چلتی سانسیں زندگی کی علامت ہیں۔ اگر سانس سے متعلق اعضاء میں خرابی ہو جائے تو سانس لینے اور خارج کرنے میں دقت ہوتی ہے۔ یہ نہ صرف تکلیف دہ ہے بلکہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسا ہی ایک مسئلہ دمہ (asthma) بھی ہے جس میں سانس کی نالیاں سکڑ کر تنگ ہو جاتی ہیں اور ان میں سوزش ہو جاتی ہے۔ نتیجتاً سانس لیتے وقت خرخراہٹ پیدا ہوتی ہے اور سینے پر دباؤ محسوس ہوتا ہے۔
دمہ یونانی لفظ ازما سے ماخوذ ہے جس کے لفظی معنی ہیں "سانس پھولنا”۔ یہی لفظ آگے چل کر استھما بنا۔ اس میں مریض کی سانس پھولتی ہے اور وہ ہانپنے لگتا ہے۔ یہ مرض بڑوں اور بچوں دونوں کو ہو سکتا ہے۔
مرض کی علامات
اس کا حملہ شروع ہوتے ہی مریض کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں۔ وہ تازہ ہوا (آکسیجن) کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔ چند لمحوں کے بعد وہ بیٹھنے یا لیٹنے کی ایک خاص پوزیشن اختیار کر لیتا ہے۔ اس سے اسے قدرے راحت ملتی ہے۔ اگر وہ دوا استعمال کر لے تو تھوڑی دیر بعد پر سکون ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مریض کو مستقل نوعیت کی کھانسی ہو سکتی ہے اور معمولی چلنے پھرنے سے بھی سانس پھول جاتا ہے۔
یہ حملہ کسی بھی وقت اور کسی بھی وجہ سے ہو، مناسب علاج ملنے پر مریض کو فوری راحت ملتی ہے۔ اگر مریض پے در پے حملوں کا شکار ہو تو یہ دمے کا شدید دورہ کہلاتا ہے۔ یہ ایک ہنگامی صورت حال ہے جس کا علاج ہسپتال میں اور ڈاکٹر کی زیر نگرانی کیا جانا ضروری ہے ورنہ یہ کیفیت جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔
مرض کی اقسام
سبب کے تناظر اس مرض کی دو اہم اقسام یہ ہیں:
٭ الرجی والا دمہ (allergic asthma)
٭ الرجی کے بغیر دمہ (non-allergic asthma)
الرجی والا دمہ
یہ دمے کی عام پائی جانے والی قسم ہے۔ اس کی ابتدا بچپن سے ہوتی ہے۔ اس میں مبتلا بچے کسی خاص چیز سے الرجی کا شکار ہوتے ہیں۔ بچوں میں یہ سن بلوغت میں خود بخود غائب ہو جاتا ہے جبکہ کچھ میں طویل المعیاد ہو جاتا ہے۔ اس کا سبب بننے والے عوامل یہ ہیں:
٭ پولن
٭ گھروں کے اندر گرد و غبار میں موجود کیڑے (dust mites)
٭ جانوروں کی گندگی
٭ تکیوں اور لحافوں میں بھرے پرندوں کے پر
٭ مختلف غذائیں
٭ کیمیائی مادے
الرجی کے بغیر دمہ
اس میں دمے کی وجہ وائرس سے ہونے والا انفیکشن ہے۔ یہ سال بھر یا اس سے زیادہ عرصے تک رہتا ہے۔ یہ قسم بڑی عمر کے افراد کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ خصوصاً خواتین اس کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔
مرض کی تشخیص
اس کے لیے ڈاکٹر معائنہ کرتے ہیں۔ معائنے کے دوران جب سانس میں سیٹی کی آوازیں آتی ہیں تو مرض کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح زور دار کھانسی یا موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ مریض کی حالت میں تبدیلی سے بھی اس کا علم ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پھیپھڑوں کی کارکردگی کا ٹیسٹ ہوتا ہے جس سے سانس کی نالیوں میں تنگی کے بارے میں پتا لگایا جاتا ہے۔
ایک ٹیسٹ وہ ہے جس میں مریض کو انہیلر دے کر پھیپھڑوں کی کارکردگی چیک کی جاتی ہے۔ اسی طرح آئی جی ای ٹیسٹ کے ذریعے بھی اس کی تصدیق ہو جاتی ہے۔
مرض کا علاج
اس صورت میں مریض کو انہیلر دیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک غلط تصور ہے کہ انہیلر کا استعمال غیر محفوظ ہے۔ بہت سے مریض دوا تو لیتے رہتے ہیں مگر انہیلر استعمال نہیں کرتے۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر ایک مرتبہ انہیلر استعمال کیا تو اس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جائے گا۔
انہیلر ایک ایسا آلہ ہے جس سے دوا سانس کے ذریعے براہ راست پھیپھڑوں تک پہنچائی جاتی ہے۔ ادویات کی دوسری اقسام کی نسبت اس میں دوا کی مقدار کم ہوتی ہے۔ اگر انہیلر ڈاکٹر کی تجویز کے مطابق اور درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو اس کے سائیڈ افیکٹس کم ہوتے ہیں۔
بچوں کے لیے احتیاطیں
موسم سرما کے آغاز میں درجہ حرارت میں تبدیلی کی وجہ سے بچوں میں یہ مسئلہ بڑھ جاتا ہے۔ ذیل میں بیان کردہ احتیاطی تدابیر پر عمل انہیں محفوظ رکھ سکتا ہے:
٭ جس چیز سے الرجی ہو اس سے بچوں کو بچائیں۔
٭ سردیوں میں بچوں کو خصوصاً صبح اور شام میں باہر نہ جانے دیں۔
٭ انہیں فضائی آلودگی، دھوئیں، بو، غلاظت اور کیڑے مکوڑوں سے دور رکھیں۔
٭ انہیں لکڑی اور کوئلے سے جلنے والی انگیٹھیوں سے دور رکھیں۔ ان بچوں کے لیے حمام یا ہیٹر کی گرمی مناسب رہتی ہے۔
٭ ایسے بچوں کو سردیوں میں سوپ اور دیگر مائع جات کا زیادہ سے زیادہ استعمال کروائیں۔
بڑوں کے لیے احتیاطیں
دمہ کے شکار بڑی عمر کے مریضوں کو بھی جس چیز سے الرجی سے اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ ان ہدایات پر عمل کریں:
٭ سردیوں میں بالخصوص صبح اور شام میں باہر جانے سے گریز کریں۔ ایسا کرنا ضروری ہو تو چہرہ مفلر وغیرہ سے ڈھانپ لیں۔
٭ تمباکو اور سگریٹ نوشی سے مکمل پرہیز کریں۔ جس کمرے میں دوسرے افراد تمباکونوشی کر رہے ہوں، وہاں ہرگز نہ بیٹھیں۔
٭ ابلا ہوا پانی اور دوسرے مائع جات زیادہ استعمال کریں۔
٭ رات کو کھانے اور سونے کے درمیانے کم از کم دو گھنٹے کا وقفہ دیں۔
٭ ٹھنڈے علاقوں کے رہنے والے ٹھنڈی ہوا سےخود کو محفوظ رکھیں ورنہ سانس کی نالیاں سکڑ کر تنگ ہو جائیں گی۔ اس طرح ان کے اندرونی حصوں میں بلغم کی تہہ بیٹھ جائے گی۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف سانس لینے میں دشواری ہوگی بلکہ دمے کے حملوں میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔
دیگر بیماریوں کی طرح دمے کی بر وقت تشخیص اور علاج نہ کروایا جائے تو شدید مسائل ہو سکتے ہیں۔ اگر گھر میں کسی شخص کو پرانی کھانسی یا شدید دمہ ہو تو جلد از جلد ڈاکٹر سے رجوع کریں۔