پچوٹری گلینڈ ایک چھوٹا سا غدود ہے جو دماغ کے نچلے حصے میں ناک کے پل کے پیچھے واقع ہوتا ہے۔ یہ گروتھ ہارمونز (جی ایچ) سمیت کئی طرح کے ہارمونز پیدا کرتا ہے۔ جی ایچ جسمانی نشوونما کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بعض اوقات پچوٹری گلینڈ زیادہ مقدار میں گروتھ ہارمون پیدا کرنے لگتا ہے۔ اس مرض کو ایکرومیگالی (Acromegaly) کہتے ہیں۔ اس ہارمون کی مقدار زیادہ ہونے سے ہڈیاں بڑھنے لگتی ہیں۔ بچپن میں یہ مرض قد میں غیر معمولی اضافے کا سبب بنتا ہے جسے جائی گینٹزم (gigantism) کہا جاتا ہے۔ بالغوں میں قد میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ اس کے بجائے ہڈیوں کے سائز میں اضافہ ہوتا ہے جو صرف ہاتھوں، پاؤں اور چہرے تک محدود رہتا ہے۔
اگر اس مرض کا علاج نہ کیا جائے تو ہڈیوں کے علاوہ دیگر حصے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ سنگین، حتیٰ کہ جان لیوا طبی مسائل کا بھی سبب بن سکتا ہے۔ علاج پیچیدگیوں کا خطرہ کم کر سکتا ہے اور علامات بھی نمایاں طور پر بہتر ہو جاتی ہیں۔ ان میں جسمانی خدوخال کا بڑا ہونا بھی شامل ہے۔
علامات
ایکرومیگالی کی عام علامت ہاتھوں اور پاؤں کا بڑا ہونا ہے۔ مثلاً بیماری کے بعد آپ پرانی انگوٹھیاں نہیں پہن سکتے۔ آپ کے جوتے کا سائز بھی بتدریج بڑھ جاتا ہے۔ چہرے کی ساخت میں بھی آہستہ آہستہ تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان میں نچلے جبڑے اور بھنوؤں کی ہڈی کا باہر نکل آنا، ناک کا بڑا ہونا، ہونٹوں کا موٹا ہونا، اور دانتوں کے درمیان زیادہ فاصلہ پیدا ہونا شامل ہیں۔
مرض آہستہ آہستہ بڑھتا ہے۔ اس لیے اس کی ابتدائی علامات کئی سال تک واضح نہیں ہوتیں۔ بعض اوقات لوگ انہیں پرانی اور نئی تصاویر کے موازنے سے پہچانتے ہیں۔ علامات ہر شخص میں مختلف ہو سکتی ہیں۔ ان میں نمایاں یہ ہیں:
٭ ہاتھوں اور پاؤں کا بڑا ہونا
٭ چہرے کے خد و خال میں اضافہ ہونا (جن میں چہرے کی ہڈیاں، ہونٹ، ناک اور زبان شامل ہیں)
٭ جلد کھردری، چکنی، اور موٹی ہونا
٭ زیادہ پسینہ آنا اور بدن کی بُو کا بڑھ جانا
٭ جلد پر سکن ٹیگز بننا
٭ تھکن اور جوڑوں یا پٹھوں کی کمزوری ہونا
٭ جوڑوں میں درد اور ان کی حرکت محدود ہونا
٭ ووکل کارڈز اور سائی نس کے بڑا ہونے کے سبب آواز گہری اور بھاری ہونا
٭ سانس کی نالی میں رکاوٹ کی وجہ سے نیند میں شدید خراٹے لینا
٭ نظر کے مسائل پیش آنا
٭ مسلسل یا شدید سر درد رہنا
٭ ایام ماہواری بے قاعدہ ہونا
٭ مردوں میں جنسی کمزوری ہونا
٭ جنسی دلچسپی ختم ہونا
ڈاکٹر سے کب رجوع کریں

اگر ایکرومیگالی کی علامات محسوس ہوں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ اس کی جلد تشخیص اہم ہے تاکہ مناسب علاج شروع ہو سکے۔ بصورت دیگر سنگین طبی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
وجوہات
جب پچوٹری گلینڈ خون میں جی ایچ خارج کرتا ہے تو جگر کو انسولین جیسا گروتھ فیکٹر-1 (آئی جی ایف -1) ہارمون پیدا کرنے کا اشارہ ملتا ہے۔ یہ ہارمون ہڈیوں اور دیگر ٹشوز کی نشوونما کا باعث بنتا ہے۔ جی ایچ کی زیادہ پیداوار زیادہ اۤئی جی ایف -1 کا سبب بنتی ہے۔ یہ عمل ایکرومیگالی کی علامات اور پیچیدگیوں کا باعث بنتا ہے۔ بالغوں میں جی ایچ کی زیادہ مقدار کی عام وجہ ٹیومر ہوتا ہے۔ یہ دو طرح کا ہوتا ہے۔
پچوٹری ٹیومرز
زیادہ تر ایکرومیگالی کیسز پچوٹری گلینڈ کے غیر سرطانی ٹیومرز (ایڈینوما) کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ یہ ٹیومر زیادہ مقدار میں گروتھ ہارمون پیدا کرتے ہیں۔ مرض کی کچھ علامات (جیسے سر درد اور نظر کی خرابی) قریبی ٹشوز پر ٹیومر کے دباؤ کی وجہ سے سامنے آتی ہیں۔
غیر پچوٹری ٹیومرز
ایکرومیگالی کے کچھ مریضوں میں جسم کے دیگر حصوں (مثلاً پھیپھڑوں یا لبلبے) میں موجود ٹیومرز بیماری کا سبب بنتے ہیں۔ کبھی کبھار یہ براہ راست جی ایچ خارج کرتے ہیں۔ دیگر صورتوں میں وہ گروتھ ہارمون-ریلیزنگ ہارمون (GH-RH) خارج کرتے ہیں۔ یہ ہارمون پچوٹری گلینڈ کو زیادہ جی ایچ پیدا کرنے کا اشارہ دیتے ہیں۔
خطرے کے عوامل
کچھ افراد میں ایک نایاب جینیاتی حالت ملٹی پل اینڈوکرائن نیوپلیشیا ٹائپ1 (MEN 1) ہوتی ہے۔ اس میں ایکرومیگالی کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ ایم ای این 1 میں اینڈوکرائن غدود (مثلاً پیرا تھائیرائڈ گلینڈز، لبلبہ اور پچوٹری گلینڈ) ٹیومر بناتے اور اضافی ہارمونز خارج کرتے ہیں۔ یہ اضافی ہارمونز ایکرومیگالی کا باعث بن سکتے ہیں۔
پیچیدگیاں
اگر ایکرومیگالی کا علاج نہ کیا جائے تو یہ سنگین طبی مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کی ممکنہ پیچیدگیوں میں یہ شامل ہیں:
٭ ہائی بلڈ پریشر (ہائیپرٹینشن)
٭ ہائی کولیسٹرول
٭ دل کے مسائل، خاص طور پر دل بڑا ہو جانا (کارڈیو مایوپیتھی)
٭ اوسٹیو آرتھرائٹس
٭ ٹائپ 2 ذیابیطس
٭ تھائیرائیڈ گلینڈ کا بڑا ہونا (گلہڑ)
٭ آنت کی دیوار پر قبل از سرطان نشو و نما (پولپس)
٭ نیند کی کمی کا مرض سلیپ ایپنیا، جس میں دوران نیند سانس بار بار رکتا اور شروع ہوتا ہے
٭ کارپل ٹنل سنڈروم
٭ کینسر والے ٹیومرز کا بڑھا ہوا خطرہ
٭ ریڑھ کی ہڈی میں دباؤ یا فریکچر
٭ نظر میں تبدیلیاں یا بینائی ختم ہونا
ایکرومیگالی کا ابتدائی علاج ان پیچیدگیوں کو بڑھنے یا مزید خراب ہونے سے روک سکتا ہے۔ اگر اس بیماری اور اس کی پیچیدگیوں کا علاج نہ کیا جائے تو یہ قبل از وقت موت کا سبب بن سکتی ہے۔
تشخیص
آپ کا ڈاکٹر آپ کی طبی تاریخ معلوم کرے گا اور جسمانی معائنہ کرے گا۔ اس کے بعد وہ درج ذیل اقدامات تجویز کر سکتا ہے:
آئی جی ایف -1
رات بھر خالی پیٹ رہنے کے بعد آپ کے خون کا نمونہ لے کر اس میں آئی جی ایف -1 کی مقدار کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس کی بلند سطح اس مرض کی نشاندہی کرتی ہے۔
گروتھ ہارمون سپریشن ٹیسٹ
یہ ایکرومیگالی کی تصدیق کے لیے سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ اس ٹیسٹ میں جی ایچ کی پیمائش گلوکوز کا محلول پینے سے پہلے اور بعد میں کی جاتی ہے۔ اگر ایکرومیگالی نہ ہو تو گلوکوز پینے کے بعد جی ایچ کی سطح کم ہو جاتی ہے۔ اس مرض کی صورت میں اس کی سطح بلند رہتی ہے۔
امیجنگ
پچوٹری گلینڈ پر موجود ٹیومر کا مقام اور سائز جانچنے کے لیے ایم آر آئی تجویز کیا جا سکتا ہے۔ اگر پچوٹری گلینڈ میں کوئی ٹیومر نہ ہو تو غیر پچوٹری ٹیومرز کو تلاش کرنے کے لیے دیگر امیجنگ ٹیسٹ کیے جا سکتے ہیں۔
علاج
ایکرومیگالی کا علاج ہر فرد میں مختلف ہو سکتا ہے۔ اس کا پلان ٹیومر کے مقام اور سائز، علامات کی شدت، مریض کی عمر اور مجموعی صحت کی بنیاد پر تیار کیا جاتا ہے۔ جی ایچ اور آئی جی ایف- 1 کی سطح کو کم کرنے، ٹیومر کو ہٹانے یا اس کا سائز کم کرنے کے لیے سرجری یا ریڈی ایشن تھیراپی کی جاتی ہے۔ ہارمون کی سطح کو معمول پر لانے کے لیے ادویات دی جاتی ہیں۔ اگر ایکرومیگالی کی وجہ سے صحت کے مسائل پیدا ہو رہے ہوں تو پیچیدگیوں سے نپٹنے کے لیے ڈاکٹر اضافی علاج بھی تجویز کر سکتا ہے۔
سرجری
زیادہ تر پچوٹری ٹیومرز کو ٹرانسفینوئیڈل سرجری کے ذریعے نکالا جا سکتا ہے۔ اس میں سرجن ناک کے ذریعے پچوٹری گلینڈ سے ٹیومر نکالتا ہے۔ اگر ٹیومر پچوٹری گلینڈ پر موجود نہ ہو تو اسے ہٹانے کے لیے کوئی اور سرجری تجویز کی جا سکتی ہے۔
٭ اکثر صورتوں میں، خاص طور پر اگر ٹیومر چھوٹا ہو تو ٹیومر نکالنے سے جی ایچ کی سطح معمول پر آ جاتی ہے
٭ اگر ٹیومر پچوٹری گلینڈ کے ارد گرد کے ٹشو پر دباؤ ڈال رہا ہو تو اسے ہٹانے سے سر درد اور نظر کے مسائل میں بھی افاقہ ہوتا ہے
٭ بعض اوقات سرجن مکمل ٹیومر کو نہیں نکال پاتا۔ ایسی صورت میں سرجری کے بعد بھی جی ایچ کی سطح بلند رہ سکتی ہے۔ اس صورت میں ڈاکٹر دوسری سرجری، ادویات یا ریڈی ایشن تجویز کر سکتا ہے۔
ادویات
ہارمونز کی سطح کو معمول پر لانے کے لیے درج ذیل ادویات یا ان کا مجموعہ تجویز کیا جا سکتا ہے:
گروتھ ہارمون کی پیداوار کم کرنے والی ادویات
جسم میں ایک ہارمون "سومیٹوسٹیٹن” جی ایچ کی پیداوار کو روکتا ہے۔ اس کی حامل ادویات پچوٹری گلینڈ کو اس کی پیداوار کم کرنے کا سگنل دیتی ہیں۔ اس سے ان کی پیداوار کم ہونے کے ساتھ ساتھ پچوٹری ٹیومر کا سائز بھی گھٹ جاتا ہے۔ بالعموم مہینے میں ایک بار اس کا انجیکشن کولہوں کے پٹھوں میں لگایا جاتا ہے۔
ہارمونز کی سطح کم کرنے والی ادویات
منہ کے ذریعے لی جانے والی کچھ ادویات بعض مریضوں میں جی ایچ اور آئی جی ایف-1 کی سطح کم کرنے میں مددگار ہو سکتی ہیں۔ یہ ادویات ٹیومر کا سائز کم کرنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔ انہیں عموماً زیادہ مقدار میں استعمال کرنا پڑتا ہے جس سے مضر اثرات کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔ اس کے ضمنی اثرات میں متلی، قے، ناک بند ہونا، تھکن، چکرآنا، نیند کے مسائل، اور موڈ میں تبدیلیاں نمایاں ہیں۔
گروتھ ہارمون کا کام روکنے والی دوا
کچھ دوائیں جسم کے ٹشوز پر جی ایچ کے اثر کو روکتی ہیں۔ یہ ان لوگوں کے لیے بالخصوص مفید ہو سکتی ہیں جنہیں دیگر علاج سے فائدہ نہ ہوا ہو۔ یہ دوا روزانہ انجیکشن کی صورت میں دی جاتی ہے۔ یہ آئی جی ایف-1 کی سطح کم اور علامات کو دور کرنے میں مدد دیتی ہے۔ تاہم یہ جی ایچ کی سطح یا ٹیومر کا سائز نہیں گھٹاتی۔
ریڈی ایشن
اگر سرجری کے دوران پورا ٹیومر نہ ہٹایا جا سکے تو ریڈی ایشنز تجویز کی جا سکتی ہیں۔ ریڈی ایشن تھیراپی ٹیومر کے باقی رہ جانے والے خلیوں کو ختم کرتی ہے۔ اس سے جی ایچ کی سطح آہستہ آہستہ کم ہوتی ہے۔ اس علاج کے اثرات نمایاں طور پر محسوس ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
ریڈی ایشن تھیراپی اکثر اوقات دیگر پچوٹری ہارمونز کی سطح کو بھی کم کرتی ہے۔ اگر ریڈی ایشن تھیراپی ہوئی ہو تو آپ کو معالج کے ساتھ رابطے کی ضرورت ہو گی۔ اس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ پچوٹری گلینڈ ٹھیک کام کر رہا ہے اور ہارمون کی سطح مناسب ہے۔ یہ فالو اَپ ممکنہ طور پر زندگی بھر جاری رہ سکتا ہے۔
ریڈی ایشن تھیراپی کی اقسام
اس کی پہلی قسم روایتی ریڈی ایشن تھیراپی ہے۔ یہ بالعموم ہفتے کے پانچ دن، چار سے چھ ہفتوں تک دی جاتی ہے۔ اس کے مکمل اثرات کو محسوس کرنے میں 10 یا اس سے زیادہ سال لگ سکتے ہیں۔
دوسری قسم سٹیریو ٹیکٹک ریڈیو سرجری ہے۔ اس تکنیک میں تھری ڈی امیجنگ استعمال کی جاتی ہے۔ اس کا مقصد ارد گرد کے صحت مند ٹشوز کو کم سے کم نقصان کے ساتھ ٹیومر کے خلیوں کو زیادہ مقدار میں ریڈی ایشن دینا ہے۔ یہ علاج عام طور پر ایک ہی ڈوز میں مکمل ہو جاتا ہے۔ یہ طریقہ جی ایچ کی سطح کو پانچ سے دس سال کے اندر معمول پر لا سکتا ہے۔

ڈاکٹر سے ملاقات کی تیاری
اس مرض کا شبہہ ہو تو آپ کو پہلے فیملی ڈاکٹر یا جنرل فزیشن سے رابطہ کرنا ہو گا۔ بعض اوقات آپ کو بلا تاخیر ماہر غدود (اینڈوکرائنولوجسٹ) کے پاس بھیجا جا سکتا ہے۔ ملاقات کے لیے قبل از وقت تیاری کرنا فائدہ مند ہوتا ہے۔ یہاں کچھ معلومات ہیں جو آپ کو اس میں مدد دے سکتی ہیں:
آپ کیا کر سکتے ہیں
٭ اپوائنٹمنٹ سے پہلے ممکنہ پابندیوں کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ ملاقات طے کرتے وقت پوچھیں کہ کیا ٹیسٹ کے لیے آپ کو کسی خاص ہدایت پر عمل کرنا ہوگا؟
٭ اپنی علامات لکھ لیں۔ ان تمام مسائل (مثلاً سر درد، نظر میں تبدیلی یا ہاتھوں میں تکلیف وغیرہ) کو نوٹ کر لیں جو آپ کو پریشان کر رہے ہیں۔ اس فہرست میں ان علامات کو بھی شامل کریں جو بظاہر غیر متعلقہ معلوم ہوں
٭ اہم ذاتی معلومات لکھ لیں۔ ان میں ازدواجی زندگی میں تبدیلیاں یا خواتین کی ماہواری میں تبدیلیاں شامل ہیں
٭ ادویات اور سپلیمنٹس کی فہرست تیار کریں۔ ان میں آپ کے لیے تجویز کردہ تمام دوائیں، وٹامنز اور سپلیمنٹس شامل ہیں
٭ اپنی پرانی تصاویر ساتھ لائیں۔ ڈاکٹر آپ کی موجودہ حالت کا موازنہ 10 سال یا اس سے زیادہ پرانی تصاویر سے کر سکتے ہیں
٭ کسی عزیز کو اپنے ساتھ لے جائیں۔ وہ کچھ ایسی باتیں یاد رکھ سکتا ہے جو آپ بھول جائیں
٭ اپنے تمام سوالات لکھ لیں۔ یہ عمل ملاقات کے وقت کو مؤثر بنائے گا
ڈاکٹر سے سوالات
٭ میری علامات کی سب سے بڑی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟
٭ اس کی دیگر ممکنہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟
٭مجھے کون سے ٹیسٹ کروانے کی ضرورت ہے؟
٭ کون سے علاج دستیاب ہیں اور آپ کیا تجویز کرتے ہیں؟
٭ علاج کے بعد علامات بہتر ہونے میں کتنا وقت لگے گا؟
٭ کیا علاج کے بعد میری حالت مکمل طور پر پہلے جیسی ہو جائے گی؟
٭ کیا اس بیماری کی وجہ سے طویل مدتی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں؟
٭ مجھے صحت کے کچھ دیگر مسائل بھی ہیں۔ میں ان کے ساتھ اس بیماری کو کیسے مینج کروں؟
٭ کیا مجھے کسی اور شعبے کے ماہر سے بھی مشورہ کرنے کی ضرورت ہے؟
٭ کیا آپ کی تجویز کردہ دوا کا کوئی جنیرک متبادل بھی دستیاب ہے؟
٭ کیا آپ کے پاس اس مرض پر کوئی تحریری مواد موجود ہے؟
٭ کیا آپ اس موضوع پر کسی مصدقہ ویب سائٹ کے بارے میں راہنمائی کر سکتے ہیں؟
اگر کچھ اور سوالات بھی ذہن میں ہوں تو پوچھنے میں جھجک محسوس نہ کریں
ڈاکٹر کے سوالات
٭ آپ میں کون سی علامات سامنے آئی ہیں اور یہ کب ظاہر ہوئیں؟
٭ کیا آپ نے اپنی حالت یا شکل میں کوئی تبدیلی محسوس کی؟ کیا آپ کو ازدواجی تعلقات میں مسائل کا سامنا ہوتا ہے؟ آپ کی نیند کیسی جا رہی ہے؟ کیا آپ کو سر درد یا جوڑوں کا درد ہے؟ کیا آپ کی نظر کمزور ہوئی ہے؟ کیا آپ کو زیادہ پسینہ آتا ہے؟
٭ کیا کوئی ایسا فیکٹر ہے جو آپ کی علامات کو بہتر یا خراب کرتا ہو؟
٭ آپ کے خیال میں آپ کی شکل و صورت کتنی تبدیل ہوئی ہے؟ کیا آپ کے پاس پرانی تصاویر ہیں جن کے ساتھ آپ کی موجودہ حالت کا موازنہ کیا جا سکے؟
٭ کیا آپ کو پرانے جوتے اور انگوٹھیاں اب بھی فٹ آتی ہیں؟ اگر نہیں، تو یہ تبدیلی آئے کتنا عرصہ ہوا ہے؟
٭کیا آپ نے کولون کینسر کی سکریننگ کروائی ہے؟