بہت سے بچے توجہ کی کمی کے شکار ہوتے ہیں۔ وہ بہت زیادہ پھرتیلے بھی ہوتے ہیں۔ تاہم بعض صورتوں میں یہ ایک مرض کی وجہ سے بھی ہوتا ہے جسے اے ڈی ایچ ڈی (اٹینشن ڈیفیسٹ/ہائپر ایکٹیوٹی ڈس آرڈر) کہتے ہیں۔ یہ ایک طویل المعیاد بیماری ہے۔ اس کے شکار بچوں کو خود اعتمادی کی کمی، خراب سماجی تعلقات اور سکول میں ناقص کارکردگی جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ علامات کم ہو جاتی ہیں، تاہم کچھ لوگوں میں یہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوتیں۔ جلد تشخیص اور علاج سے کافی بہتری آتی ہے۔ علاج سے بیماری مکمل ختم نہیں ہوتی تاہم زندگی کافی حد تک بہتر ہو جاتی ہے۔
علامات
اے ڈی ایچ ڈی کی علامات میں سب سے اہم توجہ کی کمی اور حد سے زیادہ متحرک اور بے صبری والا رویہ ہے۔ علامات بالعموم 12 سال کی عمر سے شروع ہوتی ہیں، تاہم بعض بچوں میں تین سال میں ہی ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ علامات ہلکی، درمیانی یا شدید ہو سکتی ہیں۔
اے ڈی ایچ ڈی لڑکیوں کی نسبت لڑکوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ دونوں صنفوں کے رویے بھی مختلف ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ایسے میں لڑکے زیادہ متحرک ہوتے ہیں جبکہ لڑکیاں غیر متوجہ رہنے کا رجحان زیادہ رکھتی ہیں۔
ذیلی اقسام
اے ڈی ایچ ڈی کی تین ذیلی اقسام، عدم توجہ، بے صبری والا رویہ اور دونوں کا امتزاج ہیں:
عدم توجہ
اس میں زیادہ تر علامات توجہ کی کمی سے متعلق ہوتی ہیں۔ یعنی فرد کو چیزوں پر توجہ مرکوز رکھنے میں مشکل ہوتی ہے۔ اس کے شکار بچے میں عموماً یہ علامات پائی جاتی ہیں:
٭ وہ تفصیل پر دھیان نہیں دے پاتا اور سکول کے کام میں غلطیاں زیادہ کرتا ہے
٭ کاموں یا کھیل میں توجہ مرکوز نہیں رکھ پاتا
٭ جب اس سے بات کی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ سن نہیں رہا
٭ ہدایات پر عمل کرنے میں مشکل محسوس کرتا ہے اور سکول کا کام جلدی ختم نہیں کر پاتا
٭ اسے کاموں اور سرگرمیوں کو منظم کرنے میں مشکل پیش آتی ہے
٭ دماغی کاموں مثلاً ہوم ورک سے بچتا یا انہیں ناپسند کرتا ہے
٭ وہ اپنی ضروری چیزیں مثلاً کھلونے، سکول کی اسائنمنٹس، پنسل وغیرہ گم کر دیتا ہے
٭ کاموں یا سرگرمیوں کے دوران اس کا دھیان بٹ جاتا ہے
٭ اپنے کچھ کام یا ذمہ داریاں بھول جاتا ہے
غیرمعمولی حرکت اور بے صبری
اس میں زیادہ ترعلامات زیادہ متحرک رہنے اور بے قابو رویے سے متعلق ہوتی ہیں۔ ان میں اکثر یہ علامات پائی جاتی ہیں:
٭ ہاتھوں یا پیروں سے کھیلتے رہنا، ٹانگیں ہلانا، یا سیٹ پر بے چین ہونا
٭ کلاس روم یا دوسری جگہوں پر زیادہ دیر بیٹھے رہنے میں مشکل پیش آنا
٭ ہمیشہ حرکت میں رہنا
٭ ایسی جگہوں پر دوڑنا یا چڑھنا جہاں یہ مناسب نہ ہو،
٭ خاموشی سے کھیلنے یا کوئی سرگرمی کرنے میں مشکل پیش آنا
٭ بہت زیادہ باتیں کرنا
٭ سوال کرنے والے کو بات مکمل کرنے کا موقع نہ دینا
٭ انتظار کرنے میں مشکل پیش آنا
٭ دوسروں کی باتوں، کھیلوں یا سرگرمیوں میں بے جا دخل دینا
بچوں کا عام رویہ بمقابلہ اے ڈی ایچ ڈی

چھوٹے بچے قدرتی طور پر توانائی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ وہ والدین کو تھکانے کے بعد بھی پوری توانائی کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ کچھ بچے قدرتی طور پر دوسروں کی نسبت زیادہ سرگرم ہوتے ہیں۔ اس لیے بچوں کو صرف اس بنیاد پر اے ڈی ایچ ڈی کا شکار نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنے دوستوں یا بہن بھائیوں سے مختلف ہیں۔
کچھ بچے سکول میں ان مسائل کا شکار رہتے ہیں، تاہم گھر میں ان کا رویہ ٹھیک ہوتا ہے۔ انہیں اے ڈی ایچ ڈی کے بجائے کوئی اور مسئلہ ہو سکتا ہے۔ یہ بات ان بچوں پر بھی لاگو ہوتی ہے جو گھر پر زیادہ متحرک یا بے دھیانی کا شکار ہوتے ہیں، لیکن سکول میں ٹھیک رہتے ہیں۔
ڈاکٹر سے کب رجوع کریں
اگر آپ کو اے ڈی ایچ ڈی کا شک ہو تو سب سے پہلے بچوں کے ڈاکٹر یا فیملی ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔ وہ آپ کو نفسیاتی معالج یا بچوں کے نیورولوجسٹ کے پاس بھیج سکتا ہے۔
وجوہات
اے ڈی ایچ ڈی کی حتمی وجہ ابھی تک واضح نہیں ہے، تاہم کچھ عوامل کو اس مرض کے ساتھ وابستہ سمجھا جاتا ہے۔ ان میں جینیاتی عوامل، ماحول اور نشوونما کے دوران مرکزی اعصابی نظام کے مسائل شامل ہیں۔
خطرناک عوامل
٭ خونی رشتوں مثلاً والدین یا بہن بھائیوں میں اے ڈی ایچ ڈی یا کوئی اور ذہنی بیماری ہونا
٭ ماحولیاتی زہر، مثلاً پرانی عمارتوں میں پینٹ اور پائپوں میں پایا جانے والا سیسہ۔
٭ ماں کا دوران حمل منشیات کا استعمال یا سگریٹ نوشی کرنا
٭ بچے کی قبل از وقت پیدائش
چینی کے استعمال کو اگرچہ زیادہ متحرک رہنے کا ایک سبب سمجھا جاتا ہے، تاہم اس بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں۔
پیچیدگیاں
اے ڈی ایچ ڈی والے بچوں کو بالعموم ان مسائل کا سامنا ہوتا ہے:
٭ انہیں کلاس روم میں مشکل پیش آتی ہے، تعلیم متاثر ہوتی ہے اور سکول میں دوسرے ان کے بارے میں غلط تاثر لیتے ہیں
٭ ایسے بچے حادثات اور چوٹوں کے زیادہ شکار ہوتے ہیں
٭ ان بچوں میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے
٭ انہیں دوسروں سے بات کرنے اور دوست بنانے میں مشکل پیش آتی ہے
٭ ان بچوں کے منشیات کے استعمال اور دیگر نامناسب کاموں میں ملوث ہونے کے امکانات نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں
اے ڈی ایچ ڈی سے وابستہ بیماریاں
اے ڈی ایچ ڈی دوسرے ذہنی مسائل کا سبب نہیں بنتی، تاہم اس کے شکار بچوں میں یہ مسائل زیادہ ہوتے ہیں:
٭ مخالفانہ رویہ، مثلاً اتھارٹی کے ساتھ مخاصمت، بیزاری پر مبنی اور جارحانہ رویہ اختیار کرنا
٭ سماجی رویوں کے مسائل، مثلاً چوری کرنا، لڑائی جھگڑا کرنا، املاک، لوگوں یا جانوروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا
٭ موڈ کے مسائل مثلاً چڑچڑے پن یا فرسٹریشن کا شکار رہنا۔ ان میں ڈپریشن اور بائی پولر ڈس آرڈر نمایاں ہیں
٭ سیکھنے میں دشواری، مثلاً پڑھنے، لکھنے، سمجھنے یا بات کرنے میں مشکلات پیش آنا۔
٭ شراب، چرس اور سگریٹ پینے کی عادت ہونا
٭ اضطراب کی بیماریاں، مثلاً او سی ڈی وغیرہ
٭ آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر۔ اس کا تعلق دماغی نشو و نما کے ساتھ ہے۔ یہ دوسروں کے ساتھ گفتگو اور تعلقات بنانے پر اثرانداز ہوتا ہے۔
٭ ٹک یا ٹورٹ سنڈروم – ان میں بچے غیر ارادی حرکات کرتے یا آوازیں نکالتے ہیں
احتیاطی تدابیر
اے ڈی ایچ ڈی کے خطرے سے بچنے کے لیے یہ احتیاطی تدابیر اپنائیں:
٭ دوران حمل بچے کی نشوونما کو نقصان پہنچانے والی اشیاء مثلاً شراب اور نشہ آور ادویات سے پرہیز کریں
٭ بچے کو آلودگی اور زہریلے مادوں مثلاً سگریٹ کے دھوئیں اور سیسے والے پینٹ سے بچائیں
٭ بچے کا سکرین ٹائم کم کریں۔ خصوصاً پہلے پانچ سالوں میں اسے زیادہ ٹی وی وغیرہ نہ دیکھنے دیں۔
تشخیص
بچے میں اے ڈی ایچ ڈی کی تشخیص تب تک کروانے کی ضرورت نہیں جب تک کہ اس کی علامات بچپن (12 سال کی عم سے پہلے) میں ہی ظاہر نہ ہوں۔ دوسری بات یہ کہ علامات گھر اور سکول میں مسلسل مسائل پیدا نہ کریں۔ اے ڈی ایچ ڈی کا کوئی خاص ٹیسٹ نہیں، تاہم اس کی تشخیص میں ان امور سے مدد لی جاتی ہے:
٭ طبی معائنہ، تاکہ دیگر ممکنہ وجوہات معلوم کی جا سکیں
٭ معلومات جمع کرنا، مثلاً موجودہ طبی مسائل، ذاتی اور خاندان کی میڈیکل ہسٹری، اور سکول کا ریکارڈ
٭ فیملی ممبران، اساتذہ یا ان لوگوں کے انٹرویوز/ سوالنامے جو بچے کو اچھی طرح سے جانتے ہوں
٭ ڈی ایس ایم-5 میں دیے گئے اے ڈی ایچ ڈی کے معیارات
٭ اے ڈی ایچ ڈی کی درجہ بندی کے پیمانے
چھوٹے بچوں میں تشخیص
چھوٹے بچوں میں مرض کی تشخیص مشکل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زباندانی میں تاخیر جیسے کئی مسائل کے اسباب کچھ اور بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے ان میں اے ڈی ایچ ڈی کا شبہ ہو تو کسی ماہر نفسیات، سپیچ پیتھالوجسٹ یا نشو و نما کے ماہر پیڈیاٹریشن سے رابطہ کریں۔ اے ڈی ایچ ڈی سے ملتے جلتے طبی مسائل یہ ہیں:
٭ سیکھنے یا زباندانی کی مشکلات
٭ موڈ ڈس آرڈرز مثلاً افسردگی یا اینگزائٹی
٭ دوروں کی بیماریاں
٭ بینائی یا سماعت کے مسائل
٭ آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر
٭ سوچنے یا رویوں پر اثرانداز ہونے والے ذہنی یا جسمانی مسائل
٭ نیند کے مسائل
٭ دماغی چوٹ
علاج

اے ڈی ایچ ڈی کے علاج کے لیے دوائیں، رویے کی تھیراپی، کاؤنسلنگ اور ایجوکیشنل سروسز استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ سمجھنے میں وقت لگ سکتا ہے کہ بچے کے لیے کون سا علاج سب سے بہتر ہے۔ ان سے اے ڈی ایچ ڈی کی بہت سی علامات کم ہو جاتی ہیں، تاہم یہ اس کا مکمل علاج نہیں ہیں۔ علاج کی تفصیل یہ ہے:
محرک ادویات
محرک دوائیں (سائیکو سٹیمولنٹس) سب سے زیادہ تجویز کی جاتی ہیں۔ یہ ان دماغی کیمیکلز کو متوازن رکھنے میں مدد دیتی ہیں جنہیں نیورو ٹرانسمیٹرز کہا جاتا ہے۔ یہ عدم توجہ اور زیادہ سرگرمی کی علامات کو بہتر بناتی ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ بہت جلد اثر دکھاتی ہیں۔ ان دواؤں کی مثالیں ایمفیٹامینز اور میتھائل فینیڈیٹس ہیں۔
محرک دوائیں مختصر دورانیے کے لیے اور طویل مدتی، دونوں شکلوں میں دستیاب ہیں۔ میتھائل فینیڈیٹ کا ایک طویل اثر رکھنے والا پیچ دستیاب ہے، جسے کولہے پر لگایا جا سکتا ہے۔ صحیح مقدار ہر بچے کے لیے مختلف ہوتی ہے۔ اگر زیادہ ضمنی اثرات ظاہر ہوں تو مقدار میں تبدیلی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس لیے ڈاکٹر سے محرک دواؤں کے ممکنہ اثرات کے بارے میں ضرور پوچھیں۔
محرک دواؤں سے صحت کے مسائل
اے ڈی ایچ ڈی کی دوا استعمال کرنے سے صحت کے یہ مسائل ہو سکتے ہیں:
دل کی بیماریاں
اے ڈی ایچ ڈی کی دوا بلڈ پریشر یا دل کی دھڑکن تیز کر سکتی ہے۔ اس کے شدید اثرات یا اچانک موت کا خطرہ ثابت نہیں۔ اس کے باوجود دوا دینے سے پہلے بچے کو دل کی بیماری یا خاندان میں دل کی بیماری کی ہسٹری دیکھ لینی چاہیے۔ دوا استعمال کرنے کے دوران بچے کی نگرانی بھی کرنی چاہیے۔
دماغی مسائل
اے ڈی ایچ ڈی کی دوا استعمال کرنے سے بچے میں چڑچڑا پن، ذہنی دباؤ یا بے چینی کی علامات ہو سکتی ہیں۔ اگر آپ کا بچہ اچانک بہت بدل جائے یا ایسا کچھ دیکھنے یا سننے کی بات کرے جو حقیقت میں نہ ہو تو بلا تاخیر ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔
دوسری ادویات
اے ڈی ایچ ڈی کے علاج کے لیے دوسری ادویات بھی دستیاب ہیں:
٭ ایٹوموکسیٹین (سٹرٹیرا)
٭ اینٹی ڈپریسینٹس جیسے بپروپین (ویلبیوٹرن)
٭ گوانفاسین (انٹونیو)
٭ کلونائڈین (کاپریس)
ایٹوموکسیٹین اور اینٹی ڈپریسینٹس کی اثر پذیری سست ہوتی ہے۔ مکمل اثر ہونے میں کچھ ہفتے لگ سکتے ہیں۔ اگر بچہ دل کی بیماری کی وجہ سے اے ڈی ایچ ڈی کی دوا نہیں لے سکتا یا اس کے سائیڈ ایفیکٹس زیادہ ہوں تو انہیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
خودکشی کا خطرہ
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ غیر محرک ادویات یا اینٹی ڈپریسنٹس لینے والے بچوں اور نوجوان میں خود کشی کے خیالات آتے ہیں۔ اگرچہ ان میں تعلق ثابت نہیں۔ تاہم بچے میں ایسے خیالات یا افسردگی کی علامات دیکھیں تو بلا تاخیر ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔
ادویات کا محفوظ استعمال
محرک ادویات اس وقت تک محفوظ ہیں جب تک آپ کا بچہ انہیں ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق لے۔ آپ باقاعدگی سے ڈاکٹر کے پاس جا کر دوا کی مقدار کی جانچ کروا سکتے ہیں۔ بعض لوگوں میں یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ دوسرے لوگ ان ادویات کا غلط استعمال کر سکتے ہیں۔ دوا کو محفوظ رکھنے اور یہ یقینی بنانے کے لیے کہ وہ صحیح وقت پر صحیح مقدار میں دوا لے رہا ہے، ان ہدایات پر عمل کریں:
٭ بچوں اور نوجوانوں کو اے ڈی ایچ ڈی کی دوا خود نہ لینے دیں۔ ان کی مناسب نگرانی کریں۔
٭ ادویات کو ہمیشہ محفوظ اور بند ڈبے میں رکھیں۔ دوا کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔ محرک ادویات کا زیادہ استعمال سنگین اور جان لیوا ہو سکتا ہے۔
٭ سکول بھیجتے وقت بچے کو دوا نہ دیں۔ دوا خود سکول کی نرس یا صحت کے دفتر میں دیں۔
اے ڈی ایچ ڈی تھیراپی
اے ڈی ایچ ڈی والے بچوں کے لیے اکثر برتاؤ کی تھراپی، سوشل سکلز ٹریننگ، والدین کی تربیت اور کاؤنسلنگ مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ تھیراپی ماہر نفسیات، سوشل ورکر یا ذہنی صحت کے کسی ماہر سے لی جا سکتی ہے۔ کچھ بچوں کو اے ڈی ایچ ڈی کے ساتھ دیگر مسائل مثلاً بے چینی یا ڈپریشن بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں کاؤنسلنگ اے ڈی ایچ ڈی اور دیگر مسائل، دونوں کے لیے معاون ہو سکتی ہے۔
برتاؤ کی تھراپی: والدین اور اساتذہ رویے بدلنے کی حکمت عملی سیکھ سکتے ہیں، مثلاً مشکل حالات کا مقاببلہ کرنے کے لیے ٹوکن ریوارڈ سسٹمز اور ٹائم آؤٹ
سوشل سکلز ٹریننگ: اس سے بچوں کو مناسب سماجی رویے سیکھنے میں مدد ملتی ہے۔
والدین کی مہارتوں کی تربیت: یہ والدین کو اپنے بچے کے برتاؤ کو سمجھنے اور راہنمائی کے طریقے سکھاتی ہے۔
نفسیاتی تھیراپی: یہ بڑے بچوں کو اپنے مسائل پر بات کرنے، منفی برتاؤ کے پیٹرن کو سمجھنے اور علامات سے نمٹنے کے طریقے سکھاتی ہے۔
خاندانی تھیراپی: یہ خاندان کے دیگر افراد کو اے ڈی ایچ ڈی والے فرد کو سمجھنے اور مسائل سے نپٹنے میں مدد دیتی ہے۔
بہترین نتائج اس صورت میں ملتے ہیں جب تما متعلقہ لوگ، مثلاً اساتذہ، والدین، تھیراپسٹ اور ڈاکٹر ایک ساتھ کام کریں۔ اے ڈی ایچ ڈی اور دستیاب سروسز کے بارے میں آگاہی حاصل کریں۔ اپنے بچے کے اساتذہ کو قابل اعتماد ذرائع سے معلومات فراہم کریں تاکہ وہ کلاس روم میں اس کی مدد کر سکے۔
نیا طبی آلہ
ایف ڈی اے نے اے ڈی ایچ ڈی والے بچوں کے لیے ایک نئے طبی آلے کی منظور دی ہے۔ یہ 7 سے 12 سال کے ان بچوں کے لیے ہے جو اے ڈی ایچ ڈی کی دوائیں نہیں لے رہے. یہ آلہ مونارک ایکسٹرنل ٹرائی جیمنل نرو اسٹیمولیشن (ای ٹی این ایس) سسٹم کہلاتا ہے۔ یہ سائز میں موبائل فون جتنا ہوتا ہے۔ اسے بچے کے سونے کے دوران والدین کی نگرانی میں گھر پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ توجہ، جذبات اور برتاؤ سے متعلق دماغی حصوں کو سگنل بھیجتا ہے۔
اگر اے ڈی ایچ ڈی کا علاج ہو رہا ہو تو علامات میں بہتری آنے تک ڈاکٹر سے باقاعدگی سے ملنا چاہیے۔ اگر آپ کے بچے کو دواؤں کے اثرات مثلاً بھوک کا نہ لگنا، نیند میں دشواری یا چڑچڑاپن محسوس ہو، یا علاج سے بہتری نہ آ رہی ہو تو بلا تاخیر ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔
طرز زندگی اور گھریلو علاج
ہر بچہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، اس لیے ہر ایک کے لیے ایک ہی علاج تجویز نہیں کیا جا سکتا۔ بچے کے لیے زیر نظر تجاویز مددگار ثابت ہو سکتی ہیں:
گھر میں بچوں کے ساتھ رویہ
٭ اپنے بچے کو محبت دیں۔ بچوں کے لیے یہ سننا بہت ضروری ہے کہ وہ پسند کیا جاتا ہے اور اس سے محبت کی جاتی ہے۔ اگر آپ اس کی صرف منفی حرکتوں پر توجہ دیں گے تو اس کی خود اعتمادی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ مسکراہٹ، کندھے پر تھپکی یا گلے لگانا بھی محبت کے اظہار کے طریقے ہیں
٭ خود اعتمادی بڑھانے کے طریقے تلاش کریں۔ اے ڈی ایچ ڈی والے بچے اکثر آرٹ، موسیقی یا رقص جیسے کاموں کو پسند کرتے ہیں۔ آپ ان کی دلچسپی اور صلاحیتوں کے مطابق سرگرمیاں منتخب کریں۔ کامیاب ہونے کے لیے بچے کو چھوٹے چھوٹے مواقع دیں تاکہ اس کا اعتماد بڑھے۔
٭ ہدایات دینے کے دوران سادہ اور واضح الفاظ استعمال کریں۔ جب آپ اپنے بچے کو کچھ بتائیں تو آہستہ اور واضح بولیں۔ ایک وقت میں ایک ہی بات بتائیں اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں
٭ مشکل حالات کو پہچانیں۔ ایسے ماحول سے بچیں جو بچے کے لیے مشکل ہوں، جیسے طویل لیکچرز یا شور شرابے والے بازار
٭ ڈسپلن کے لیے صحیح طریقے استعمال کریں۔ اچھے رویے پر انعام دیں اور منفی رویے کو روکنے کے لیے ٹھوس، محبت بھرا ڈسپلن اپنائیں
٭منظم اننداز میں کام کرنا سکھائیں۔ بچے کے لیے ایک روزنامہ یا چارٹ بنائیں تاکہ وہ اپنی سرگرمیاں اور اسائنمنٹ ترتیب سے کر سکے۔ بچوں کے کمرے میں سامان کو صاف اور منظم طریقے سے رکھیں
٭وقت پر کھانے اور نیند کو معمول بنائیں۔ اے ڈی ایچ ڈی والے بچے تبدیلیوں کو قبول کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں، اس لیے ایک باقاعدہ شیڈول بنائیں
سکول میں بچوں کے ساتھ رویہ
٭ اے ڈی ایچ ڈی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں۔
٭ اپنے بچے کے اساتذہ سے بات کریں۔ انہیں بچے کی نگرانی کرنے، مثبت آراء دینے اور ہدایات کو صاف اور واضح رکھنے کے لیے کہیں۔
متبادل علاج
اے ڈی ایچ ڈی کے متبادل علاج کے بارے میں دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن ان کے حق میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔ ایسے کچھ متبادل طریقے یہ ہیں:
یوگا یا مراقبہ: یہ بچے کو سکون دینے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
خاص غذا: کچھ غذاؤں مثلاً چینی، دودھ اور انڈوں کے استعمال کو محدود کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، تاہم اس کے بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
وٹامنز یا منرلز: کچھ وٹامنز کو اس میں مددگار بتایا جاتا ہے لیکن ابھی تک یہ مصدقہ بات نہیں۔
مرض سے مقابلے کے لیے سپورٹ
اے ڈی ایچ ڈی والے بچے کی دیکھ بھال کرنا پورے خاندان کے لیے مشکل ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس پر والدین کی آپس میں بات چیت اور ایک دوسرے کی مدد کرنا ضروری ہے۔
کامیابی کے لیے حکمت عملی
٭ بچے کو توجہ دیں، اس کے ساتھ اچھا وقت گزاریں اور اس کے اچھے پہلوؤں کی تعریف کریں
٭ خود کو کچھ وقفہ دیں۔ کبھی کبھار اپنے بچے سے تھوڑی دیر کے لیے علیحدہ ہو جائیں تاکہ دوبارہ تازہ دم ہو سکیں
ملاقات کی تیاری
آپ غالباً اپنے بچے کو فیملی ڈاکٹر یا ماہرِ اطفال کے پاس لے کر جائیں گے۔ ابتدائی معائنہ کے نتائج کی بنیاد پر ڈاکٹر آپ کو کسی ماہر کے پاس بھیج سکتا ہے۔ ان میں نشوونما / رویے کے ماہرِ اطفال، ماہرِ نفسیات، یا ماہرِ اعصابی امراض شامل ہیں۔
آپ کیا کر سکتے ہیں
ڈاکٹر سے ملاقات سے قبل یہ اقدامات کریں:
٭ گھر یا سکول میں بچے کی علامات اور مشکلات کی ایک فہرست بنائیں
٭ اہم ذاتی معلومات تیار کریں جن میں بڑے ذہنی دباؤ یا حالیہ زندگی کی تبدیلیاں شامل ہوں۔
٭ تمام ادویات، وٹامنز، جڑی بوٹیوں/ سپلیمنٹس اور ان کی ڈوز کی فہرست بنائیں جو آپ کا بچہ لے رہا ہے۔
٭ اگر آپ کے پاس پرانے ٹیسٹوں کے رزلٹ موجود ہیں تو انہیں اور سکول کا رپورٹ کارڈز ساتھ لے جائیں۔
اپنے بچے کے ڈاکٹر سے پوچھنے کے لیے سوالات کی فہرست تیار کریں۔
ڈاکٹر سے سوالات
آپ کو ڈاکٹر سے یہ سوالات ضرور پوچھنے چاہئیں:
٭ اے ڈی ایچ ڈی کے علاوہ، بچے کی علامات کی ممکنہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟
٭ میرے بچے کو کس قسم کے ٹیسٹ کی ضرورت ہے؟
٭ کون سے علاج دستیاب ہیں، اور آپ کون سا تجویز کرتے ہیں؟
٭ آپ کے تجویز کردہ بنیادی علاج کے متبادل کیا ہیں؟
٭ بچے کو صحت کے دیگر مسائل بھی ہیں۔ میں ان تمام حالات کو ایک ساتھ کیسے سنبھال سکتا ہوں؟
٭ کیا میرے بچے کو کسی ماہر سے رجوع کرنا چاہیے؟
٭ کیا اس دوا کا کوئی جنرک متبادل دستیاب ہے جو آپ میرے بچے کے لیے تجویز کر رہے ہیں؟
٭ دوا کے کس قسم کے مضر اثرات کی توقع کی جا سکتی ہے؟
٭ کیا میرے لیے کوئی تحریری مواد دستیاب ہے؟ آپ کون سی ویب سائٹس تجویز کرتے ہیں؟
اگر آپ کو کسی بات کی سمجھ نہ آئے تو بلا جھجک سوال کریں۔
ڈاکٹر کے ممکنہ سوالات
ڈاکٹر آپ سے درج ذیل سوالات پوچھ سکتا ہے:
٭ آپ نے پہلی بار اپنے بچے کے رویے کے مسائل کب محسوس کیے؟
٭ کیا یہ مسائل ہر وقت ہوتے ہیں یا مخصوص حالات میں؟
٭ گھر اور سکول میں آپ کے بچے کی مشکلات کتنی شدید ہیں؟
٭ کیا چیز آپ کے بچے کے رویے کو بگاڑتی ہے؟
٭ کون سی چیز آپ کے بچے کے رویے کو بہتر بناتی ہے؟
٭ کیا آپ کا بچہ کیفین استعمال کرتا ہے؟ اگر کرتا ہے تو کتنی مقدار میں؟
٭ آپ کے بچے کے سونے کے اوقات کیا ہیں؟
٭ آپ کے بچے کی موجودہ اور ماضی کی تعلیمی کارکردگی کیسی ہے؟
٭ کیا آپ کا بچہ گھر میں پڑھتا ہے؟ کیا اسے پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے؟
٭ آپ نے گھر میں ڈسپلن کے کون سے طریقے استعمال کیے ہیں؟ کون سے مؤثر ہیں؟
٭ گھر میں کون کون رہتا ہے اور روزمرہ کی روٹین کیا ہے؟
٭ گھر اور سکول میں آپ کے بچے کے سماجی تعلقات کیسے ہیں؟
آپ کا ڈاکٹر یا ذہنی صحت کا ماہر آپ کے جوابات، علامات اور ضروریات کی بنیاد پر اضافی سوالات بھی پوچھے گا۔ سوالات کی تیاری اور ان کی پیش بندی کرنا ڈاکٹر کے ساتھ ملاقات کو مؤثر بنائے گا۔