3D render of a medical background with a heart
دل کی بے قاعدہ دھڑکن کو اردمیا (arrhythmia) کہتے ہیں۔ اس کی ایک قسم ایٹریل فیبریلیشن (Atrial fibrillation) ہے جس میں بے قاعدہ دھڑکن شدید تیز ہوتی ہے۔ یہ دل میں خون جمنے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس سے فالج، ہارٹ فیل ہونے اور دیگر پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
دل کیسے دھڑکتا ہے
ایٹریل فیبریلیشن کو سمجھنے میں یہ جاننا مدد گار ثابت ہو سکتا ہے کہ دل کیسے دھڑکتا ہے۔
دل کے چار خانے ہوتے ہیں۔ اوپر والے دو خانوں کو ایٹریا کہتے ہیں۔ اس کے برعکس نچلے دونوں خانے وینٹریکل کہلاتے ہیں۔ ایٹریل فیبریلیشن کے دوران اوپر والے خانے بے قاعدگی سے دھڑکتے ہیں۔ ان کی دھڑکن نچلے خانوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتی۔
اوپر والے دائیں خانے کے اندر خلیوں کا ایک گروپ ہوتا ہے جسے ”سائی نس نوڈ” کہتے ہیں۔ یہ مخصوص سگنلز تشکیل دیتا ہے جس سے دھڑکن شروع ہوتی ہے۔ سگنلز دل کے اوپر والے خانوں میں حرکت کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ خلیوں کے ایک اور گروپ تک پہنچتے ہیں جسے ”اے وی نوڈ” کہتے ہیں۔ یہاں وہ عام طور پر سست ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد سگنل دل کے نچلے خانوں میں چلے جاتے ہیں۔
صحت مند دل میں سگنلز بھیجنے کا عممل ہموار طریقے سے چلتا ہے۔ ایٹریل فیبریلیشن میں اوپر والے خانوں میں سگنلز بے ربطگی کے شکار ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً وہ حصے کانپتے یا ہلتے ہیں۔ ایسے میں ”اے وی نوڈ” دل کے نچلے خانوں تک جانے کی کوشش کرنے والے سگنلز سے بھر جاتا ہے۔ یہ کیفیت دل کی تیز اور بے قاعدہ دھڑکن کا سبب بنتی ہے۔ حالت سکون میں صحت مند دل کی دھڑکن 60 سے 100 فی منٹ ہوتی ہے۔ ایٹریل فیبریلیشن میں یہ 100 سے 175 فی منٹ ہو سکتی ہے۔
بے قاعدہ اور تیز دھڑکن کی کیفیت آتی جاتی رہتی ہے اور کبھی مستقل بھی ہو جا تی ہے۔ یہ مرض بالعموم جان لیوا نہیں تاہم سنجیدہ معاملہ ہے، اس لیے کہ یہ فالج کا سبب بن سکتا ہے۔

علامات
بہت سے لوگوں کو اس بیماری کی علامات محسوس نہیں ہوتیں۔ تاہم کچھ افراد میں یہ علامات سامنے آتی ہیں:
٭ تیز، پھڑپھڑاتی دھڑکن کا احساس
٭ سینے میں درد
٭ چکر آنا
٭ سر میں ہلکا درد ہونا
٭ تھکاوٹ کا احساس
٭ ورزش کرنے کی سکت میں کمی
٭ سانس میں کمی
٭ جسمانی کمزوری کا احساس
علامات کو ان کیٹگریز میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
کبھی کبھار علامات
علامات بعض اوقات آتی جاتی رہتی ہیں۔ یہ چند منٹوں سے لے کر چند گھنٹوں تک رہ سکتی ہیں۔ کچھ لوگوں میں یہ ایک ہفتے تک بھی باقی رہتی ہیں۔ بالعموم یہ خود ہی دور ہو جاتی ہیں تاہم کچھ لوگوں کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
طویل دورانیے کی علامات
دل کی دھڑکن طویل عرصے تک بے قاعدہ بھی رہتی ہے۔ یہ خود بخود باقاعدہ نہیں ہوتی۔ اگر ایسی علامات پائی جائیں تو علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
طویل مدتی مسلسل علامات
اگر علامات 12 ماہ سے زیادہ عرصے تک برقرار رہیں تو اسے طویل مدتی مسلسل کہا جائے گا۔ اسے کنٹرول اور درست کرنے کے لیے ادویات یا پروسیجر کی ضرورت ہوتی ہے۔
مستقل علامات
مرض کی اس قسم میں بے قاعدہ دھڑکن کو دوبارہ ترتیب میں نہیں لایا جا سکتا۔ دھڑکن کی رفتار کنٹرول کرنے اور خون کو جمنے سے روکنے کے لیے ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر کے پاس کب جائیں
اگر آپ کو کسی بھی سطح کی علامات محسوس ہوں تو اپنے فزیشن کے پاس جائیں۔ وہ معائنہ کرے گا اور ضرورت پڑنے پر ماہر امراض قلب کے پاس بھیج دے گا۔ اگر سینے میں درد ہو تو طبی مدد حاصل کرنے میں ہر گز تاخیر نہ کریں، اس لیے کہ یہ دل کے دورے کی علامت بھی ہو سکتا ہے۔
وجوہات
ایٹریل فیبریلیشن کی سب سے عام وجہ دل کی ساخت کے ساتھ وابستہ مسائل ہیں۔ امراض قلب اور صحت کے کچھ اور مسائل بھی اس کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان کی تفصیل یہ ہے:
٭ دل کے پیدائشی نقائص
٭ دل کے قدرتی پیس میکر کے ساتھ مسئلہ ہونا جسے ”سِک سائی نس سنڈروم” کہتے ہیں
٭ نیند کے دوارن سانس رکنے کی بیماری (Obstructive Sleep Apnea) کا شکار ہونا
٭ دل کا دورہ
٭ دل کے والو کی بیماری
٭ ہائی بلڈ پریشر
٭ پھیپھڑوں کی بیماریاں، بشمول نمونیا
٭ تنگ یا بند شریانوں کی بیماری جسے کورونری آرٹری ڈیزیز کہتے ہیں
٭ تھائی رائیڈ کی بیماری مثلاً تھائی رائیڈ کا زیادہ فعال ہونا
٭ وائرل انفیکشن
٭ بیماری کی وجہ سے دباؤ یا ہارٹ سرجری بھی اس کا باعث بن سکتی ہے۔ اس مرض کے شکار لوگوں میں بعض اوقات دل کی بیماری نہیں بھی ہوتی اور نہ بظاہر دل کو کوئی نقصان پہنچا ہوتا ہے۔
طرز زندگی سے متعلق وجوہات
طرز زندگی سے متعلق مندرجہ ذیل عادات بھی اس کا امکان بڑھا سکتی ہیں:
٭ بکثرت شراب نوشی یا کیفین کا زیادہ استعمال
٭ ممنوعہ ڈرگز کا استعمال
٭ سگریٹ یا تمباکو نوشی
٭ ایسی دوائیں لینا جن میں سٹیمولنٹس پائے جاتے ہوں۔ ان میں بغیر ڈاکٹری نسخے کے لی جانے والی نزلہ زکام اور الرجی کی ادویات بھی شامل ہیں۔
خطرہ بڑھانے والے عوامل
ایٹریل فیبریلیشن کا خطرہ بڑھانے والے کچھ عوامل درج ذیل ہیں:
عمر
عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس مرض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
کیفین، نکوٹین یا ممنوعہ ڈرگز کا استعمال
کیفین، نکوٹین اور کچھ ممنوعہ ڈرگز مثلاً ایمفیٹامائنز اور کوکین دھڑکنیں تیز کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ منشیات کا استعمال زیادہ سنگین بے ترتیب دھڑکنوں کا باعث بن سکتا ہے۔
بکثرت شراب نوشی
زیادہ شراب پینے سے دل میں برقی سگنلز متاثر ہوتے ہیں۔ اس سے ایٹریل فبریلیشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
منرلز کی سطح میں تبدیلیاں
خون میں موجود کچھ منرلز مثلاً پوٹاشیم، سوڈیم، کیلشیم اور میگنیشیم دل کی دھڑکن میں مدد دیتے ہیں۔ اگر یہ بہت کم یا بہت زیادہ ہوں تو دھڑکنیں بے ترتیب ہو سکتی ہیں۔
فیملی ہسٹری
یہ مرض کچھ خاندانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔
دل کے مسائل یا ہارٹ سرجری
کورونری آرٹری ڈیزیز، دل کے والو کی بیماری اور دل کے پیدائشی مسائل اس کا خطرہ بڑھانے والے عوامل ہیں۔ ہارٹ اٹیک یا ہارٹ سرجری کی ہسٹری رکھنے والے افراد میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
ہائی بلڈ پریشر
ہائی بلڈ پریشر سے کورونری آرٹری ڈیزیز کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دل کا کچھ حصہ سخت اور موٹا ہو جاتا ہے۔ یہ دل کے اندر دھڑکن کے سگنلز کی حرکت میں تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔
موٹاپا
موٹاپے کے شکار افراد میں ایٹریل فبریلیشن خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
طویل مدتی بیماریاں
ذیابیطس، گردے کی دائمی بیماری، پھیپھڑوں کی بیماری یا نیند کی کمی کے طویل مدتی مسائل کے شکار افراد میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
ادویات اور سپلیمنٹس
ڈاکٹری نسخے پر خریدی گئی کچھ دوائیں اور کھانسی، نزلہ زکام کی بغیر نسخے کے استعمال کی جانے والی چند دوائیں دھڑکنوں کی بے ترتیبی کا سبب بن سکتی ہیں۔
تھائی رائیڈ کی بیماری
زیادہ فعال تھائی رائیڈ غدود دل کی بے قاعدہ دھڑکنوں کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔
پیچیدگیاں
اس مرض کی ایک خطرناک پیچیدگی خون جمنا ہے۔ اس کے باعث فالج بھی ہو سکتا ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کا خطرہ بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ایٹریل فبریلیشن کا تعلق کچھ اور ایسی بیماریوں کے ساتھ بھی ہے جو فالج کا خطرہ بڑھا سکتے ہیں۔ ان میں درج ذیل امراض شامل ہیں:
٭ ہائی بلڈ پریشر
٭ ذیابیطس
٭ ہارٹ فیل ہونا
٭ دل کے والو کی بیماری کی کچھ اقسام
خون جمنے اور نتیجتاً سٹروک کے امکانات کم کرنے کے لیے ایٹریل فیبریلیشن کے مریضوں کو خون پتلا کرنے والی ادویات تجویز کی جاتی ہیں۔

احتیاطی تدابیر
صحت مند طرز زندگی اختیار کرنا اس مرض کے خطرے کو کم کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ان ہدایات پر عمل کریں:
٭ ہائی بلڈ پریشر، ہائی کولیسٹرول اور ذیابیطس کو کنٹرول کریں۔
٭ سگریٹ اور تمباکو نوشی سے پرہیز کریں۔
٭ ایسی غذائیں کھائیں جن میں نمک اور سیر شدہ چکنائی کم ہو۔
٭ ہفتے کے اکثر دنوں میں روزانہ کم از کم 30 منٹ ورزش کریں۔ اگر ڈاکٹر اس میں کچھ تبدیلی تجویز کرے تو اس پر عمل کریں۔
٭ اپنی نیند پوری کریں۔ بالغوں کو روزانہ 7 سے 9 گھنٹے کی نیند پوری کرنی چاہیے۔
٭ اپنے وزن کو صحت مند حد میں رکھیں۔
٭ ذہنی دباؤ کم کریں اور اس سے اچھے انداز سے نپٹیں۔
تشخیص
عین ممکن ہے کہ ایک شخص کو ایٹریل فیبریلیشن ہو لیکن اسے اس کا علم نہ ہو۔ بعض صورتوں میں اس کا علم کسی اور وجہ سے چیک اَپ کے موقع پر ہوتا ہے۔ مرض کی تشخیص کے لیے ڈاکٹر معائنہ کرتا ہے، میڈیکل ہسٹری پوچھتا ہے اور علامات کے بارے میں سوالات کرتا ہے۔
میڈیکل ٹیسٹ
اس کےلیے کچھ ٹیسٹ تجویز کیے جاتے ہیں۔ ان کی تفصیل یہ ہے:
بلڈ ٹیسٹ
خون کے ٹیسٹ ان مادوں کو دیکھنے کے لیے کیے جاتے ہیں جو دل یا دل کی دھڑکن کو متاثر کر سکتے ہیں۔
ای سی جی
اس ٹیسٹ میں درد نہیں ہوتا۔ یہ دل کی برقی سرگرمی کی پیمائش کرتا ہے۔ اس کے لیے الیکٹروڈ نامی چپکنے والے پیچ سینے، اور کبھی بازوؤں اور ٹانگوں پر رکھے جاتے ہیں۔ تاروں کی مدد سے انہیں کمپیوٹر سے منسلک کیا جاتا ہے۔ ای سی جی دھڑکن کی ترتیب کے علاوہ یہ بھی دکھاتی ہے کہ وہ کتنی سست یا تیز ہے۔ ایٹریل فبریلیشن کی تشخیص کے لیے یہ ٹیسٹ بہت اہم ہے۔
ہولٹر مانیٹر
یہ چھوٹی، پورٹیبل ای سی جی ڈیوائس ہے جو دل کی سرگرمی ریکارڈ کرتی ہے۔ اسے ایک یا دو دن تک پہنا جاتا ہے۔ اس دوارن مریض معمول کی سرگرمیاں جاری رکھتا ہے۔
ایونٹ ریکارڈر
یہ ہولٹر مانیٹر کی طرح کا آلہ ہے۔ تاہم یہ ایک وقت میں چند منٹ کے لیے ہی سر گرمی ریکارڈ کرتا ہے۔ اسے عموماً ایک ماہ تک پہنا جاتا ہے۔ جب علامات محسوس ہوں تو مریض ایک بٹن دباتا ہے۔ کچھ آلات ایسے بھی ہیں جو بے قاعدہ دھڑکن کو خود بخود ریکارڈ کرتے ہیں۔
امپلانٹیبل لوپ ریکارڈر
یہ آلہ مسلسل تین سال تک دل کی دھڑکن ریکارڈ کرتا ہے۔ اسے کارڈیئک ایونٹ ریکارڈر بھی کہا جاتا ہے۔ ڈیوائس یہ دکھاتی ہے کہ جب آپ اپنی روزمرہ کی سرگرمیاں کرتے ہیں تو آپ کا دل کیسے دھڑکتا ہے۔ اسے یہ دیکھنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے کہ مریض کو ایٹریل فیبریلیشن کتنی بار ہوا ہے۔ بعض اوقات اس کا استعمال دل کی غیر معمولی بے ترتیب دھڑکن تلاش کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ غیر واضح سٹروک کی صورت میں اس کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
ایکو کارڈیو گرام
دھڑکتے دل کی تصاویر بنانے کے لیے آواز کی لہروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ دکھاتا ہے کہ دل اور دل کے والوز میں خون کیسے بہتا ہے۔
ایکسرسائز ٹالرنس ٹیسٹ
اس میں مریض کو ٹریڈمل پر چلنا یا رکی ہوئی بائیسکل کو پیڈل سے چلانا ہوتا ہے۔ اس دوران دل کی کیفیات مانیٹر کی جاتی ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دل ورزش پر کیسا رد عمل ظاہر کرتا ہے۔ اگر مریض ورزش نہ کر سکتا ہو تو اسے ایسی دوا دی جاتی ہے جو ورزش کی طرح ہی دھڑکن کو بڑھاتی ہے۔ بعض اوقات ایکو کارڈیو گرام سٹریس ٹیسٹ کے دوران کیا جاتا ہے۔
سینے کا ایکسرے
سینے کا ایکسرے پھیپھڑوں اور دل کی حالت کو ظاہر کرتا ہے۔
علاج
ایٹریل فیبریلیشن کے علاج کے مقاصد دھڑکن کو باقاعدہ کرنا، اسے کنٹرول کرنا اور خون کو جمنے سے روکنا ہے۔ علاج کا دار و مدار ان عوامل پر ہوتا ہے:
٭ آپ کو یہ مرض کتنے عرصے سے ہے۔
٭ علامات کی شدت کتنی ہے
٭ بے ترتیب دھڑکن کی وجہ کیا ہے
علاج کے لیے درج ذیل طریقے استعمال کیے جاتے ہیں:
٭ ادویات
٭ دھڑکنوں کی ترتیب بحال کرنے کے لیے تھیراپی، جسے کارڈیو ورژن کہتے ہیں۔
٭ سرجری یا کیتھیٹر کے پروسیجرز
ڈاکٹر اور مریض علاج کے آپشنز پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں سب سے موزوں آپشن کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ مریض کے لیے ضروری ہے کہ وہ تجویز کردہ پلان پر پوری طرح سے عمل کرے۔ بصورت دیگر یہ فالج اور ہارٹ فیلیئر سمیت متعدد پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ علاج کے مختلف آپشنز کی تفصیل درج ذیل ہے:
ادویات
ایٹریل فبریلیشن کے علاج میں درج ذیل ادویات استعمال ہوتی ہیں:
بیٹا بلاکرز
یہ ادویات دھڑکن کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
کیلشیم چینل بلاکرز
یہ دوائیں دھڑکن کنٹرول کرتی ہیں۔ ان لوگوں کو ان سے اجتناب کی ضرورت پڑسکتی ہے جن کا ہارٹ فیل ہوا ہو یا جن کا بلڈ پریشر کم ہو۔
ڈیگوکسن
یہ دوا جس طرح حالت سکون میں دھڑکن کنٹرول کر سکتی ہے، ایسی سرگرمی کے دوران نہیں کر سکتی۔ زیادہ تر لوگوں کو اضافی یا متبادل ادویات مثلاً کیلشیم چینل بلاکرز یا بیٹا بلاکرز کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
دھڑکن کی شرح اور ترتیب کو کنٹرول کرنے کے لیے ادویات
انہیں اینٹی اریتھمکس بھی کہا جاتا ہے۔ ان دواؤں کو کم استعمال کیا جاتا ہے، اس لیے کہ ان کے مضر اثرات دیگر دواؤں کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں۔
خون پتلا کرنے والی ادویات
انہیں اینٹی کوگولینٹس بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ادویات خون کو جمنے سے روکنے اور سٹروک کا خطرہ کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ اگر آپ وارفرین لیتے ہیں، تو آپ کو دوا کے اثرات کی نگرانی کے لیے خون کے باقاعدہ ٹیسٹ کروانے کی ضرورت ہو گی۔
کارڈیو ورژن تھیراپی
اگر ایٹریل فیبریلیشن کی علامات پریشان کن ہیں یا ایسا پہلی بار ہوا ہے تو ڈاکٹر کارڈیو ورژن نامی پروسیجر کرتے ہیں۔ یہ دو طریقوں سے کیا جا سکتا ہے:
الیکٹریکل کارڈیوورژن
دھڑکن کو دوبارہ ترتیب دینے کا یہ پروسیجر سینے پر لگے ہوئے پیڈلز یا پیچز کے ذریعے دل کو برقی جھٹکے بھیج کر کیا جاتا ہے۔
ادویات کے ذریعے کارڈیو ورژن
اس کے لیے آئی وی کے ذریعے یا منہ سے دی جانے والی دوائیں استعمال کی جاتی ہیں۔
کارڈیوورژن بالعموم پہلے سے متعین وقت پر ہسپتال میں کیا جاتا ہے۔ تاہم، یہ ایمرجنسی میں بھی کیا جا سکتا ہے. اگر یہ پہلے سے طے شدہ ہو تو پروسیجر سے چند ہفتے پہلے خون پتلا کرنے والی ادویات مثلاً وارفرین (جنٹووین) لینے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ الیکٹریکل کارڈیو ورژن کے بعد دھڑکن کنٹرول کرنے کے لیے زندگی بھر دوائیں لینا پڑ سکتی ہیں۔ دواؤں کے باوجود بھی یہ مرض واپس آ سکتا ہے۔
کارڈیئک ایبلیشن
اگر ایٹریل فبریلیشن دواؤں یا دیگر علاج سے بہتر نہ ہو تو کارڈیئک ایبلیشن نامی پروسیجر کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ایبلیشن بعض اوقات علاج کے پہلے آپشن کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔
دل میں چھوٹے چھوٹے داغ پیدا کرنے کے لیے اکثر گرم یا سرد توانائی استعمال کی جاتی ہے۔ ان داغوں سے دل کے بے قاعدہ سگنلز میں خلل آتا ہے اور معمول کی دھڑکن بحال ہو جاتی ہے۔ اس عمل کے لیے ایک لچکدار ٹیوب استعمال کی جاتی ہے جسے کیتھیٹر کہا جاتا ہے۔ ایک سے زیادہ کیتھیٹرز بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ کیتھیٹر کی نوک پر موجود سینسر سرد یا گرم توانائی کا اطلاق کرتے ہیں۔
بہت کم صورتوں میں اوپن ہارٹ سرجری کے دوران اسکیلپل (سرجرجنز کا مخصوص چاقو) بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
کارڈیئک ایبلیشن کی کئی قسمیں ہیں۔ ایٹریل فیبریلیشن کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی قسم کا انحصار علامات اور مجموعی صحت کے علاوہ اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ کیا دل کی دوسری بار سرجری ہو رہی ہے۔
اے وی نوڈ ایبلیشن
دل کے ٹشو پر اے وی نوڈ کی جگہ برقی سگنلز کے کنکشن تباہ کرنے کے لیے حرارتی توانائی استعمال کی جاتی ہے۔ اس علاج کے بعد زندگی بھر پیس میکر کی ضرورت پڑتی ہے۔
میز پروسیجر(Maze procedure)
ڈاکٹر دل کے اوپری خانوں میں داغ کے ٹشوز کا ایک پیٹرن (یعنی میز یا بھول بھلیاں) بناتا ہے۔ اس کے لیے وہ گرم یا سرد توانائی یا اسکیلپل استعمال کرتا ہے۔ داغ کے ٹشوز برقی سگنل نہیں بھیجتے۔ لہذا پیٹرن دل کے ان بے ربط سگنلز میں مداخلت کرتا ہے جو ایٹریل فبریلیشن کا سبب بنتے ہیں۔
بعض اوقات پیٹرن بنانے کے لیے اسکیلپل استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے میں اوپن ہارٹ سرجری ضروری ہے۔ اسے سرجیکل میز پروسیجر کہا جاتا ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ایٹریل فبریلیشن کا ترجیحی علاج ہے جنہیں دل کی دوسری سرجری مثلاً کورونری آرٹری بائی پاس سرجری یا دل کے والو کی مرمت کی ضرورت ہو۔
ہائبرڈ ایٹریل فبریلیشن ایبلیشن
اس تھیراپی میں سرجری اور ابلیشن کا امتزاج شامل ہے۔ اسے طویل عرصے سے مسلسل ایٹریل فبریلیشن کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
پَلسڈ فیلڈ ابلیشن
یہ مسلسل ایٹریل فبریلیشن کی کچھ اقسام کا علاج ہے۔ اس میں گرم یا سرد توانائی کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس کے بجائے، یہ دل میں داغ کے ٹشوز کا ایریا بنانے کے لیے ہائی انرجی برقی نبض استعمال کرتا ہے۔ داغ کے ٹشو ان ناقص الیکٹریکل سگنلز کو روکتے ہیں جو ایٹریل فیبریلیشن کا سبب بنتے ہیں۔
کارڈیئک ایبلیشن کے بعد ایٹریل فیبریلیشن واپس آ سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو ایک اور ایبلیشن یا دل کا علاج تجویز کیا جاتا ہے۔ کارڈیئک ایبلیشن کے بعد فالج سے بچنے کے لیے عمر بھر خون پتلا کرنے والی ادویات کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
اگر آپ کو ایٹریل فیبریلیشن ہے اور آپ کسی وجہ سے خون پتلا کرنے والی ادویات نہیں لے سکتے تو آپ کو ایک پروسیجر کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس میں دل کے بائیں اوپری خانے میں ایک چھوٹی سی تھیلی کو سِیل کر دیا جاتا ہے۔ اس تھیلی کو اپینڈیج کہتے ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں ایٹریل فیبریلیشن سے متعلق لوتھڑے (کلاٹس) بنتے ہیں۔ اس پروسیجر کو ”لیفٹ ایٹریل اپینڈیج کلوز” کہا جاتا ہے۔ بند کرنے والے آلے کو کیتھیٹر کے ذریعے نرمی سے تھیلی تک لے جایا جاتا ہے۔ جب وہ اپنی جگہ پر پہنچ جائے تو کیتھیٹر کو ہٹا دیا جاتا ہے۔ آلہ وہاں مستقلاً رہتا ہے۔ یہ سرجری ایٹریل فیبریلیشن کے ان مریضوں کے لیے بھی ایک آپشن ہے جن کی ایک اور ہارٹ سرجری ہو رہی ہو۔
ایٹریل فیبریلیشن کے شکار فرد کو اس سے ملتے جلتے ایک اور مسئلے کا سامنا ہو سکتا ہے جسے ایٹریل فلٹر (atrial flutter) کہتے ہیں۔ دونوں کے علاج ایک جیسے ہیں۔
طرز زندگی اور گھریلو علاج
ایٹریل فیبریلیشن کے مریضوں کے لیے ضروری ہے کہ دل کی صحت کے لیے فائدہ مند طرز زندگی اختیار کریں۔ اس سے ان عوامل کو روکنے یا ان کا علاج کرنے میں مدد ملتی ہے جو اس مرض کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس میں درج ذیل امور قابل ذکر ہیں:
صحت مند غذائیں کھائیں
پھل، سبزیاں اور سالم اناج کا استعمال زیادہ کریں۔ چینی، نمک اور سیر شدہ چربی کا استعمال محدود کریں۔
ورزش کریں اور متحرک رہیں
ذیابیطس، ہائی کولیسٹرول اور ہائی بلڈ پریشر دل کی بیماری کے لیے خطرناک عوامل ہیں۔ باقاعدگی سے جسمانی سرگرمی انہیں کنٹرول کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ہفتے کے بیشتر دنوں میں 30 سے 60 منٹ کی جسمانی سرگرمی ضرور کریں۔ اپنے ڈاکٹر سے اس موضوع پر بات کریں کہ آپ کے لیے کون سی اور کتنی دیر کی ورزش موزوں ہے۔
تمباکو نوشی نہ کریں
تمباکو نوشی دل کی بیماری کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ اگر آپ تمباکو نوشی کرتے ہیں تو اسے فوری طور پر روک دیں۔ اگر آپ کو اسے چھوڑنے میں مشکل ہو رہی ہو تو ڈاکٹر سے بات کریں۔
صحت مند وزن برقرار رکھیں
وزن زیادہ ہونے سے دل کی بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ وزن کے حقیقت پسندانہ اہداف متعین کرنے کے لیے اپنے معالج سے بات کریں۔
بلڈ پریشر کنٹرول کریں
اگر آپ کی عمر 18 سال یا اس سے زیادہ ہے تو کم از کم ہر دو سال بعد اپنا بلڈ پریشر ضرور چیک کروائیں۔ اگر آپ میں دل کی بیماری کے خطرے والے عوامل موجود ہیں یا آپ کی عمر 40 سال سے زیادہ ہے تو آپ کو اس کی زیادہ بار جانچ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اگر آپ کو ہائی بلڈ پریشر ہے تو ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق علاج کے پلان پر عمل کریں۔
اپنا کولیسٹرول چیک کروائیں
اپنے ڈاکٹر سے پوچھیں کہ آپ کو کتنی بار کولیسٹرول ٹیسٹ کرانے کی ضرورت ہے۔ ہائی کولیسٹرول کو کنٹرول کرنے کے لیے طرز زندگی میں تبدیلیاں اور ادویات تجویز کی جا سکتی ہیں۔
شراب نوشی کو محدود کریں
کثرت شراب نوشی (مردوں کے لیے دو گھنٹے میں پانچ یا خواتین کے لیے چار ڈرنکس) ایٹریل فائبریلیشن کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔ کچھ لوگوں میں الکوحل کی کم مقدار بھی نقصان دہ ہے۔
اچھی نیند کی عادات اپنائیں
کم نیند دل کی بیماری اور دیگر طویل المعیاد مسائل کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔ بالغوں کو روزانہ سات سے نو گھنٹے ضرور سونا چاہیے۔
ڈاکٹر سے ملاقات کی تیاری
اگر آپ کی دھڑکن بے قاعدہ یا تیز رہتی ہے تو ڈاکٹر سے ملاقات کا وقت لیں۔ اگر ایٹریل فبریلیشن جلد تشخیص ہو جائے تو علاج آسان بھی ہے اور زیادہ مؤثر بھی۔ ڈاکٹر کے پاس جانے سے قبل مندرجہ ذیل ضروری کام کر لیں:
پابندیوں سے آگہی
جب آپ ڈاکٹر سے وقت لیں تو یہ بھی پوچھ لیں کہ اس سے قبل آپ کو کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کو خوراک کے بارے میں کچھ ہدایات دی جا سکتی ہیں۔ آپ کو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کولیسٹرول ٹیسٹ سے چند گھنٹے پہلے آپ کچھ نہ کھائیں پیئیں۔
علامات لکھ لیں
اپنی تمام علامات نوٹ کرلیں۔ ایسی علامات بھی لکھ لیں جو بظاہر ایٹریل فبریلیشن سے غیر متعلق معلوم ہوتی ہوں۔ نوٹ کریں کہ وہ کب شروع ہوئیں اور اس وقت آپ کیا کر رہے تھے۔
اہم ذاتی معلومات لکھیں
صحت سے متعلق ذاتی معلومات بشمول دل کی بیماری، فالج، ہائی بلڈ پریشر یا ذیابیطس کے بارے میں لکھ لیں۔ اگر ذہنی دباؤ کے شکار ہوں یا آپ کی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی آئی ہو تو اسے بھی نوٹ کر لیں۔
ادویات کی فہرست
ان تمام ادویات، وٹامنز یا سپلیمنٹس کی فہرست بنائیں جو آپ لے رہے ہیں۔ ان ادویات کو بھی شامل کریں جو آپ بغیر نسخے کے لے رہے ہیں۔ خوراکوں کی مقدار بھی لکھیں۔
کسی کو ساتھ لے جائیں
اگر ممکن ہو تو کسی کو اپنے ساتھ لے جائیں۔ وہ آپ کو فراہم کی جانے والی معلومات یاد رکھنے میں آپ کی مدد کر سکتا ہے۔
سوالات بھی لکھ لیں
اگر آپ کو ڈاکٹر یا عملے سے کچھ سوالات پوچھنا ہیں تو وہ بھی نوٹ کر لیں۔ ایٹریل فبریلیشن کے سلسلے میں ڈاکٹر سے پوچھنے کے لیے کچھ بنیادی سوالات یہ ہو سکتے ہیں:
٭ میری علامات یا اس حالت کا بنیادی سبب کیا ہے؟
٭ اس کی دیگر ممکنہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟
٭ مجھے کس قسم کے ٹیسٹ کروانے کی ضرورت ہوگی؟
٭ اس کا سب سے موزوں علاج کیا ہے؟
٭ کیا آپ جو دوا تجویز کر رہے ہیں، اس کا کوئی جینیرک متبادل بھی ہے؟
٭ علاج کے دیگر آپشنز کیا ہیں؟
٭ مجھے کون سی خوراک کھانی چاہیے اور کن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے؟
٭ میرے لیے جسمانی سرگرمی کی مناسب سطح کیا ہے؟
٭ کیا مجھے کچھ اور پابندیوں پر عمل کرنے کی بھی ضرورت ہے؟
٭ دل کی بیماری یا ایٹریل فبریلیشن کی پیچیدگیوں کے لیے مجھے کتنی بار سکریننگ کرانی ہو گی؟
٭ مجھے صحت کے کچھ دیگر مسائل بھی ہیں۔ میں ان سب کا ایک ساتھ کیسے بہتر انتظام کر سکتا ہوں؟
٭ کیا مجھے کسی خاص شعبے کے ڈاکٹر سے ملنا چاہیے؟
٭ کیا آپ کے پاس کوئی ایسا بروشر یا تحریری مواد ہے جو میں اپنے ساتھ لے جا سکوں؟
٭ آپ اس مسئلے پر کون سی ویب سائیٹ تجویز کرتے ہیں؟
ملاقات کے دوران کوئی اور سوال پوچھنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔
ڈاکٹر کے ممکنہ سوالات
چیک اَپ کے دوران مریض سے بہت سے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ اگر آپ ان کے جوابات کے لیے پہلے سے تیار ہوں تو آسانی ہو گی۔ اس سے آپ کچھ اضافی تفصیلات کے لیے وقت بچا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر آپ سے مندرجہ ذیل باتیں پوچھ سکتا ہے:
٭ آپ کی علامات کب شروع ہوئیں؟
٭ علامات مستقلاً محسوس ہوتی ہیں یا وہ آتی جاتی رہتی ہیں؟
٭ علامات کتنی شدید ہیں؟
٭ آپ کے خیال میں وہ کون سی چیزیں ہیں جن سے علامات بہتر ہو جاتی ہیں۔
٭ کون سے عوامل علامات کو بگاڑنے کا سبب بنتے ہیں؟
دل کے لیے صحت بخش طرز زندگی اختیار کرنے میں آپ کو کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ تمباکو نوشی چھوڑنے، صحت بخش غذائیں کھانے اور ورزش کی عادت اتنی جلدی آپ کے معمول کا حصہ نہیں بنتی۔ اس کے باوجود صحت مند طرز زندگی اختیار کرنا ضروری ہے، اس لیے کہ یہ دل کے مسائل اور پیچیدگیوں کے خلاف آپ کو تحفظ دیتا ہے۔