موٹاپے کو عموماً بدصورتی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے، تاہم بنیادی طور پر یہ صحت سے متعلق ایک مسئلہ ہے۔ اس لیے ماہرین صحت وزن کو حد میں رکھنے پر زور دیتے ہیں۔ وزن کم کرنے کے لیے پہلا مرحلہ صحت مند طرز زندگی اختیار کرنا ہے۔ خوراک میں احتیاط اور ورزش اس کے اہم پہلو ہیں۔ بعض اوقات اس سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر شوگر کی دوا اوزمپیک (Ozempic) کا کافی چرچا ہے۔ بہت سے لوگوں کے مطابق یہ وزن کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہو رہی ہے۔
اوزمپیک کو ایف ڈی اے نے 2017 میں منظور کیا۔ یہ ویگووی (Wegovy) یا سیماگلوٹائیڈ (Semaglutide) کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ وزن کم کرنے کے لیے صرف ویگووی کی منظوری دی گئی تاہم اوزمپیک بھی اس میں مفید پائی جا رہی ہے۔ پاکستان میں چونکہ ویگووی دستیاب نہیں لہٰذا اوزمپک کو ہی اس مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اوزمپیک کیسے کام کرتی ہے؟
اس دوا اور موٹاپے میں تعلق جاننے کے لیے یہ جاننا مفید ہے کہ اوزمپک کام کیسے کرتی ہے۔ شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کے اینڈوکرائنالوجسٹ (ماہر امراض غدود) ڈاکٹر فہد جان میاں کہتے ہیں:
”اوزمپیک جسم کے اندر بھوک سے متعلق کیمیکلز کو متاثر کرتی ہے۔ اس سے بھوک کم لگتی ہے اور لوگ کم کھاتے ہیں۔ لبلبہ ایک غدود ہے جو انسولین نامی ہارمون پیدا کرتا ہے۔ یہ غذا کو جزو بدن بنانے میں مدد دیتا ہے۔ اوزمپیک اس ہارمون کی پیداوار میں تیزی لانے کا سبب بنتی ہے۔ یہ جگر پر چربی بھی کم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ آنتوں کے ہارمونز پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ یوں یہ بحیثیت مجموعی ذیابیطس کو کنٹرول کرتی ہے۔ اس کا ایک اضافی فائدہ وزن کم ہونا بھی ہے۔”
ماہرین غذائیات کے مطابق کچھ لوگوں میں اوزمپیک کے استعمال سے بھوک نہ لگنے کا احساس اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ وہ غذائی کمی کے شکار ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا نظام انہضام سست ہوتا ہے جس سے خوراک جلد ہضم نہیں ہوتی۔ جن لوگوں میں یہ مسئلہ ہو، ان میں یہ اس دوا کے استعمال سے مزید بگڑ سکتا ہے۔
کیا اوزمپیک ویٹ لاس سرجری کی متبادل ہے؟
ڈبلیو ایچ او کےمطابق 2022 میں دنیا بھر میں ہر آٹھ میں سے ایک شخص اوبیسٹی کا شکار تھا۔ خدشہ ہے کہ 2025 تک 165 ملین افراد کی صحت اس کی وجہ سے متاثر ہو جائے گی۔ اگر خوراک میں احتیاط اور ورزش سے موٹاپا کم نہ ہو تو ایک آپشن بیریاٹرک سرجری ہے۔ اسے ویٹ لاس سرجری بھی کہا جاتا ہے ۔ اس سے نظام انہضام میں کچھ ایسی تبدیلیاں کی جاتی ہیں جن سے کھانے کی ضرورت کم ہو جاتی ہے۔ یہ سرجری ان لوگوں کو تجویز کی جاتی ہے جن کا بی ایم آئی 40 سے زیادہ ہو یا بی ایم آئی 35 سے زیادہ ہو لیکن اس کے ساتھ اوبیسٹی سے وابستہ پیچیدگیاں بھی ہوں۔ ڈاکٹر فہد جان اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ اوزمپیک ویٹ لاس سرجری کی متبادل ہے:
”اگر کسی شخص کا بی ایم آئی 40 ، یعنی وزن تقریباً 120 کلوگرام ہو تو اوزمپیک سے وہ 110 یا زیادہ سے زیادہ 105 تک آ جائے گا۔ دوسری طرف بیریاٹرک سرجری سے وزن 30 سے 35 کلوگرام کم ہوتا ہے۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق وزن میں سب سے زیادہ کمی بیریاٹرک سرجری سے ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ نہیں کروا سکتا تو وہ اوزمپیک سے مدد لے سکتا ہے۔”
کیا اوزمپیک گھٹنوں کے مسائل میں بھی مفید ہے؟
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (امریکہ) کے مطابق پیدل چلنے سے گھٹنوں پر جسم کے وزن سے دو سے تین گنا زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔ تحقیقات یہ بھی بتاتی ہیں کہ اوور ویٹ لوگوں میں گھٹنے کی تبدیلی کے لیے سرجری کا خطرہ 40 فیصد جبکہ اوبیس لوگوں میں 100 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ ان اعداد و شمار کی بنیاد پر کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اوزمپیک گھٹنوں یا جوڑوں کے مسائل میں بھی مفید ہے؟ اس سوال کے جواب میں شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کے کنسلٹنٹ آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر حافظ جاوید اقبال کہتے ہیں:
”اگر گھٹنوں میں شدید مسائل ہوں اور وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے مشکل پیش آ رہی ہے تو اس دوا سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ خوراک میں احتیاط بھی کرنا ہو گی۔ اگر آپ وزن کم کرتے ہیں تو اوسٹیو آرتھرائٹس کی علامات کی شدت بھی کم ہو گی۔ اس طرح آپ گھٹنے کی تبدیلی کی سرجری کو بھی مؤخر کر سکتے ہیں۔”
پاکستان میں اوزمپیک انجیکشن کی قیمت 25 سے 28 ہزار روپے ہے۔ اس دوا کے لیے موزوں ٹمپریچر دو سے آٹھ ڈگری سنٹی گریڈ ہے۔ اس لیے سے فریج میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
انجیکشن لگانے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
اوزمپیک انجیکشن کو جسم پر جگہ بدل بدل کر لگانا چاہیے۔ اس لیے اوزمپیک کو استعمال کرنے کا صحیح طریقہ معلوم ہونا بھی ضروری ہے۔ اس پر گفتگو کرتے ہوئے شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کے فارماسسٹ ریحان اللہ سالار کا کہنا ہے:
” اسے رانوں، پیٹ یا بازو کے اوپر والے حصے پر لگایا جا سکتا ہے۔ اگر ڈاکٹر نے اسے دوسری انسولین کے ساتھ تجویز کیا ہے تو ان دونوں کو آپس میں ملانا نہیں چاہیے۔”
ہمارے ہاں 0.25 اور 1 ملی گرام کے انجیکشن دستیاب ہیں۔ ان کی ڈوز مریض کے بی ایم آئی کے مطابق تجویز کی جاتی ہے۔ ریحان اللہ سالار کے مطابق اسے ہر سات دنوں کے بعد لگانا ہوتا ہے۔ اگر مریض اسے لگانا بھول جائے تو پانچ روز کے اندر جب یاد آئے، اسے فوراً لگا لے۔ اگر یہ دن گزر جائیں تو پھر روٹین کی ڈوز لگائی جائے۔
کیا یہ انجیکشن ورزش اور غذائی احتیاطوں کا متبادل ہے؟
کچھ لو گ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ایک جادووئی انجیکشن ہے جس کے ساتھ ورزش اور خوراک کا خیال رکھنا ضروری نہیں۔ ایسا ہر گز نہیں۔ ماہرین غذائیات کے مطابق اس کے ساتھ کوئی خاص ڈائیٹ پلان ضروری نہیں۔ تاہم اوزمپیک کی وجہ سے ہونے والی پیچیدگیوں کے امکانات کم کرنے کے لیے صحت بخش اور متوازن غذا کا استعمال ضروری ہے۔
شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کی ماہر غذائیات ڈاکٹر زینب غیور کہتی ہیں کہ غذا کی مقدار کے ساتھ اس کی قسم بھی اہم ہے۔ اگر ہماری خوراک میں طویل عرصے تک پروٹین شامل نہ ہو تو پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں۔ اس سے قوت مدافعت بھی کمزور ہوتی ہے۔ اس لیے اپنی غذا میں اچھی پروٹین کے ذرائع مثلاً دودھ، انڈا اور گوشت لازماً شامل رکھیں۔ کچھ غذائیں قدرتی طور پر معدے میں زیادہ وقت گزارتی ہیں۔ یہ ہاضمے کے عمل کو سست کرتی ہیں۔ ان میں تلی ہوئی اور پروسیسڈ فوڈز شامل ہیں۔ اگر ان کے ساتھ اوزمپیک بھی استعمال کی جائے تو یہ وقت مزید بڑھ جاتا ہے۔ اس سے مریضوں کو متلی اور قے کی شکایت ہوتی ہے۔ اس لیے اوزمپیک کے ساتھ یہ غذائیں استعمال نہ کریں۔ ان کے بجائے فائبر والی خوراک استعمال کریں۔ یہ قدرتی طور پر تازہ پھلوں اور سبزیوں میں پایا جاتا ہے۔
کیا انجیکشن کے سائیڈ افیکٹس بھی ہیں؟
اس انجیکشن کے اتنے فائدوں کے ساتھ کچھ سائیڈ افیکٹس بھی ہیں۔ ان میں الرجک ری ایکشن،خارش، چہرے ، زبان اور ہونٹوں پر سوجن، ڈائریا، قے اور قبض نمایاں ہیں۔
کیا یہ دوا انسولین کی متبادل ہے؟
ڈاکٹر فہد جان میاں کے مطابق اوزمپیک ذیابیطس ٹائپ 2 کی میڈیسن ہے۔ فرض کریں کہ ایک مریض کا وزن زیادہ ہے، وہ ذیابیطس کی ادویات لیتا ہے لیکن شوگر کنٹرول نہیں ہو رہی۔ اب اسے انسولین کی ضرورت ہے لیکن وہ اسے استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ اس کے لیے اوزمپیک بہترین آپشن ہے۔ اسے ہفتے میں ایک بار استعمال کرنا ہوتا ہے۔
فری سٹائل لیبرے کے کیا فوائد ہیں؟

اگرچہ اوزمپیک کے فوائد بہت ہیں، تاہم مؤثر نتائج کے لیے ضروری ہے کہ اسے احتیاط سے اور صرف ڈاکٹر کے مشورے سے ہی استعمال کیا جائے۔ شوگر کنٹرو ل کرنے میں اوزمپیک کے علاوہ شوگر مانیٹرنگ بھی اہم ہے۔ اس مقصد کے لیے روایتی آپشن گلوکوز میٹرہے۔ اس کی مدد سے شوگر چیک کرنے کے لیے انگلی سے خون کا قطرہ لینا ہوتا ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کی زندگی آسان کرنے کےلیے فری سٹائل لیبرے کے نام سے ایک ڈیوائس بھی آ چکی ہے۔ اسے فلیش گلوکوز مانیٹرنگ بھی کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر فہد جان میاں کے مطابق:
” یہ ایک سینسر ہے جو بازو میں لگتا ہے۔ یہ خون کے بجائے خلیوں کے مائع (interstitial fluid) میں شوگر کو چیک کرتا ہے۔ یہ سینسر 14 دن کام کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک ڈیوائس بھی آتی ہے۔ جب اسے سکین کیا جاتا ہے تو وہ شوگر لیول بتا دیتی ہے۔”
مختلف ورژنز کے مختلف فائدے
فری سٹائل لیبرے کے تین ورژن ہیں۔ فری سٹائل لیبرے 1 کا سینسر ذرا بڑا ہوتا ہے۔ یہ 14 دن کام کرتا ہے اور یہ مہینے میں دو لگتے ہیں۔ فری سٹائل لیبرے 2 کا سینسر چھوٹا ہے اور اس کے ساتھ الارم بھی ہے۔ اگر شوگر ٹارگٹ سے کم یا زیادہ ہو جائے تو ڈوائس الارم دیتی ہے۔ اس کے بعد مریض ڈیوائس کی مدد سے سکین کر کے اپنی شوگر معلوم کرتا ہے۔ فری سٹائل لیبرے 3 میں سکین کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ شوگر خود ہی ڈیوائس پر آ جاتی ہے۔ یہ ہر منٹ بعد شوگر بتاتی رہتی ہے۔
ہمارے ہاں فری سٹائل لیبرے 1 دستیاب ہے۔ اس کے سینسر کی قیمت تقریباً 19،000 روپے جبکہ ڈیوائس کی 9000 روپے ہے۔ ڈیوائس روایتی گلوکوز میٹر سے زیادہ فائدہ مند ہے تاہم قیمت میں بھی زیادہ ہے۔ اس لیے اکثر مریض اس کا انتخاب نہیں کرتے۔
بہت سی بیماریوں پر ہمارا اختیار نہیں تاہم ان میں سے اکثر کا تعلق ہمارے طرز زندگی سے ہے۔ ٹائپ 2 ذیابیطس اور اوبیسٹی کا شمار بھی انہی میں ہوتا ہے۔ صحت مند طرز زندگی اختیار کر کے انہیں کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ اس لیے صحت مندانہ عادات اپنائیں تاکہ بیماریوں اور ان سے جڑی پیچیدگیوں سے بچ سکیں اور مہنگے علاج کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔