پروسٹیٹ کینسر کی فعال نگرانی اس صورت میں کی جاتی ہے جب کینسر؛
٭ چھوٹا ہو
٭ بہت سست رفتاری سے بڑھنے کا امکان ہو
٭ صرف پروسٹیٹ کے ایک حصے تک محدود ہو
٭ مزید کوئی علامت سامنے نہ آئے یا وہ تکلیف نہ دے رہا ہو
اگر عمر محدود کرنے والی کوئی سنگین بیماری لاحق ہے تو فعال نگرانی مناسب انتخاب ہو سکتا ہے۔
نگرانی کیوں کی جاتی ہے؟
فعال نگرانی ان مریضوں کے لیے ہوتی ہے جن میں کینسر موجود تو ہوتا ہے، مگر وہ سست رفتار یا غیر فعال ہوتا ہے۔ ایسے میں فوری علاج کی ضرورت نہیں ہوتی، کیونکہ علاج (مثلاً سرجری یا ریڈی ایشن) کے اپنے نقصانات ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں صرف ایکٹو سرویلنس کی جاتی ہے۔
یہ طریقہ تب اپنایا جاتا ہے جب کینسر بڑھنے کا خطرہ بہت کم ہو۔ پروسٹیٹ کینسر اکثر بہت آہستہ بڑھتا ہے۔ بعض صورتوں میں یہ اتنا معمولی ہوتا ہے کہ زندگی بھر اس کی علامات سامنے نہیں آتیں۔ بہت سے افراد یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں اور علاج کے بغیر بقیہ زندگی گزار لیتے ہیں۔
یہ طریقہ آپ کے لیے مناسب ہو سکتا ہے اگر:
٭ کینسر چھوٹے سائز میں ہو اور صرف ایک جگہ محدود ہو
٭ گلیسن سکور (Gleason Score) کم ہو۔ اس کا کم سکور ظاہر کرتا ہے کہ کینسر سست روی سے بڑھنے والا ہے
٭ کوئی اور ایسی پیچیدہ بیماری (مثلاً دل کا شدید مرض) ہو جو علاج کے مضر اثرات کو مزید خطرناک بنا سکتی ہو
ممکنہ اثرات
ایکٹو سرویلنس کے کچھ ممکنہ اثرات بھی ہو سکتے ہیں:
ذہنی دباؤ: کینسر کی جسم میں موجودگی (چاہے وہ سست ہو) ذہنی پریشانی کا سبب بن سکتی ہے
بار بار چیک اپ: آپ کو ہر چند ماہ بعد ڈاکٹر سے ملاقات اور مختلف ٹیسٹ کروانے کے لیے تیار رہنا ہو گا
کینسر بڑھ جانا: انتظار کے دوران کینسر بڑھ بھی سکتا ہے۔ اگر دیر ہو جائے تو مؤثر علاج کا موقع ضائع ہو سکتا ہے
محدود علاج کے اختیارات: اگر کینسر پھیل جائے تو علاج کے مواقع محدود ہو سکتے ہیں
معائنہ اور ٹیسٹ
ایکٹو سرویلنس کے دوران آپ کو ہر چند ماہ بعد معالج سے باقاعدہ ملاقاتیں کرنا ہوں گی۔ ان ملاقاتوں میں مختلف ٹیسٹ کیے جا سکتے ہیں، جیسے:
ڈیجیٹل ریکٹل معائنہ: اس میں ڈاکٹر دستانہ پہنے ہوئے ہاتھ کی انگلی ریکٹم میں داخل کرتا ہے۔ اس کا مقصد پروسٹیٹ کی سطح کو محسوس کرنا ہوتا ہے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ اس میں کوئی تبدیلی تو نہیں آئی
پی ایس اے بلڈ ٹیسٹ: اس سے پروسٹیٹ سپیسفک اینٹیجن ( پی ایس اے) کی مقدار معلوم کی جاتی ہے۔ اگر یہ مقدار بڑھ رہی ہو تو کینسر بڑھنے کا امکان ہوتا ہے
الٹراساؤنڈ یا ایم آر آئی: اگر دیگر ٹیسٹوں میں کچھ غیرمعمولی بات ظاہر ہو تو مزید جانچ کے لیے ٹرانس ریکٹل الٹراساؤنڈ یا ایم آر ائی کی جا سکتی ہے
بائیوپسی: ایکٹو سرویلنس کے تقریباً ایک سال بعد بائیوپسی تجویز کی جاتی ہے۔ بائیوپسی اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً کی جا سکتی ہے۔ اس کا مقصد یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ کینسر میں کتنی تبدیلی آئی ہے، اور کیا گلیسن سکور اب بھی کم ہے یا بڑھ گیا ہے
نتائج
ایکٹو سرویلنس کروانے والے بہت سے افراد کو باقاعدہ علاج کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ان کا کینسر نہ بڑھتا ہے، اور نہ ہی علامات پیدا کرتا ہے۔ علاج کا فیصلہ اس وقت کیا جاتا ہے جب:
٭ کینسر توقع سے زیادہ تیزی سے بڑھنے لگے
٭ وہ پروسٹیٹ کی محدود جگہ سے باہر نکلنے لگے
٭ علامات پیدا کرنے لگے
علاج کی قسم کا انحصار مریض کی حالت پر ہوتا ہے۔ اس میں سرجری، دوائیں یا ریڈی ایشن شامل ہو سکتی ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون قارئین کی معلومات کے لیے شائع کیا گیا ہے۔ صحت سے متعلق امور میں اپنے معالج کے مشورے پر عمل کریں۔