Vinkmag ad

دمہ کیا ہے؟

دمہ کیا ہے؟-شفانیوز

دمہ سانس کی نالی میں سوزش کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ سوزش بعض اوقات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ سانس رکنے لگتا ہے اور انتہائی صورت میں مریض کی موت بھی ہو سکتی ہے۔ شیخ زید ہسپتال لاہور کے پروفیسر اور پلمونولوجی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر طلحہ محمود دمے کی وجوہات، علاج اور کنٹرول سے متعلق معلومات فراہم کر رہے ہیں

دمہ کیا ہے؟

آسان لفظوں میں اسے سانس کی نالیوں میں سوزش کہا جا سکتا ہے۔ اس کے باعث کھانسی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ سانس لیتے ہوئے سیٹی کی آواز اور سینے میں جکڑن جیسے مسائل ہو سکتے ہیں۔ انتہائی صورت میں سانس لینے میں دشواری بھی ہو سکتی ہے۔

اس مرض کی علامات کیا ہیں؟

اس میں زیادہ تر مریضوں کو مستقل نوعیت کی کھانسی ہوتی ہے جو دوروں کی شکل میں آتی ہے۔ یہ شام اور رات کے اوقات میں بڑھ جاتی ہے اور صبح بھی اس کا دورہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات معمولی چلنے پھرنے سے بھی سانس پھول جاتا ہے اور کبھی کبھار رات کے وقت سوتے میں کھانسی کی وجہ سے آنکھ کھل جاتی ہے۔ یہ علامات سانس کی نالی میں سوزش کی وجہ سے ظاہر ہوتی ہیں جس کے باعث سانس کا راستہ تنگ ہو جاتا ہے۔

دمے کا سبب بننے والے بنیادی عوامل کون سے ہیں؟

اس کی بنیادی وجوہات میں پولن، دھول مٹی، جانوروں کی لید، ہوا میں موجود بخارات یا دھواں اور ٹھنڈی ہوا شامل ہیں۔ پٹرولیم کی مصنوعات، موسمی تبدیلیاں، تازہ ہوا سے دوری اور پرندوں کی بیٹ وغیرہ بھی اس کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ مسئلہ موروثی بھی ہو سکتا ہے۔

دمے کی شکایت کسی خاص موسم میں بھی ہو سکتی ہے اور پورا سال بھی جاری رہ سکتی ہے۔ جن افراد کو ناک کی الرجی یا نزلہ زکام کی شکایت زیادہ رہتی ہو، ان میں اس کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کا سبب بننے والے دیگر عوامل میں ورزش کی کمی، وزن کی زیادتی اور جنک فوڈ کا زیادہ استعمال شامل ہیں۔

دمے کی وجہ سے ہونے والی کھانسی دوروں کی صورت میں اور کسی ایسی چیز کا سامنا کرنے پر آتی ہے جس سے الرجی ہو

کیا عمر کے ساتھ بھی اس مرض کا کوئی تعلق ہے؟

دمے کے زیادہ تر مریض بچے یا نوجوان ہوتے ہیں۔ 40 سے 50 فیصد صورتوں میں بچوں میں پایا جانے والا دمہ ان کے بالغ ہونے پر ٹھیک ہو جاتا ہے۔ بڑی عمر کے افراد میں بھی یہ مرض ہو سکتا ہے۔

ٹی بی کی وجہ سے ہونے والی کھانسی اور دمے کی کھانسی میں کیا فرق ہے؟

کھانسی کے ساتھ بلغم یا خون آنا، بخار ہونا اور وزن تیزی سے گرنا ٹی بی کی بنیادی علامات ہیں۔ دمے کی صورت میں کھانسی دوروں کی صورت میں اور کسی ایسی چیز کا سامنا کرنے پر آتی ہے جس سے الرجی ہو۔ اس کے برعکس ٹی بی کا مریض مخصوص صورت حال کے بغیر بھی سارا دن کھانستا رہتا ہے۔

بہت سی بیماریوں کی علامات آپس میں ملتی جلتی ہوتی ہیں۔ ایسے میں ڈاکٹر دیگر کچھ عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے مرض کی تشخیص کرتے ہیں۔ اسی لیے تجویز کیا جاتا ہے کہ محض علامات کی بنیاد پر خود علاجی نہ کریں۔

دمے اور سی او پی ڈی میں کیا فرق ہے؟

سی او پی ڈی (Chronic obstructive pulmonary disease) عموماً تمباکو یا سگریٹ نوشی کرنے والوں کو ہوتی ہے۔ اس کے برعکس دمہ الرجی کی وجہ سے ہوتا ہے جس میں ماحولیاتی آلودگی کا بڑا ہاتھ ہے۔ مثلاً کان کنی یا سیلیکا انڈسٹری سے وابستہ مزدور لوگوں کو دھول مٹی کا سامنا زیادہ رہتا ہے۔ جنہیں اس سے الرجی ہو وہ دمے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان دونوں امراض میں دوسرا بڑا فرق عمر کا ہے۔ عمومی تاثر کے برعکس سی او پی ڈی بڑی عمر کے افراد میں زیادہ ہے جبکہ دمہ کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے۔

پولن الرجی کی وجہ سے دمہ ہو تو اس موسم میں کھڑکیاں وغیرہ بند رکھیں۔ دھول مٹی سے الرجی ہو تو گھر سے باہر جاتے ہوئے ماسک پہنیں

کیا یہ درست ہے کہ دمے کا مکمل علاج ممکن نہیں؟

دمے کا ہر کیس اس الرجی سے جڑا نہیں ہوتا جو مستقل ہو۔ مثلاً کچھ لوگوں کو محض تب دمہ ہوتا ہے جب موسم تبدیل ہو رہا ہو۔ اسی طرح بعض لوگ صرف گندم کی کٹائی اور تھریشر چلنے والے مہینوں میں اس کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر مریض گندم کی گرد سے دور رہے تو علامات ظاہر نہیں ہوں گی۔ اسی طرح ماحول میں پائی جانے والی کسی اور شے سے الرجی کے باعث دمہ ہو تو اس چیز سے دور رہ کر اسے با آسانی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ مسئلہ پورا سال رہتا ہے۔ دوا کے استعمال سے اسے کنٹرول کر لیا جاتا ہے تاہم یہ مکمل ختم نہیں ہوتا۔

اس سے بچاؤ کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جس چیز سے الرجی ہو، اس سے دور رہیں۔ پولن الرجی کی وجہ سے دمہ ہو تو اس موسم میں کھڑکیاں وغیرہ بند رکھیں۔ دھول مٹی سے الرجی ہو تو گھر سے باہر جاتے ہوئے ماسک پہنیں۔

اس مرض کی تشخیص کیسے کی جاتی ہے؟

زیادہ تر صورتوں میں مریض کی ہسٹری اور معائنے سے مرض کی تشخیص ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سانس کی نالی میں تنگی کی شدت کو جانچنے کے لیے پھیپھڑوں کی کارکردگی کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور ٹیسٹ بھی کیا جاتا ہے جس میں مریض کو انہیلر دے کر پھیپھڑوں کی کارکردگی دوبارہ چیک کی جاتی ہے۔ اسی طرح آئی جی ای ٹیسٹ کے ذریعے بھی اس کی تصدیق ہو جاتی ہے۔ اس سے خون میں مخصوص خلیات کی مقدار چیک کر کے مرض کی تشخیص کی جاتی ہے۔

انہیلر ایک ایسا آلہ ہے جس سے دوا سانس کے ذریعے براہ راست پھیپھڑوں تک پہنچائی جاتی ہے۔ اس میں دوا کی مقدار کم یعنی مائیکروگراموں میں ہوتی ہے

اس کا علاج کیا ہے؟

اس کے علاج سے متعلق سب سے اہم بات یہ ہے کہ مریض کو انہیلر دیے جائیں۔ انہیلر ایک ایسا آلہ ہے جس سے دوا سانس کے ذریعے براہ راست پھیپھڑوں تک پہنچائی جاتی ہے۔ اس میں دوا کی مقدار کم یعنی مائیکروگراموں میں ہوتی ہے۔ اسے ڈاکٹر کی تجویز کے مطابق اور درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو اس کے بہت کم سائیڈ افیکٹس ہوتے ہیں۔ 

کیا انہیلر استعمال کرنے کا کوئی خاص وقت ہوتا ہے؟

جی ہاں! اس کا استعمال مقررہ وقت پر کرنا ہوتا ہے اور یہ اس کی قسم پر منحصر ہوتا ہے۔ مثلاً کچھ انہیلرز کو دن میں ایک مرتبہ جبکہ کچھ کو دو یاتین مرتبہ استعمال کرنا ہوتا ہے۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا استعمال بوقت ضرورت ہی کرنا ہوتا ہے۔ اس کی دو اقسام کنٹرولر اور ریسکیو ہیں۔ پہلی قسم عام حالات میں دمے کے شدید حملے سے بچاؤ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اسے دن میں ایک، دو یا تین مرتبہ لیا جا سکتا ہے۔ دوسری قسم کا استعمال ہنگامی صورت حال میں کیا جاتا ہے۔

ایک تاثر یہ بھی ہے کہ انہیلرز میں سٹیرائیڈز ہوتے ہیں۔ ان کا استعمال کس حد محفوظ ہے؟

یہ درست ہے کہ انہیلر میں سٹیرائیڈز کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ تو کھائی جانے والی دیگر ادویات میں بھی ہوتے ہیں۔ انہیلر کی صورت میں دوا مائیکرو گراموں میں لی جاتی ہے۔ اس طرح پورے مہینے میں چار سے پانچ ملی گرام دوا ہی پھیپھڑوں کے اندر جاتی ہے جو ایک محفوظ مقدار ہے۔ مضر اثرات سے بچاؤ کے لیے بنیادی شرط اس کی مقدار ہے جو ڈاکٹر تجویز کرتا ہے۔

اگر یہ مرض ہو اور اسے کنٹرول کرنے کے لیے دوائیں نہ لی جائیں یا دیگر احتیاطیں نہ کی جائیں تو سانس کی نالیاں مستقل طور پر بند یا خراب ہو سکتی ہیں

اس ضمن میں روایتی علاج کس حد تک کارگر ہے؟

روایتی علاج کے بہت سے ماہر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے علاج کے بعد مریض کو دوبارہ اس شکایت کا سامنا نہیں ہوتا۔ کسی مخصوص علاج کے بعد جب ایک یا دو سال تک علامات ظاہر نہ ہوں تو مریض کا اس پر اعتماد پختہ ہو جاتا ہے۔ تاہم ایسی کوئی جڑی بوٹی یا کوئی اور شے نہیں جسے کھا کر دمہ مکمل ختم ہو جائے۔

یہ تاثر بھی غلط ہے کہ حکماء کی تجویز کردہ ادویات میں سٹیرائیڈز نہیں ہوتے۔ بہت سی دیسی ادویات کی تیاری میں جڑی بوٹیوں کے ساتھ سٹیرائیڈ ملا کر کیپسولز بنائے جاتے ہیں۔ جب مریض ان کے سائیڈ افیکٹس دیکھتے ہیں تو ایلوپیتھی کا سہارا لیتے ہیں۔

کیا دمے کے لیے کوئی ویکسین بھی ہے؟

اگر کسی کو خالصتاً الرجک دمہ ہو، الرجی بھی محض چند چیزوں سے ہو تو ویکسین سے فائدہ ہو سکتا ہے۔ جہاں الرجی کے صحیح اسباب کا اندازہ ہی نہ ہو، وہاں ویکسین سے کوئی خاص افاقہ نہیں ہوتا۔

علاج کے دوران کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟

اس سلسلے میں سب سے اہم یہ ہے کہ دوا کا استعمال باقاعدگی سے کریں۔ اس مرض کے اثرات اور نقصانات دوا کے سائیڈ افیکٹس سے زیادہ ہیں۔ اس کے بد اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سانس رکنے کی صورت میں مریض کی جان بھی جا سکتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ماحول میں پائی جانے والی وہ مخصوص چیزیں جو دمے کو متحرک کرتی یا اسے بڑھاتی ہوں، ان سے بچیں۔

دمے کی وجہ سے کیا پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں؟

اگر یہ مرض ہو اور اسے کنٹرول کرنے کے لیے دوائیں نہ لی جائیں یا دیگر احتیاطیں نہ کی جائیں تو سانس کی نالیاں مستقل طور پر بند یا خراب ہو سکتی ہیں۔ ایسے مریضوں پر دوا بھی اثر نہیں کرتی۔ سانس کی نالیوں کو پہنچنے والا یہ نقصان انتہائی صورت میں مریض کی جان بھی لے سکتا ہے۔ پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے دوا اور مناسب احتیاط کو اہمیت دیں۔

Vinkmag ad

Read Previous

بڑے شہروں میں ڈینگی وباء پھیلنے کی وارننگ جاری

Read Next

دمہ

Most Popular