پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں ایک نئی تاریخ رقم ہو گئی۔ 15 سالہ جواد خان کی موت کے بعد اعضاء کا عطیہ پانچ لوگوں کے لیے امید کی کرن بن گیا۔ خیبر پختونخوا میں بعد از موت اعضاء کے عطیے کا یہ پہلا کیس ہے۔ اعضاء پانچ مریضوں کو منتقل کیے گئے۔
جواد خان مردان کے گاؤں رستم کا رہائشی تھا۔ وہ سکول جاتے ہوئے ایک حادثے کا شکار ہوا۔ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں اسے دماغی طور پر مردہ قرار دیا گیا۔ بچے کے والد نور داد خان نے فیصلہ کیا کہ بیٹے کے اعضاء عطیہ کیے جائیں۔ ان کے مطابق، "ہم نے بیٹا کھو دیا، مگر چاہتے تھے کہ کسی اور کو زندگی ملے۔”
والد کی اجازت کے بعد”ایم ٹی آر اے” نے اعضا نکالنے کی منظوری دی۔ لاہور، راولپنڈی اور پشاور سے ماہرین کی ٹیمیں ہسپتال پہنچیں۔ ان ٹیموں نے مربوط منصوبے کے تحت جواد کے مختلف اعضاء حاصل کیے۔
آنکھ کے قرنیوں سے متعلق امور مراد آئی بینک نے انجام دیے۔ گردے آئی کے ڈی ، سی ایم ایچ اور بحریہ ہسپتال راولپنڈی نے حاصل کیے۔ جگر نکالنے کا اہتمام پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ ( پی کے ایل آئی) نے کیا۔
جواد کی قربانی نے پانچ افراد کو نئی زندگی دی ہے۔ موت کے بعد اعضاء کا عطیہ صدقہ جاریہ ہے۔ اس عمل نے خیبر پختونخوا کے صحت نظام میں ایک روشن مثال قائم کی ہے۔