گیلین بری سنڈروم (Guillain-Barre syndrome) ایک نایاب اعصابی بیماری ہے۔ جسم کا مدافعتی نظام عموماً جراثیم کا مقابلہ کرتا ہے، تاہم اس مرض میں وہ اعصاب پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں کمزوری، جسم سن ہونے یا فالج کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔
مرض کی ابتدائی علامات عموماً ہاتھوں اور پیروں میں کمزوری اور چبھن ہیں، جو تیزی سے پھیل کر فالج کا سبب بن سکتی ہیں۔ اگر بیماری شدت اختیار کر جائے تو یہ میڈیکل ایمرجنسی بن جاتی ہے۔ اس میں زیادہ تر مریضوں کو ہسپتال میں داخل ہو کر علاج کی ضرورت پڑتی ہے۔
اس بیماری کی بنیادی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی۔ تاہم، تقریباً دو تہائی مریضوں میں اس کی علامات ظاہر ہونے سے چھ ہفتے پہلے کسی انفیکشن کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ سانس کا انفیکشن، آنتوں کا انفیکشن یا کووِڈ-19 اس کی مثالیں ہیں۔ یہ مرض زیِکا وائرس کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔
گیلین بری سنڈروم کا کوئی ایسا علاج نہیں جو اسے جڑ سے ختم کر دے۔ تاہم ایسے علاج موجود ہیں جوعلامات کو کم کرنے اور صحت یابی کے عمل کو تیز کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ بیشتر مریضوں کی حالت کافی بہتر ہو جاتی ہے، تاہم کچھ سنگین صورتیں جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔
صحت یابی میں کئی سال بھی لگ سکتے ہیں، تاہم زیادہ تر افراد چھ ماہ میں دوبارہ چلنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ بعض افراد میں دیرپا اثرات، جیسے کمزوری، سن ہونے یا شدید تھکاوٹ کا باقی رہ سکتا ہے۔
علامات

گیلین بری سنڈروم عام طور پر جھنجھناہٹ اور کمزوری کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ اس کا آغاز پیروں اور ٹانگوں سے ہوتا ہے، اور پھر یہ کیفیت اوپر کے دھڑ اور بازوؤں تک پھیل جاتی ہے۔ کچھ افراد کو پہلی علامات بازوؤں یا چہرے میں محسوس ہوتی ہیں۔ مرض بڑھنے پر پٹھوں کی کمزوری فالج کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ گیلین بری سنڈروم کی علامات یہ ہیں:
٭ انگلیوں، پیروں، ٹخنوں یا کلائیوں میں سوئیاں سی چبھنے کا احساس ہونا
٭ ٹانگوں میں کمزوری جو اوپر کے جسم تک پھیل جاتی ہے
٭ چلنے میں لڑکھڑاہٹ یا چلنے اور سیڑھیاں چڑھنے کے قابل نہ ہونا
٭ چہرے کی حرکات متاثر ہونا،جیسے بولنے، چبانے یا نگلنے میں دقت ہونا
٭ دہری نظر ہونا یا آنکھوں کو حرکت نہ دے پانا۔ مرض کے اعصاب یا آنکھوں کے پٹھوں پر حملے کے نتیجے میں دونوں آنکھیں درست طریقے سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتیں۔ نتیجتاً مریض کو ایک ہی شے دو بار نظر آتی ہے
٭ شدید درد جو تیز یا سنسناہٹ جیسا محسوس ہو سکتا ہے اور رات کے وقت بڑھ سکتا ہے
٭ پیشاب اور پاخانے کے کنٹرول میں دشواری ہونا
٭ دل کی دھڑکن تیز ہونا
٭ بلڈ پریشر کم یا زیادہ ہونا
٭ سانس لینے میں دقت ہونا
مریض عموماً علامات ظاہر ہونے کے دو ہفتے بعد سب سے زیادہ کمزوری محسوس کرتے ہیں۔
مرض کی اقسام
بیماری کی علامات کا انحصار اس کی قسم پر ہوتا ہے۔ مرض کی بنیادی اقسام یہ ہیں:
اے آئی ڈی پی
اے آئی ڈی پی (Acute Inflammatory Demyelinating Polyradiculoneuropathy) شمالی امریکہ اور یورپ میں اس کی سب سے عام قسم ہے۔ اس کی عام علامت پٹھوں کی کمزوری ہے جو جسم کے نچلے حصے سے شروع ہو کر اوپر کی طرف پھیلتی ہے۔
ایم ایف ایس
مرض کی اس قسم (Miller Fisher syndrome) میں فالج آنکھوں سے شروع ہوتا ہے۔ لڑکھڑا کر چلنے کا تعلق ایم ایف ایس کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ یہ قسم امریکہ میں کم عام ہے اور ایشیاء میں زیادہ پائی جاتی ہے۔
اے ایم اے این اور اے ایم ایس اے این
اے ایم اے این (Acute Motor Axonal Neuropathy) اور اے ایم ایس اے این (Acute Motor-Sensory Axonal Neuropathy)
امریکہ میں کم عام ہیں۔ یہ چین، جاپان اور میکسیکو میں زیادہ پائی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر سے کب رجوع کریں

اگر آپ کو انگلیوں یا پیروں میں ہلکی جھنجھناہٹ محسوس ہو رہی ہو، جو نہ پھیل رہی ہو اور نہ ہی بگڑ رہی ہو، تو بھی معالج سے رجوع کریں۔ درج ذیل سنگین علامات کی صورت میں فوری طور پر طبی امداد حاصل کریں:
٭ جھنجھناہٹ جو پیروں یا انگلیوں سے شروع ہو کر جسم کے اوپر کی طرف بڑھ رہی ہو
٭ جھنجھناہٹ یا کمزوری جو تیزی سے پھیل رہی ہو
٭ سانس لینے میں دشواری یا سیدھا لیٹنے پر سانس پھولتا ہو
٭ لعاب کی وجہ سے دم گھٹتا ہو۔ گیلین بری سنڈروم میں مریض کے گلے یا سانس کی نالی کے پٹھے ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتے۔ اس وجہ سے لعاب کو نگلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس سے وہ گلے میں پھنس کر سانس کی تکلیف کا باعث بن سکتا ہے
گیلین بری سنڈروم ایک سنگین حالت ہے۔ اس میں فوری طور پر ہسپتال میں داخلے کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے کہ مرض تیزی سے بگڑ سکتا ہے۔ علاج جتنی جلدی شروع کیا جائے، صحت یابی کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں۔
وجوہات
گیلین بری سنڈروم کی بنیادی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی، لیکن یہ عام طور پر سانس یا آنتوں کے انفیکشن کے چند دن یا ہفتے بعد ظاہر ہوتا ہے۔ بہت ہی کم صورتوں میں کسی تازہ سرجری یا ویکسینیشن کے بعد بھی گیلین بری سنڈروم ہو سکتا ہے۔
اے آئی ڈی پی میں، اعصاب کے حفاظتی غلاف (مائیلین شیتھ) کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس کی وجہ سے اعصاب دماغ تک سگنل پہنچانے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں کمزوری، سن ہونے یا فالج جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔
گیلین بری سنڈروم ان عوامل سے متحرک ہوتا ہے:
٭ کیمپائیلو بیکٹر (Campylobacter) کی وجہ سے انفیکشن۔ یہ بیکٹیریا مرغی کے ایسے گوشت میں پائے جاتے ہیں جسے اچھی طرح سے پکایا نہ گیا ہو
٭ انفلوئنزا وائرس
٭ سائٹو میگالو وائرس
٭ ایپسٹین بار وائرس
٭ زیکا وائرس
٭ ہیپاٹائٹس اے، بی، سی اور ای
٭ ایچ آئی وی
٭ مائیکو پلازما نمونیا
٭ سرجری
٭ چوٹ
٭ ہوجکن لمفوما
٭ بہت ہی کم صورتوں میں، انفلوئنزا ویکسین یا بچپن کی دیگر ویکسینز
٭ کووڈ-19 وائرس
خطرے کے عوامل
گیلین بری سنڈروم ہر عمر کے افراد کو متاثر کر سکتا ہے، لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ اس کا خطرہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ خواتین کے مقابلے میں یہ مردوں میں کچھ زیادہ عام پایا جاتا ہے۔
پیچیدگیاں
گیلین بری سنڈروم اعصاب کو متاثر کرتا ہے۔ چونکہ اعصاب حرکات اور جسمانی افعال کو کنٹرول کرتے ہیں، اس لیے مریضوں کو ان مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے:
سانس لینے میں دقت
کمزوری یا فالج سانس کنٹرول کرنے والے پٹھوں تک پھیل سکتا ہے۔ ایسے میں یہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ تقریباً 22 فیصد افراد کو پہلے ہفتے میں سانس لینے کے لیے مشین کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
سن ہونا یا دیگر احساسات
گیلین بری سنڈروم کے زیادہ تر مریض مکمل طور پر صحت یاب ہو جاتے ہیں، لیکن بعض مریضوں کو معمولی کمزوری، سن ہونے یا جھنجھناہٹ کا مسئلہ رہتا ہے۔ یہ اثرات عموماً وقت کے ساتھ کم ہو جاتے ہیں، لیکن کچھ افراد میں یہ لمبے عرصے تک رہ سکتے ہیں۔
دل اور بلڈ پریشر کے مسائل
بلڈ پریشر میں اتار چڑھاؤ اور دل کی بے ترتیب دھڑکن اس کے عام سائیڈ افیکٹس ہیں
درد
گیلین بری سنڈروم کے ایک تہائی مریض اعصابی درد کی شکایت کرتے ہیں۔ اسے میڈیسن کے ذریعے کم کیا جا سکتا ہے۔
پیشاب اور پاخانے کے مسائل
گیلین بری سنڈروم کی وجہ سے پیشاب اور پاخانے کے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے
خون جمنا
گیلین بری سنڈروم کی وجہ سے کچھ لوگ جسمانی طور پر متحرک نہیں ہو پاتے۔ اس وجہ سے انہیں خون جمنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ جب تک وہ چلنے کے قابل نہیں ہو جاتے، تب تک انہیں خون پتلا کرنے والی ادویات لینے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ خون کی گردش کو بہتر بنانے کے لیے مخصوص موزے پہننا بھی مفید ہوتا ہے۔
بستر پھوڑے
اگر آپ حرکت نہیں کر سکتے تو آپ کو بستر پھوڑے (bed sore) کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ لیٹتے ہوئے پوزیشن بدلتے رہنا اس مسئلے سے بچنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
دوبارہ بیماری
گیلین بری سنڈروم سے صحت یاب ہونے والوں میں سے کچھ لوگوں کو یہ بیماری دوبارہ ہو سکتی ہے۔ مرض کا دوبارہ حملہ کئی سال بعد بھی پٹھوں کی کمزوری پیدا کر سکتا ہے۔
جب ابتدائی علامات بگڑ جاتی ہیں تو طویل مدتی سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ نایاب صورتوں میں، سانس لینے میں دقت اور دل کے دورے کی وجہ سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
تشخیص

گیلین بری سنڈروم کی علامات دیگر بیماریوں سے ملتی جلتی ہیں، اور یہ مختلف افراد میں مختلف بھی ہو سکتی ہیں۔ اس لیے ابتدائی مراحل میں اس کی تشخیص مشکل ہو سکتی ہے۔ معالج سب سے پہلے میڈیکل ہسٹری لے گا، اور تفصیلی جسمانی معائنہ کرے گا۔ اس کے بعد وہ یہ ٹیسٹ تجویز کر سکتا ہے:
سپائنل ٹیپ (لمبر پنکچر)
کمر کے نچلے حصے سے ریڑھ کی ہڈی کے مائع کا تھوڑا سا نمونہ لیا جاتا ہے۔ اس کی مدد سے گلین بری سنڈروم میں خاص تبدیلیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے
الیکٹرو مائیوگرافی
اس ٹیسٹ میں باریک سوئیوں کے ذریعے پٹھوں کی حرکت اور اعصاب کی سرگرمی کو چیک کیا جاتا ہے۔
جلد پر الیکٹروڈز لگا کر اعصاب میں ہلکا سا جھٹکا دیا جاتا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ سگنل کتنی تیزی سے سفر کرتے ہیں۔
علاج
گیلین بری سنڈروم کا ایسا علاج موجود نہیں جو بیماری کو ختم کر دے۔ تاہم دو قسم کے علاج صحت یابی کو تیز اور علامات کو کم کر سکتے ہیں:
پلازما ایکسچینج (پلازما فیریسس):
پلازما خون کا مائع حصہ ہوتا ہے۔ اس عمل میں پلازما کو خون کے خلیوں سے الگ کر لیا جاتا ہے اور خلیوں کو جسم میں واپس ڈال دیا جاتا ہے۔ اس سے جسم میں نیا پلازما بنتا ہے۔ اس میں سے ان اینٹی باڈیز کو نکال دیا جاتا ہے جو اعصابی خلیوں پر حملہ کرتی ہیں۔
امونیو گلوبلن تھیراپی
خون کے عطیہ دہندگان سے حاصل کردہ صحت مند اینٹی باڈیز پر مشتمل امونیو گلوبلن کو رگ کے ذریعے دیا جاتا ہے۔ امونیو گلوبلن کی زیادہ خوراک گیلین بیرے سنڈروم میں مدد دینے والے نقصان دہ اینٹی باڈیز کو بلاک کر سکتی ہے۔
یہ علاج یکساں طور پر مؤثر ہیں۔ ان کو ملا کر یا ایک کے بعد ایک استعمال کرنے سے کوئی زیادہ فائدہ نہیں ہوتا، دونوں طریقے الگ الگ استعمال کرنے پر ویسے ہی مؤثر ہیں۔
درد کی شدت کم کرنے کے لیے دوا دی جا سکتی ہے۔ خون جمنے سے روکنے کے لیے بھی میڈیسن دی جا سکتی ہے۔
گیلین بری سنڈروم کے مریضوں کو صحت یابی سے پہلے اور دوران جسمانی مدد اور تھیراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کی کیئر میں یہ امور شامل ہو سکتے ہیں:
٭ صحت یابی سے پہلے آپ کے ہاتھوں اور پیروں کو تھیراپسٹ کے ذریعے حرکت دینا، تاکہ آپ کے پٹھے لچکدار اور مضبوط رہیں
٭ صحت یابی کے دوران فزیوتھیراپی، تاکہ آپ تھکاوٹ سے نپٹ سکیں اور طاقت اور صحیح حرکت دوبارہ حاصل کر سکیں
٭ ایڈاپٹیو ڈیوائسز (وہیل چیئر یا بریسز) کے ساتھ تربیت، تاکہ آپ کو حرکت اور سیلف کیئر میں مہارت حاصل ہو سکے۔
صحت یابی کا دورانیہ
صحت یابی میں مہینوں اور کبھی کبھار سالوں لگتے ہیں۔ تاہم، زیادہ تر لوگوں کا دورانیہ یہ ہوتا ہے:
٭ پہلی علامات کے بعد یہ حالت تقریباً دو ہفتے تک مسلسل بگڑتی ہے
٭ علامات چار ہفتوں کے اندر ایک خاص سطح تک پہنچ جاتی ہیں
٭ صحت یابی کے عمل کا آغاز ہوتا ہے، جو عموماً 6 سے 12 ماہ تک جاری رہتا ہے۔ بعض لوگوں کو اس میں تین سال بھی لگ سکتے ہیں
گیلین بری سنڈروم سے صحت یاب ہونے والے بالغ افراد میں:
٭ تقریباً 80 فیصد افراد چھ ماہ بعد خود چلنے کے قابل ہو جاتے ہیں
٭ تقریباً 60 فیصد افراد ایک سال بعد مکمل طور پر پٹھوں کی طاقت حاصل کر لیتے ہیں
٭ 5 سے 10فیصد افراد کی صحت یابی بہت سست اور ادھوری ہوتی ہے
بچے بہت ہی کم اس کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر ہو بھی جائیں تو عموماً بالغوں کی نسبت زیادہ مکمل طور پر صحت یاب ہوتے ہیں۔
مرض کا مقابلہ کرنا اور سپورٹ
اگر کسی شخص میں گیلین بری سنڈروم کی تشخیص ہو جائے تو یہ اس کے لیے جذباتی طور پر مشکل صورت حال ہو سکتی ہے۔ اگرچہ زیادہ تر لوگ بالاۤخر صحت یاب ہو جاتے ہیں، تاہم یہ حالت عام طور پر تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اس کے لیے ہسپتال میں داخلے اور مہینوں تک فزیو تھیراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔ گیلین بری سنڈروم کے مریضوں کو محدود حرکت اور تھکاوٹ کے ساتھ بھی ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں دباؤ سے نپٹنے کے لیے یہ تجاویز مددگار ثابت ہو سکتی ہیں:
٭ دوستوں اور فیملی کا مضبوط سپورٹ سسٹم برقرارکھیں
٭ اپنے یا فیملی ممبرز کے لیے سپورٹ گروپ سے رابطہ کریں
٭ اپنے جذبات اور خدشات پر نفسیاتی کاؤنسلر سے بات کریں
اپوائنٹمنٹ کی تیاری

آپ کو دماغی اور اعصابی امراض کے ماہر ڈاکٹر (نیورولوجسٹ) کے پاس بھیجا جا سکتا ہے۔ اس کے پاس جانے سے پہلے:
٭ اپنی علامات کو لکھ لیں، بشمول وہ علامات جو آپ کو غیر متعلق بھی لگیں
٭ اپنی تمام ادویات، وٹامنز اور سپلیمنٹس کی فہرست بنائیں
٭ اپنی اہم طبی معلومات، بشمول دیگر امراض لکھ لیں
٭ اپنی اہم ذاتی معلومات لکھ لیں، بشمول زندگی میں حالیہ تبدیلیاں یا ذہنی دباؤ والے عوامل
٭ اپنے ڈاکٹر سے پوچھنے کے لیے سوالات تیار کر لیں
٭ کسی رشتہ دار یا دوست کو اپنے ساتھ لے جائیں تاکہ وہ آپ کو باتیں یاد رکھنے میں مدد دے سکے
ڈاکٹر سے پوچھنے کے لیے سوالات
٭ میری علامات کا ممکنہ سبب کیا ہے؟
٭ مجھے کون سے ٹیسٹ کرانے کی ضرورت ہے؟
٭ مجھے کس قسم کے علاج کی ضرورت ہے؟
٭ علاج سے میری علامات میں کب تک بہتری آ جائے گی؟
٭ مکمل صحت یابی کی امید کتنی ہے؟
٭ صحت یابی میں کتنا وقت لگے گا؟
٭ کیا مجھے طویل مدتی پیچیدگیوں کا خطرہ ہے؟
آپ نے جو سوالات تیار کیے ہیں ان کے علاوہ، اگر کوئی سوال ذہن میں آ جائے تو پوچھنے سے مت ہچکچائیں۔
ڈاکٹر کے متوقع سوالات
آپ سے کئی سوالات پوچھے جا سکتے ہیں۔ ان کا جواب دینے کے لیے تیار رہنا ملاقات کو مؤثر بنا سکتا ہے۔ ڈاکٹر کے متوقع سوالات یہ ہیں:
٭ آپ کی علامات کیا ہیں اور جسم کے کون سے حصے متاثر ہو رہے ہیں؟
٭ آپ نے پہلی بار علامات کب محسوس کیں؟ کیا وہ اچانک شروع ہوئیں یا بتدریج؟
٭ کیا آپ کی علامات پھیل رہی ہیں یا بگڑ رہی ہیں؟
٭ کیا آپ کو کمزوری محسوس ہو رہی ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ جسم کے ایک طرف ہے یا دونوں طرف؟
٭ کیا آپ کو پیشاب یا پاخانہ کے کنٹرول میں مشکل ہو رہی ہے؟
٭ کیا آپ کو نظر، سانس لینے، چبانے یا نگلنے میں کوئی دقت پیش آ رہی ہے؟
٭ کیا آپ کو حال ہی میں کوئی انفیکشن ہوا ہے؟
٭ کیا آپ نے حال ہی میں کسی جنگلی علاقے میں وقت گزارا ہے یا بیرون ملک سفر کیا ہے؟
٭ کیا آپ نے حال ہی میں کوئی پروسیجر کرایا ہے یا ویکسین لگوائی ہے؟
نوٹ: یہ مضمون قارئین کی معلومات کے لیے شائع کیا گیا ہے۔ صحت سے متعلق امور میں اپنے معالج کے مشورے پر عمل کریں۔
