۔ اگر کوئی دوسرا ڈاکٹر کسی اور مرض کے لیے کوئی دوا تجویز کرے تو اسے ایچ آئی وی تھیراپی کے بارے میں ضرور بتائیں۔ اس سے وہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ دونوں ادویات بیک وقت لینے میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔

علاج کا رسپانس

معالج آپ کے وائرل لوڈ اور سی ڈی 4 ٹی سیلز کی تعداد کی نگرانی کرے گا تاکہ علاج کی اثرپذیری کو دیکھا جا سکے۔ پہلا چیک اپ 4 سے 6 ہفتوں کے بعد ہوتا ہے۔ اس کے بعد آپ ہر 3 سے 6 ماہ بعد اپنے ڈاکٹر سے ملاقات کرتے ہیں۔ علاج کا مقصد وائرل لوڈ کو اتنا کم کرنا ہوتا ہے کہ وہ خون میں ظاہر نہ ہو سکے۔ اس کے ظاہر نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ایچ آئی وی ختم ہو گیا ہے۔ وہ جسم میں موجود ہوتا ہے، تاہم نقصان نہیں پہنچاتا۔

طرز زندگی میں تبدیلیاں

طبی علاج کے علاوہ درج ذیل اقدامات آپ کو زیادہ عرصے تک صحت مند رہنے میں مدد دے سکتے ہیں:

صحت بخش غذا کھائیں

تازہ پھل، سبزیاں، مکمل اناج اور کم چربی والی پروٹین آپ کو طاقت، توانائی اور قوت مدافعت فراہم کرتی ہے۔ وزن کو مناسب حد میں رکھنے کے لیے مناسب تعداد میں کیلوریز استعمال کریں۔

کچے گوشت اور انڈوں سے پرہیز کریں

ایچ آئی وی میں مبتلا افراد میں خوراک سے ہونے والی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ گوشت اچھی طرح پکائیں، ایسی ڈیری مصنوعات استعمال نہ کریں جنہیں بیکٹیریا کے حوالے سے ٹریٹ نہ کیا گیا ہو، کچے انڈے اور کچی سی فوڈ نہ کھائیں۔ پانی صرف اس وقت پئیں جب اس کے محفوظ ہونے کا علم ہو

ویکسین لگوائیں

ویکسی نیشن سے عام انفیکشن مثلاً نمونیا، انفلوئنزا، کوویڈ-19 اور ایم پاکس وغیرہ سے بچا جا سکتا ہے۔ آپ کا معالج ہیپاٹائٹس اے اور بی سمیت دیگر ویکسینز تجویز کر سکتا ہے۔ زندہ وائرس والی زیادہ تر ویکسین ایچ آئی وی مریضوں کے لیے محفوظ نہیں ہوتیں۔

پالتو جانوروں سے احتیاط برتیں

کچھ جانور ایچ آئی وی پازیٹو افراد میں انفیکشن پیدا کرنے والے پیراسائٹس کے حامل ہو سکتے ہیں۔ بلی کے فضلے میں ٹوکسو پلاسموسز، رینگنے والے جانوروں میں سالمونیلا اور پرندوں میں کرپٹو کوکس یا ہسٹوپلا سموسز کے جراثیم ہو سکتے ہیں۔ پالتو جانوروں کو چھونے یا کوڑا صاف کرنے کے بعد ہاتھ اچھی طرح سے دھوئیں۔

متبادل علاج

بعض غذائی سپلیمنٹ قوت مدافعت بڑھانے یا اینٹی ایچ آئی وی ادویات کے مضر اثرات سے نپٹنے میں مدد دینے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ایسے بہت سے دعوے درست نہیں ہوتے۔ کچھ سپلیمنٹ دوسری ادویات کے اثرات میں رکاوٹ بھی ڈال سکتے ہیں۔ اس لیے ایچ آئی وی پازیٹو افراد ان کے استعمال سے قبل معالج سے مشورہ ضرور کریں۔

مفید سپلیمنٹ

ایسے شواہد کم ہیں جن سے ثابت ہوتا ہو کہ سپلیمنٹ ایچ آئی وی میں مفید ہوتے ہیں۔ محدود تحقیق کے مطابق ممکنہ طور پر کچھ مفید سپلیمنٹس یہ ہیں:

ایسیٹائل-ایل-کارنیٹین کو نیورولوجیکل درد اور کمزوری (نیوروپیتھی) میں مفید پایا گیا ہے

وے پروٹین (Whey protein) اور کچھ امینو ایسڈز وزن میں اضافہ کر سکتے ہیں

پروبائیوٹکس۔ پروبائیوٹک (Saccharomyces boulardii) ایچ آئی وی سے متعلق اسہال میں مدد دے سکتا ہے

وٹامنز اور سپلیمنٹس بھی معاون ہیں۔ اگر وٹامن اے، ڈی، ای، سی اور بی، اور زنک، آئرن اور سیلینیم کی کمی ہو تو ان کے سپلیمنٹس مددگار ثابت ہو سکتے ہیں

نقصان دہ سپلیمنٹس

سینٹ جانز ورٹ ڈپریشن کے علاج میں استعمال ہوتا ہے لیکن یہ اینٹی ایچ آئی وی ادویات کا اثر کم کر سکتا ہے

لہسن کے سپلیمنٹس مدافعتی نظام کو تقویت دے سکتے ہیں لیکن وہ اینٹی ایچ آئی وی ادویات کا اثر کم کر سکتے ہیں

ریڈ ییسٹ رائس ایکسٹریکٹ کولیسٹرول کم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر آپ پروٹیز انہیبیٹر یا اسٹیٹن لے رہے ہیں تو اسے استعمال نہ کریں۔

ذہنی و جسمانی ورزشیں

یوگا، مراقبہ اور مساج ذہنی تناؤ کم کرنے، سکون دینے اور معیار زندگی بہتر کرنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ طریقے ایچ آئی وی/ایڈز کے مریضوں کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں، تاہم اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

مرض کامقابلہ اور سپورٹ

کسی بھی جان لیوا بیماری کی تشخیص فرد میں بے چینی پیدا کر سکتی ہے۔ ایچ آئی وی/ایڈز کے جذباتی، سماجی اور مالی اثرات کا مقابلہ کرنے میں آپ کے قریبی افراد معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان مریضوں کے لیے بہت سی سروسز اور وسائل دستیاب ہیں۔ زیادہ تر ایچ آئی وی/ایڈز کلینکس میں سوشل ورکرز، کاؤنسلرزیا نرسوں کی ٹیم ہوتی ہے جو آپ کی مدد کر سکتی ہے۔ وہ آپ کو ایسے افراد تک بھی پہنچا سکتی ہے جو مختلف حوالوں سے آپ کی مدد کر سکیں۔ وہ ان امور میں آپ کی مدد کر سکتے ہیں:

٭ اپائنٹمنٹس کے لیے آمدورفت کا انتظام

٭ رہائش اور بچوں کی دیکھ بھال میں مدد

٭ روزگار اور قانونی مسائل میں معاونت

٭ مالی بحران کے دوران معاونت فراہم کرنا

ایچ آئی وی/ایڈز کے بہت سے مریضوں کا کہنا ہے کہ بیماری کے بارے میں جاننے والے کسی شخص سے بات کرنا انہیں تسلی دیتا ہے۔

اپوئنٹمنٹ کے لیے تیاری

اگر آپ کو لگے کہ آپ ایچ آئی وی سے متاثر ہیں تو سب سے پہلے اپنے فیملی فزیشن سے مشورہ کریں۔ آپ کو متعدی امراض کے ایسے ماہر کے پاس بھیجا جا سکتا ہے جو ایچ آئی وی/ایڈز کا علاج کرتا ہو۔ اپوئنٹمنٹ سے پہلے ان سوالات کے جوابات تیار رکھیں۔

٭ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ ایچ آئی وی سے کیسے متاثر ہوئے؟

٭ آپ کی علامات کیا ہیں؟

٭ کیا آپ ان عوامل (غیر محفوظ جنسی تعلق یا یا منشیات کا بذریعہ انجیکشن استعمال) کے شکار ہیں جو اس مرض کا باعث بن سکتے ہیں؟

٭ آپ کون سی ادویات یا سپلیمنٹس لے رہے ہیں؟

ڈاکٹر ان کے ذریعے آپ کی صحت اور طرز زندگی کے بارے میں جاننا چاہے گا۔ وہ جسمانی معائنہ بھی کرے گا، جس میں ان امور کا جائزہ لیا جائے گا:

٭ سوجے ہوئے لمف نوڈز

٭ جلد یا منہ میں زخم

٭ اعصابی نظام میں مسائل

٭ سینے سے غیر معمولی آوازیں آنا

٭ پیٹ میں سوجے ہوئے اعضاء

اس دوران آپ کیا کر سکتے ہیں

اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ ایچ آئی وی سے متاثر ہیں تو اپوائنٹمنٹ سے پہلے خود کو اور دوسروں کو محفوظ رکھنے کا اہتمام کریں۔ غیرمحفوظ جنسی تعلق قائم نہ کریں، منشیات کے بذریعہ سرنج استعمال سے بچیں یا ہمیشہ نئی اور صاف سوئی استعمال کریں۔

 

Vinkmag ad

Read Previous

کورنیا کے عطیات کے لیے سرکاری سرپرستی میں مہم کی ضرورت

Read Next

پاکستان میں 2 لاکھ افراد ایچ آئی وی/ایڈز کے شکار

Leave a Reply

Most Popular