Vinkmag ad

ذیابیطس یا "شوگر” سے متعلق اہم سوالات

ذیابیطس یا "شوگر" سے متعلق اہم سوالات-شفانیوز

ہمارے ہاں شوگر یا ذیابیطس کافی عام ہے۔ اس کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد اس کے بارے میں بنیادی باتوں سے لاعلم ہے۔ شفا انٹر نیشنل ہسپتال اسلام آباد کے اینڈوکرائنالوجسٹ یعنی ماہر امراض غدود ڈاکٹر محمد طیب بادشاہ اس مرض سے متعلق تفصیلات فراہم کر رہے ہیں

شوگر یا ذیابیطس کی وجوہات کیا ہیں؟

جسم کے مختلف اعضاء کو کام کرنے کے لیے گلوکوز یعنی شوگر درکار ہوتی ہے۔ خون میں اس کی مقدار ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو یہ نقصان کا باعث بھی بنتی ہے۔ اس مرض کو ذیابیطس بھی کہتے ہیں۔

ذیابیطس کی دو بڑی اقسام ہیں جن میں پہلی ٹائپ 1 اور دوسری ٹائپ 2 ذیابیطس ہے۔ پہلی قسم زیادہ تر بچوں اور نوجوانوں میں پائی جاتی ہے۔ اس صورت میں لبلبہ انسولین نہیں بناتا۔ ذیابیطس کی دوسری قسم بالعموم 40 سال سے زائد عمر کے افراد کو ہوتی ہے۔ اس قسم میں انسولین پیدا تو ہوتی ہے لیکن وہ یا تو ناکافی ہوتی ہے یا پھر اثر نہیں کرتی۔ اس کا علاج گولیوں اور انسولین، دونوں سے ہو سکتا ہے۔ اس قسم کا تعلق ہمارے طرز زندگی سے ہے۔ اگر خوراک ٹھیک نہ ہو کوئی شخص جسمانی طور پر کم متحرک ہو تو وہ اس کا شکار ہو سکتا ہے۔

کیا زیادہ میٹھا کھانے سے شوگر ہو جاتی ہے؟

زیادہ میٹھا کھانے سے شوگر کا براہ راست تعلق تو نہیں لیکن اس سے موٹاپا ہو جاتا ہے اور موٹاپے کے نتیجے میں ذیابیطس ہو سکتا ہے۔ مٹھائیوں اور کولڈ ڈرنکس کے علاوہ ہمارے ہاں پکوڑوں، سموسوں، پراٹھوں اور بیکری کی اشیاء استعمال کرنے کا رواج بہت زیادہ ہے۔ ان تمام چیزوں میں کیلوریز زیادہ ہوتی ہیں جو جسم میں چربی کی شکل میں جمع ہو کر موٹاپے کا سبب بنتی ہیں۔

موٹاپے اور شوگر کا کیا تعلق ہے؟

موٹاپے کی صورت میں بڑھے ہوئے جسم کی اضافی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے زیادہ مقدار میں انسولین درکار ہوتی ہے۔ ایسے میں لبلبے کو اپنی بساط سے بڑھ کر کام کرنا پڑتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ تھک جاتا ہے۔ اس کے ٹھیک طرح سے کام نہ کرنے کی وجہ سے خون میں گلوکوز کی مقدار بڑ ھ جاتی ہے اور فرد کو ذیابیطس ہو جاتا ہے۔

زیادہ میٹھا کھانے سے شوگر کا براہ راست تعلق تو نہیں لیکن اس سے موٹاپا ہو جاتا ہے اور موٹاپے کے نتیجے میں ذیابیطس ہو سکتا ہے

انسولین کیا اور یہ شوگر کو کیسے کنٹرول کرتی ہے؟

انسولین لبلبے کا پیدا کردہ ایک ہارمون ہے۔ یہ مناسب مقدار میں ہو اور اپنا کام بھی ٹھیک طرح سے کرے تو گلوکوز ہمارے جسم کا حصہ بن کر ہمیں توانائی فراہم کرتی ہے۔ ایسا نہ ہو تو ہم گلوکوز سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ نتیجتاً کھانا کھانے کے باوجود کمزوری ہوتی ہے اور گردوں، دل اور بینائی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

واک اور ورزش سے شوگر کیسے کنٹرول ہوتی ہے؟

جسمانی سرگرمیوں کی وجہ سے کیلوریز زیادہ استعمال ہوتی ہیں اور چربی کی شکل میں جمع نہیں ہو پاتیں لہٰذا شوگر بھی کنٹرول میں رہتی ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کا کام ایسا ہے جس میں انہیں سارا دن ایک ہی جگہ بیٹھے رہنا ہوتا ہے۔ دوسری طرف ان کی غذا بھی بالعموم زیادہ کیلوریز والی ہوتی ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ اپنی غذا کو کنٹرول کریں اور متحرک طرز زندگی اپنائیں۔ روزانہ کم از کم آدھا گھنٹہ واک، تیراکی یا اپنی پسند کی کوئی بھی جسمانی سرگرمی  کریں۔

شوگر کی علامات کیا ہیں؟

خون میں شوگر بہت زیادہ ہو جائے یعنی وہ 200 یا 300 تک پہنچ جائے تو کچھ علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ مثلاً بار بار پیاس لگتی ہے، پیشاب زیادہ آتا ہے، وزن کم ہو جاتا ہے اور آنکھوں میں دھندلا پن آ جاتا ہے۔ جن لوگوں میں یہ علامات ظاہر ہوں، انہیں چاہیے کہ فوراً ڈاکٹر کو دکھائیں۔ جن لوگوں میں یہ علامات نہیں سامنے آتیں لیکن ان کی عمر 40 سال سے زائد ہو تو انہیں بھی سال میں ایک بار ضرور چیک اَپ کرانا چاہیے۔ خاندان میں یہ مرض موجود ہو، وزن زیادہ ہو یا ہائی بلڈپریشر ہو تو اس عمر سے قبل بھی چیک اَپ کروائیں۔

جسمانی سرگرمیوں کی وجہ سے کیلوریز زیادہ استعمال ہوتی ہیں اور چربی کی شکل میں جمع نہیں ہو پاتیں لہٰذا شوگر بھی کنٹرول میں رہتی ہے

ذیابیطس کو خاموش قاتل کیوں کہتے ہیں؟

شوگر کی سطح بہت زیادہ بلند نہ ہو تو امکان ہے کہ کئی سال تک اس کی علامات ظاہر ہی نہ ہوں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ نقصان نہیں پہنچا رہی۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ بالعموم جب ٹائپ 2 ذیابیطس کی تشخیص ہوتی ہے تو اس سے تقریباً پانچ سال پہلے یہ مرض ہو چکا ہوتا ہے۔

کیا گلوکومیٹر سے شوگر کا ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے؟

ان سے گلوکوز کی سطح کو مانیٹر کرنے میں مدد ملتی ہے لیکن مرض کی تشخیص نہیں کی جا سکتی۔ ان کے نتائج اتنے صحیح نہیں ہوتے کہ ان پر تشخیص کے حوالے سے بھی اعتماد کیا جا سکے۔ تشخیص کے لیے کسی اچھی لیبارٹری سے رجوع کرنا چاہیے۔ اس ٹیسٹ کے لیے تین طریقے ہیں۔

پہلا طریقہ خالی پیٹ گلوکوز کا ٹیسٹ ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ فرد نے ٹیسٹ سے آٹھ گھنٹے پہلے پانی کے علاوہ کچھ کھایا پیا نہ ہو۔ اس ٹیسٹ میں نارمل ریڈنگ 100 سے کم ہونی چاہیے۔ یہ 100 سے 125 تک ہو تو اسے بارڈرلائن یا قبل از ذیابیطس کہتے ہیں۔ یہ 125 سے اوپر ہو تو اسے مکمل ذیابیطس کہا جاتا ہے یعنی فرد اس مرض کا شکار ہے۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی وقت شوگر چیک کر لی جائے۔ اس کی ریڈنگ 140 سے نیچے ہو تو نارمل ہے۔ اگر یہ 140 سے 200 تک ہو تو اسے بارڈرلائن جبکہ اس سے اوپر ہو تو مکمل ذیابیطس کہا جائے گا۔

تیسرے ٹیسٹ میں پچھلے دو سے تین ماہ کے دوران شوگر کی فیصد اوسط معلوم کی جاتی ہے۔ یہ5.7 تک ہو تو نارمل، 5.7 سے 6.5 تک بارڈرلائن اور اس سے اوپر ہو تو مکمل ذیابیطس ہے۔ یہ ٹیسٹ کم از کم دو دفعہ، دو مختلف دنوں میں کیے جانے چاہئیں۔

شوگر سے جسم کو کیا نقصان ہوتا ہے؟

گلوکوز سے ذیلی طور پر کئی چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ پورے جسم کو نقصان پہنچاتی ہیں لیکن ان کی وجہ سے تین بڑے نقصان ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے پہلا گردوں، دوسرا نظر اور تیسرا اعصاب کو نقصان پہنچنا ہے۔ پاؤں کے اعصاب اس سے خاص طور پر متاثر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے پاؤں میں جلن اور سنسناہٹ محسوس ہوتی ہے۔ ذیابیطس کا مرض خون کی نالیوں کو تنگ کر سکتا ہے جس کے باعث ہارٹ اٹیک اور فالج بھی ہو سکتا ہے۔

استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر جب ایک دفعہ شوگر ہو جائے تو پھر یہ واپس نہیں ہوتی۔ اس لیے مریضوں کو چاہیے کہ فوراً اینڈوکرائنالوجسٹ کو دکھائیں

کیا پرہیز کرنے، دوائیں لینے اور واک وغیرہ کرنے سے یہ مرض ختم ہو جاتا ہے؟

استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر جب ایک دفعہ شوگر ہو جائے تو پھر یہ واپس نہیں ہوتی۔ اس لیے مریض کو چاہیے کہ فوراً اس شعبے کے ڈاکٹر یعنی اینڈوکرائنالوجسٹ سے ملے۔ اگر وہ دستیاب نہ ہو تو کسی میڈیکل سپیشلسٹ سے بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ وہی مریض کو بہتر گائیڈ کر سکتا ہے۔

کچھ چیزیں مریض کو خود ہی اور فوراً شروع کر دینی چاہئیں۔ مثلاً روزانہ ورزش اور واک کرنی چاہیے، گڑ، شکر اور چینی کے علاوہ میدے سے بنی ہوئی اور بیکری کی اشیاء سے پرہیز کرنی چاہیے۔ زیادہ میٹھے پھلوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ بالعموم چاولوں سے منع کیا جاتا ہے لیکن اگر انہیں ابال کر پانی نکال لیا جائے تو پھر انہیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

کیا ذیابیطس میں پھلوں سمیت ہر میٹھا منع ہے؟

اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ مریض کی شوگر کتنی ہے۔ اگر وہ بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہو تو پھر ان سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔ اگر شوگر کنٹرول میں ہو تو پھر انہیں تھوڑی مقدار میں کھایا جا سکتا ہے۔ یہ تاثر درست نہیں کہ ذیابیطس ہونے کے بعد مریض کو سب کچھ منع ہو جاتا ہے۔ پھلوں کی بات کریں تو انہیں آڑو، امرود، چیری، جامن اور سٹرابیری وغیرہ کھانے چاہئیں۔ یہ لوگ چکن اور مچھلی کھا سکتے ہیں اور مصنوعی میٹھے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

کیا سویٹنرز نقصان دہ ہیں؟

ابھی تک کوئی ایسی قابل ذکر تحقیق سامنے نہیں آئی جو ماہرین کو اس بات پر قائل کر سکے کہ یہ نقصان دہ ہیں۔ یہ بالکل محفوظ ہیں اور پوری دنیا میں استعمال ہو رہے ہیں۔ خواتین انہیں دوران حمل ذیابیطس میں بھی استعمال کر سکتی ہیں۔ حمل میں شوگر کنٹرول کرنا ضروری ہے ورنہ بچے اور ماں، دونوں کو پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں۔

یہ تاثر درست نہیں کہ ذیابیطس ہونے کے بعد مریض کو سب کچھ منع ہو جاتا ہے۔ پھلوں کی بات کریں تو انہیں آڑو، امرود اور سٹرابیری وغیرہ کھانے چاہئیں

ایک خیال یہ ہے کہ احتیاط اور واک کریں تو پھر دوا کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیا یہ درست ہے؟

شوگر محض بارڈرلائن پر ہے تو شاید مصنوعی میٹھوں اور واک وغیرہ سے کام چل جائے اور دواؤں کی ضرورت نہ پڑے۔ تاہم میرا تجربہ یہ ہے کہ تقریباً 90 فیصد لوگوں کو دواؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔

اسی طرح کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ ذیابیطس ہونے کے بعد پہلے 10 سال واک اور احتیاطوں سے گزارے جا سکتے ہیں۔ اس کے بعد اگلے 10 سال دواؤں اور اس سے اگلے 10 سال انسولین کے ساتھ گزارے جا سکتے ہیں۔ یہ تصور غلط ہے۔ ہمارے پاس ایسے مریض بھی آتے ہیں جن کی شوگر تشخیص کے وقت ہی 500 تک پہنچی ہوتی ہے۔ انہیں دوائوں کے بغیر کیسے چھوڑا جا سکتا ہے۔

کیا یہ درست ہے کہ ذیابیطس میٹھا مرض ہے اور کڑوی چیزیں کھانے سے ٹھیک ہو جاتا ہے؟

کڑواہٹ سے تو اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ اس میں کچھ ایسے اجزاء ہوں جو گلوکوز کو کنٹرول کر سکتے ہوں۔ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اہم ہے کہ کریلوں یا ان کے پانی کو کتنی مقدار میں اور کب استعمال کیا جائے۔ اس پر کوئی حتمی راہنمائی موجود نہیں جبکہ ادویات کی متعین گائیڈلائنز موجو دہیں۔

کیا یہ درست ہے کہ ایلوپیتھی میں شوگر کا علاج نہیں مگر ہومیوپیتھی میں اسے جڑ سے ختم کیا جا سکتا ہے؟

ایلو پیتھی کی دوا کے بارے میں ہمیں 100 فی صد علم ہوتا ہے کہ اس کا فارمولا کیا ہے۔ اسی طرح اس میں استعمال ہونے والے اجزاء کون سے ہیں، کیسے عمل کرتے ہیں اور ان کے مضر ضمنی اثرات کیا ہیں۔ جب دوا تیار ہو جاتی ہے تو پہلے جانوروں پر اس کا تجربہ کیا جاتا ہے، اس کے بعد انسانوں پر آزمایا جاتا ہے۔ پھر ہزاروں نہیں، لاکھوں لوگوں پر اس کے اثرات کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔

ادویہ ساز کمپنیاں اس پر اربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں۔ اس کے برعکس حکمت کی دواؤں کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا کہ ان میں کیا ہے اور وہ کیسے عمل کرتی ہیں۔ ایسے شواہد بھی سامنے آئے ہیں جن کے مطابق ان کی بعض پڑیوں یا کیپسولوں میں ایلوپیتھی کی ادویات شامل ہوتی ہیں۔ ایسے میں میرا مشورہ ہے کہ ادھر ادھر وقت ضائع کرنے کے بجائے جدید سائنس پر اعتماد کریں اور باقاعدہ علاج کروائیں۔

Vinkmag ad

Read Previous

ڈینگی سے ملتے جلتے اوروپوش وائرس سے دنیا کی پہلی ہلاکت

Read Next

غزہ میں مردہ ماں کے ہاں زندہ بچے کی پیدائش

Leave a Reply

Most Popular