Vinkmag ad

ایچ پائلوری (ہلیکو بیکٹر پائلوری) انفیکشن

ایچ پائلوری (H. pylori) یا ہلیکو بیکٹر پائلوری (Helicobacter pylori) ایک بیکٹیریم (جمع بیکٹیریا) ہے جو معدے کی دیوار میں پایا جاتا ہے۔ اس کے جسم میں داخل ہونے پر انفیکشن ہو سکتا ہے۔ دنیا کی کم و بیش نصف آبادی میں اس کے پائے جانے کا امکان ہے۔ اکثر لوگوں کو اس کا علم نہیں ہوتا، اس لیے کہ وہ اس کی وجہ سے بیمار نہیں ہوتے۔ 

یہ بیکٹیریا معدے یا چھوٹی آنت کی اندرونی دیوار پر زخم، یعنی پپٹک السرکا سبب بنتا ہے۔ اگر کسی فرد میں اس کی علامات ظاہر ہوں تو ڈاکٹر ایچ پائلوری کا ٹیسٹ کرواتا ہے۔ اس کا علاج اینٹی بائیوٹک دواؤں سے کیا جاتا ہے۔

علامات

ایچ پائلوری کی موجودگی کے باوجود زیادہ تر لوگوں میں انفیکشن کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ یہ واضح نہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ بظاہر کچھ لوگوں میں اس کا سبب ان جراثیم کے خلاف ان کی قوت مزاحمت کا زیادہ ہونا ہے۔ جب علامات ظاہر ہوتی ہیں تو وہ بالعموم گیسٹرائٹس یا پپٹک السر سے متعلق ہوتی ہیں۔ ان میں یہ شامل ہیں:

٭ معدے میں درد یا جلن کی کیفیت 

٭ ایسا درد جو خالی پیٹ رہنے پر زیادہ ہو جائے

٭ متلی

٭ بھوک کم لگنا

٭ بار بار ڈکار آنا

٭ پیٹ پھولنا

٭ وزن کم ہونا

ڈاکٹر سے کب رجوع کریں

امراض معدہ و جگر کے ماہر ڈاکٹر (گیسٹرو انٹرولوجسٹ) اس کا علاج کرتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی علامت سامنے آئے تو بلا تاخیر طبی مدد حاصل کریں:

٭ پیٹ میں ایسا شدید یا مسلسل درد جو رات کو نیند سے جگا دے

٭ خون آلود یا گاڑھا سیاہ پاخانہ آنا

٭ خون آلود یا سیاہ الٹی آنا، یا ایسی الٹی جو کافی کے پاؤڈر جیسی لگے

وجوہات

ایچ پائیلوری انفیکشن ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہو سکتا ہے۔ اس کے ذرائع تھوک، قے یا پاخانہ ہیں۔ یہ آلودہ خوراک یا پانی کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے۔ یہ بات مکمل طور پر واضح نہیں کہ ایچ پائلوری کچھ لوگوں میں گیسٹرائٹس یا پپٹک السر کیسے پیدا کرتا ہے۔

خطرے کے عوامل

اکثر لوگوں کو یہ انفیکشن بچپن میں ہوتا ہے۔ خطرے کے عوامل کا تعلق بچپن کے رہائشی حالات سے ہوتا ہے، جیسے:

پرہجوم گھر میں رہنا: پر ہجوم گھر میں رہنا ایچ پائلوری کے انفیکشن کا خطرہ بڑھا دیتا ہے

صاف پانی کی عدم فراہمی: صاف اور بہتے پانی کی فراہمی انفیکشن کا خطرہ کم کرتی ہے

ترقی پذیر ممالک میں رہائش: ان ممالک میں پرہجوم گھروں اور غیر صحت بخش ماحول میں رہنا زیادہ عام ہے

مریض کے ساتھ رہنا: ایچ پائلوری انفیکشن والے شخص کے ساتھ رہنے سے اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے

پیچیدگیاں

ایچ پائلوری کے انفیکشن سے منسلک کچھ پیچیدگیاں یہ ہیں:

السر: ایچ پائلوری معدے اور چھوٹی آنت کی حفاظتی جھلی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس سے معدے کا تیزاب زخم (السر) بنا سکتا ہے۔ ایچ پائلوری کے حامل تقریباً 10فیصد افراد السر کا شکار ہو جاتے ہیں

معدے کی جھلی کی سوزش: ایچ پائلوری کا انفیکشن معدے میں جلن اور سوجن پیدا کر سکتا ہے

معدے کا کینسر: ایچ پائلوری کا انفیکشن معدے کے بعض کینسرز کا اہم سبب بن سکتا ہے

احتیاطی تدابیر 

جن علاقوں میں ایچ پائلوری بیکٹیریا اور اس سے جڑی بیماریاں عام ہوں، وہاں خصوصی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان علاقوں میں بعض اوقات صحت مند لوگوں کا بھی ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ علامت ظاہر نہ ہونے کے باوجود ٹیسٹ کے فائدہ مند ہونے یا نہ ہونے پر ماہرین کی آراء میں اختلاف ہے۔

اگر ایچ پائلوری کا شک ہو یا معدے کے سرطان کا خطرہ محسوس ہو تو ڈاکٹر سے بات کریں۔ وہ آپ کی حالت دیکھ کر ٹیسٹ کرانے یا نہ کرانے کا فیصلہ کرے گا۔

تشخیص

ایچ پائلوری (ہلیکوبیکٹر پائلوری) انفیکشن- شفا نیوز

ایچ پائلوری کی تشخیص کے لیے مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ یہ پاخانے، سانس یا اینڈوسکوپی کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔

سٹول اینٹی جن ٹیسٹ: یہ سب سے عام ٹیسٹ ہے جس میں پاخانے میں ایچ پائلوری سے متعلق پروٹینز (اینٹی جنز)  تلاش کی جاتی ہیں

سٹول پی سی آر ٹیسٹ: اس میں بیکٹیریا کے ڈی این اے کے ذریعے ایچ پائلوری کی شناخت کی جاتی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کون سا اینٹی بائیوٹک اس پر اثر نہیں کرتا 

سانس کا ٹیسٹ: اسے یوریا بریتھ ٹیسٹ کہا جاتا ہے۔ اس میں مریض کو گولی، مائع یا پڈنگ نگلنے کے لیے دیا جاتا ہے جس میں کاربن کے خاص مالیکیول ہوتے ہیں۔ اگر فرد میں ایچ پائلوری ہو تو یہ کاربن سانس میں خارج ہوتا ہے۔

مریض ایک تھیلی میں سانس خارج کرتا ہے۔ اس میں کاربن کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے ایک آلہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ بالغ افراد اور چھ سال سے بڑے بچوں میں کیا جا سکتا ہے۔

اینڈوسکوپی: اگر علامات السر یا گیسٹرائٹس کی طرف اشارہ کرتی ہوں تو معالج اپر اینڈوسکوپی تجویز کر سکتا ہے۔ اس میں کیمرے والی ایک نلکی گلے کے ذریعے معدے میں ڈالی جاتی ہے۔ اس کے ذریعے ڈاکٹر ہاضمے کے نظام کا جائزہ لیتا ہے۔ اگر ضروری ہو تو وہ ٹشو کا نمونہ بھی لیتا ہے۔

یہ ٹیسٹ عام طور پر تب کیا جاتا ہے جب علامات خطرناک ہوں، پہلی دوا سے فرق نہ پڑے، یا دوبارہ جانچ کی ضرورت ہو۔ اگر پہلی بار دیے گئے اینٹی بائیوٹک سے انفیکشن ختم نہ ہو تو اس سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کون سی دوا بہتر رہے گی۔ یہ ٹیسٹ علاج کے بعد بھی کیا جاتا ہے، خاص طور پر اگر علامات جاری رہیں یا پہلے ٹیسٹ میں کچھ خاص باتیں سامنے آئی ہوں۔

ٹیسٹ سے متعلق احتیاطیں

٭ اگر آپ اینٹی بائیوٹکس لے رہے ہوں تو ایچ پائلوری ٹیسٹ کا نتیجہ غلط آ سکتا ہے۔ اسی لیے عموماً دوبارہ ٹیسٹ اس وقت کیا جاتا ہے جب اینٹی بائیوٹک لیے ہوئے کم از کم چار ہفتے گزر چکے ہوں

٭ معدے کی تیزابیت کم کرنے والی کچھ دوائیں بھی ٹیسٹ کے نتائج پر اثرانداز ہو سکتی ہیں۔ اس لیے ممکن ہے ٹیسٹ سے دو ہفتے پہلے وہ دوا بند کروا دی جائے

علاج

ایچ پائلوری کے انفیکشن کا علاج عموماً بیک وقت کم از کم دو مختلف اینٹی بایوٹکس کے ساتھ کیا جاتا ہے تاکہ بیکٹیریا کسی خاص دوا کے خلاف مزاحمت پیدا نہ کر سکیں۔ علاج میں وہ دوائیں بھی شامل ہو سکتی ہیں جو معدے کو ٹھیک کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

علاج مکمل ہونے کے چار ہفتوں بعد دوبارہ ایچ پائلوری کا ٹیسٹ تجویز کیا جاتا ہے۔ اگر ٹیسٹ سے معلوم ہو کہ انفیکشن ختم نہیں ہوا تو نئے اینٹی بائیوٹک کمبی نیشن کے ساتھ دوبارہ علاج کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

معالج سے ملاقات کی تیاری

اگر ایچ پائلوری انفیکشن کی پیچیدگیوں کی علامات ظاہر ہوں تو بلا تاخیر ماہر امراض معدہ و جگر سے رجوع کریں۔ یہاں کچھ معلومات دی جا رہی ہیں جو اس ملاقات کی تیاری میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں:

آپ کیا کر سکتے ہیں

جب ملاقات کا وقت طے کریں تو اس سے پوچھ لیں کہ اس کے پاس آنے سے پہلے کچھ خاص پرہیز تو نہیں کرنی؟ ممکنہ سوالات کی فہرست بنا لیں تاکہ ملاقات زیادہ مؤثر ثابت ہو۔ کچھ سوالات یہ ہو سکتے ہیں:

٭ ایچ پائلوری کی وجہ سے مجھے یہ پیچیدگیاں کیوں ہوئیں؟

٭ کیا اس کی وجہ سے دیگر پیچیدگیاں بھی ہو سکتی ہیں؟

٭ مجھے کون سے ٹیسٹ کروانا ہوں گے؟

٭ کیا ان ٹیسٹوں کے لیے کسی خاص تیاری کی ضرورت ہے؟

٭ علاج کے کون سے آپشنز دستیاب ہیں؟

٭ آپ کون سا علاج تجویز کرتے ہیں؟

٭ مجھے کیسے علم ہو گا کہ علاج سے فائدہ ہو رہا ہے؟

ملاقات کے دوران جو بھی سوال ذہن میں آئے، پوچھنے سے مت ہچکچائیں۔

ڈاکٹر کے سوالات

آپ کا معالج آپ سے یہ سوالات پوچھ سکتا ہے:

٭ کیا آپ کی علامات مستقل ہیں یا کبھی کبھار ظاہر ہوتی ہیں؟

٭ علامات کتنی شدید ہیں؟

٭ علامات کب شروع ہوئیں؟

٭ کیا کچھ چیزیں علامات کو بہتر یا خراب کرتی ہیں؟

٭ کیا آپ کے والدین یا بہن بھائیوں کو بھی ایسے مسائل ہیں؟

٭ آپ کون سی ادویات یا سپلیمنٹس باقاعدگی سے لیتے ہیں؟

٭ کیا آپ کوئی پین کلر لیتے ہیں؟

نوٹ: یہ مضمون قارئین کی معلومات کے لیے شائع کیا گیا ہے۔ صحت سے متعلق امور میں اپنے معالج کے مشورے پر عمل کریں۔

Vinkmag ad

Read Previous

برطانیہ کے سرکاری ہسپتالوں میں سرجری کے لیے 11 روبوٹس کی منظوری

Read Next

بچے گھر سے نکلنے کے بجائے سکرینز میں گم، سروے میں انکشاف

Leave a Reply

Most Popular