Vinkmag ad

صحیح طریقہ کیا ہے دانتوں اور مسوڑھوں کی صفائی

    خوبصورت‘سفید اور چمکتے دانت نہ صرف شخصیت کا بہت اچھا تاثر قائم کرتے ہیں بلکہ اچھی صحت کے لئے بھی ضروری ہیں۔ اگرہماری خوراک میں دودھ، دہی، پھل، سبزیاں اور دالیں وغیرہ تو شامل ہوں لیکن دانت صاف نہ ہوں توےہ خوراک صحت بخش اور متوازن ہوتے ہوئے بھی بہت سے جراثیم کے ساتھ معدے میں پہنچتی ہے۔اس لئے دانتوں کی صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ اس مقصد کے لئے بالعموم تین طریقے استعمال کئے جاتے ہیں جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

دانتوں کوبرش کرنا
دانتوں کی صفائی یا حفاظت کے سلسلے میں سب سے پہلی اور اہم بات انہیں صحیح اور اچھے طریقے سے برش کرنا ہے۔ دانتوں کو ”اچھی طرح “برش کرنے سے مراد ہر گزیہ نہیں کہ انہیں سختی سے اور رگڑرگڑ کر صاف کیا جائے۔ ایسا ہر گز نہیں کرنا چاہئے ورنہ دانتوں کی بیرونی تہہ(enamel) کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور نتیجتاً دانتوں کو ٹھنڈا گرم لگنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس لئے دن میں تین مرتبہ سے زیادہ برش کرنے کا مشورہ نہیں دیا جاتا ۔علاوہ ازیں لمبے عرصے تک میڈیکیٹڈ ٹوتھ پیسٹ کا استعمال مضر اثرات کا حامل ہوسکتا ہے۔

برش کرنے کے عمل میںپہلا کام صحیح برش کاانتخاب ہے۔ بازار میں سخت‘ معتدل اور نرم برش دستیاب ہیں ۔ ہمیں چاہئے کہ ان میں سے نرم ریشوں والا برش چنیں‘ اس لئے کہ سخت ریشوں والے برش دانتوں کی بیرونی تہہ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ برش اپنے سائز اور لچک کے حساب سے بھی موزوں ہونا چاہیے تاکہ وہ باآسانی منہ کے تمام حصوںتک پہنچ سکے۔ یاد رہے کہ دن میں دو مرتبہ دانتوں کو برش کرنا ضروری ہے۔
ہمارے ہاں صبح اٹھ کر دانتوں کی صفائی کوزیادہ اہمیت دی جاتی ہے حالانکہ برش کرنے کا بہترین وقت رات کا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب منہ میں تھوک کم ہوتی ہے اور رات کا کھانا بھی دانتوں کے ساتھ لگا ہوتا ہے۔ جب ہم برش کیے بغیر سو جاتے ہیں تو جراثیم کوحملہ آور ہونے اور دانتوں کو نقصان پہنچانے کاموقع مل جاتا ہے۔ صبح کے وقت محض کلی کر کے ناشتہ کر نا چاہئے جس کے بعد دانت صاف کیے جائیں تاکہ دوپہر تک ہمارا منہ صاف ستھرا اور جراثیم سے پاک رہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ صرف دانتوں کو صاف کرنے پر اکتفا کرنے کے بجائے منہ کے باقی حصوں مثلاًمسوڑھوں اور زبان وغیرہ کی صفائی پر بھی توجہ دی جائے ۔ زبان کی صفائی خاص طور پر اہم ہے‘ اس لئے کہ اس کی بالائی تہہ پر باریک دانے (جو اسے کھردری ساخت دیتے ہیں )اور چکھنے کی حس کے حامل ٹیسٹ بڈز (taste buds) ہوتے ہیں۔اگر اسے صاف نہ کیا جائے تو کچھ کھانوں کے ذرات اس تہہ کو ڈھانپ دیتے ہیں۔نتیجتاً ان پر جراثیم آ جاتے ہیں جو منہ سے بدبو آنے اور ذائقے کی حس متاثر ہونے کا سبب بن سکتے ہیں ۔
برش کو ہر تین سے چار ماہ بعد ضرور تبدیل کرنا چاہئے‘ اس لئے کہ زیادہ رگڑے جانے کی صورت میں اس کے ریشے خراب ہو جاتے ہیںلہٰذا منہ کی صفائی ٹھیک طریقے سے نہیں ہو سکتی۔ برش کے بعد اپنے مسوڑھوں کا انگلی سے ایک منٹ تک مساج کریں۔ اس سے مسوڑھوں میں خون کی روانی بہتر ہوتی ہے اور انفیکشن کا امکان کم ہوتا ہے۔

سکیلنگ اور پالشنگ
بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جنہیں کھانے یا ان کے زیادہ استعمال سے دانتوں پر داغ بننے لگتے ہیں اورمسلسل صفائی کے باوجود وہ میلے نظر آتے ہیں۔ چائے، سگریٹ، پان اور سپاری وغیرہ اس کی کچھ مثالیں ہیں۔دانتوں پر موجود ایسے داغ دھبوں سے نجات کے لئے سکیلنگ scaling))اور پالشنگ کا سہارا لیا جاتا ہے ۔
سکیلنگ کے بارے میں ہمارے ہاں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ اس سے دانتوں کی بیرونی تہہ اتر جاتی ہے‘ دانت پتلے ہو جاتے ہیں یا ان میں خلا آ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگ ےہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر سکیلنگ کے ذریعے دانتوں پر جما ہوا پلاک ہٹا دیاجائے توان پر گرم یا ٹھنڈا لگنے لگتاہے۔یہ تمام تصورات غلط ہیں ۔
دراصل دانتوں پر موجود پلاک جب کھانے کے ذرات یا بیکٹیریا سے ملتا ہے تو دانتوں پر ایک تہہ بن جاتی ہے جو مستقبل میں مسوڑھوں کی سوجن، جلن یا سوزش کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر اس کا لمبے عرصے تک علاج نہ کرایا جائے تو ےہ پھیل کر دانت کو سپورٹ کرتی ہڈی کی ساخت کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔ اس کا نتیجہ دانت ہلنے اور نکل جانے کی صورت میں نکلتا ہے۔لہٰذا محض چمکتے دانت ہی منہ کی اچھی صحت کی علامت نہیں بلکہ مسوڑھوں کاخیال رکھنا اور انہیں بیکٹیریا اور پلاک سے بچانا بھی اہم ہے۔

فلاسنگ:صحیح طریقہ ‘ صحیح دھاگہ
دانتوں کی معیاری صفائی کے لئے برش کے ساتھ ساتھ فلاسنگ بھی ضروری ہے کیونکہ برش دانتوں کے درمیان خالی جگہوں تک نہیں پہنچ پاتا۔ اس کا طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ نرم دھاگے کو دانتوں کے بیچ خلا میں ڈال کر نرمی سے کچھ اس طرح آگے پیچھے کریں کہ ان میں موجود کھانے کے ذرات اور پلاک وغیرہ نکل جائیں۔
فلاسنگ کے حوالے سے ہمارے ہاں ایک غلط طرزعمل یہ ہے کہ اس کے لئے کوئی بھی دھاگہ استعمال کر لیا جا ئے ۔مزید برآں اسے اس قدر زور سے دانتوں کے بیچ میںلگایا جاتا ہے کہ مسوڑھے زخمی ہو جاتے ہیں اور جراثیم کا منہ تک پہنچنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ان مسائل سے بچاﺅ کے لئے ڈینٹل فلاس کا استعمال موزوں رہتا ہے۔ ےہ ڈبیہ میں بندایک دھاگا ہوتا ہے جس کی پیکنگ محفوظ ہونے کے باعث ےہ جراثیم سے پاک ہوتا ہے۔ ےہ چونکہ عام دھاگے کی نسبت نرم ہوتا ہے‘ اس لئے اس کے استعمال سے مسوڑھے زخمی نہیں ہوتے۔
مشہور کہاوت ’ پرہیز علاج سے بہتر ہے‘ صدیوں گزرنے کے باوجود آج بھی موثر ہے۔ دانتوں اور منہ کی صفائی بھی پرہیز میں شامل ہے‘ اس لئے کہ جب منہ صاف اور دانت جراثیم سے پاک ہوںگے تو صحت بخش غذا جسم میں جائے گی اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہی غذا مختلف بیماریوں کو آپ کے جسم میں منتقل کرنے کا باعث بنے گی۔


بچوں کے ٹیڑھے دانت
بہت سے والدین کا خیال ہے کہ دانتوں کے ٹیڑھ پن کا علاج کم عمری ہی میں ممکن ہے حالانکہ ایسا درست نہیںاور ایسا بعدمیں بھی کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے باوجود بہتر یہ ہے کہ انہیں سات سال کی عمر میں معالج کے پاس معائنے کے لئے ضرور لائیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عمر میں دانتوں کے مختلف مسائل جن میں دانتوں کا ٹیڑھا ہونا‘ دودھ کے دانتوں کا وقت پر نہ گرنا سامنے آجاتے ہیں ۔ بریسزعموماًمستقل دانت آجانے پر11یا 12سال کی عمر میں لگائے جاتے ہیں۔اسی طرح 10سال کی عمر میں دانتوں کی سکریننگ کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اگر ان کے نوکیلے دانت (canine) ٹیڑھے نکلیںتو ان کے پاس والا دودھ کا دانت نکال دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد 80سے90 فی صد بچوں کے غلط سمت میں نکلنے والے دانت سیدھے رخ پر نشونما پاتے ہیں ۔

Vinkmag ad

Read Previous

گودے کی پیوندکاری

Read Next

بلیو وہیل

Most Popular