Vinkmag ad

طبی تجربات میں جانوروں کا استعمال

’’ ایک پہاڑ اور گلہری‘‘ کے عنوان سے بچوں کے لئے لکھی گئی علامہ اقبال کی مشہور نظم اصل میں ان دونوں کے مابین ایک مکالمہ ہے جس میں ایک پہاڑ گلہری کو حقیراور چھوٹی سی مخلوق قرار دیتا ہے جس پر جواباً وہ اپنی خوبیاں بیان کرتی ہے ۔آخر میں بات اس تان پر آ کر ٹوٹتی ہے کہ اس کارخانہ قدرت میں کوئی چیز نکمی اوربیکار پیدا نہیں کی گئی ۔یوں مینڈک، بندر اور چوہوں سمیت سبھی جانور اپنے اندر کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور رکھتے ہیں‘ خواہ ہم اس سے آگاہ ہوں یا نہ ہوں ۔ بنی نوع انسان نے میڈیسن کے میدان میں انہیں مختلف تجربات کے لئے استعمال کیا جس کے نتیجے میں بیش بہا معلومات حاصل ہوئیں اور نتیجتاً ہم بہت سی بڑی بڑی بیماریوں کو سمجھنے اور ان کا علاج کرنے کے قابل ہو گئے ۔ انسانی کاوشیں اپنی جگہ اہم لیکن سائنس کی اس محیرالعقول ترقی میں ان معصوم جانوروںکی قربانیوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ۔
زندہ جانوروںکے طبی تحقیق میں استعمال کے قدیم ترین شواہد دوسری اور چوتھی صدی قبل مسیح کے یونان میں ملتے ہیں۔ ارسطو ان ابتدائی مفکرین اور سائنسدانوں میں سے ایک تھے جنہوں نے ان پر تجربات کی بنیاد ڈالی۔ دوسری صدی عیسوی کے روم میںحکیم جالینوس(Gelen) کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے طبی مقاصد کے لئے خنزیروں اور بکریوں کا استعمال کیا ۔انہیں زندہ جانوروں پر تجربات کے علم کا بانی خیال کیا جاتا ہے ۔ دورجدید میں نظام دوران خون کی دریافت کو اہم سنگ میل قرار دیاجا سکتا ہے ۔1600ء میں برطانوی فزیشن ولیم ہاروے(William Harvey) نے ممالیہ جانوروں میں خون کی گردش کے نظام کی وضاحت کی اور ظاہر ہے کہ اس کے تجربات میںبہت سے جانور کام آئے۔

انسانی جان بچانے کے عمل میں مصنوعی تنفس کو نمایاں مقام حاصل ہے ۔ اس سفر کا نقطہ آغاز 1790ء کے تجربات ہیں جن میں فرانسیسی کیمیادان اینٹونی لیوزئیر (AntoineLavoisier) نے یہ ثابت کیا کہ سانس لینے کا عمل جلنے کے عمل سے مشابہت رکھتا ہے ۔اس مقصد کے لئے اس نے کیلوری میٹر میں گِنی پگ (guinea pig) کو استعمال کیا۔ یہ ایک سفید‘ سیاہ یا بھورے رنگ والا امریکہ نسل کا چوہا ہے جو اس کے علاوہ بھی بہت سے تجربات میںاستعمال ہوا۔دوسری طرف کیلوری میٹر ایک ایسا آلہ ہے جو کسی جسم میں حرارت کا انجذاب ماپنے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔اسی طرح ایک وقت تھا جب زمانہ خون کے دبائو والے پہلو یعنی بلڈپریشر سے نا آشنا تھا ۔ اس کی دریافت کا سہرابرطانوی مبلغ سٹیفن ہیلز(Stephen Hales) کے سر بندھتا ہے جنہوں نے 1727ء میں ایک گھوڑے پر تجربات کے نتیجے میں اسے دریافت کیا۔ اس کی بنیاد پر جو پیش رفتیں ہوئیں‘ ان کی بدولت بلامبالغہ لاکھوں انسانوں کی جان بچانا ممکن ہوا ۔
زمانہ قدیم میں خیال کیا جاتا تھا کہ اکثر بیماریاں ہوا سے لگتی ہیں۔ 19ویں صدی میں لوئی پاسچرنے جراثیمی نظریہ پیش کر کے تشخیص کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ اس کے ابتدائی تجربات میں ایک زندہ بھیڑ کے جسم میں اینتھریکس (anthrax)کے جراثیم داخل کئے گئے تھے ۔ 1890ء میں خناق(diphtheria) کا زہر دریافت ہوا جس کی تصدیق گنی پگ پر تجربات کر کے کی گئی ۔ یہ گلے میں سوزش پیدا کرنے والا ایک وبائی مرض ہے جس کے دوران حلق میں ایک جھلی بن جاتی ہے ۔ اس دریافت کے 15برس بعد اس سائنسدان کے تیار کردہ آمیزے نے انسانیت کو اس مرض سے نجات دلانے میںاہم کردار ادا کیا۔ ذیابیطس ایک جان لیو امرض ہے ۔ 1922ء میں پہلی دفعہ کتوں کے جسم سے انسولین الگ کی گئی جس سے ذیا بیطس کے مرض کے علاج میں انقلابی تبدیلیاں آئیں۔

بھورے رنگ کے ہندوستانی بندروں پر 1940ء کی دھائی میں کئے گئے تجربات کے نتیجے میں پولیو وائرس کی تین اقسام دریافت ہوئیںجو ہزاروں افراد کو ہر سال متاثر کر رہی تھیں۔ 1963ء میں اس کی ویکسین سامنے آئی جس نے اگلے دو برسوں میں امریکہ سے پولیو کا تقریباً خاتمہ کر کے رکھ دیا۔ ہر بندر سے ویکسین کی 65خوراکیں حاصل ہوتیں اور یوں ایک لاکھ بندروں کو اس ویکسین کے لئے ہلاک کیا گیا۔1940ء ہی کی دھائی میں گنی پگ پرلیتھیم سالٹ ٹیسٹ کیا گیا جس سے معلوم ہو اکہ اس میں مانع تشنج خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ڈپریشن کے علاج میں بھی اس سے بڑی تبدیلیاں آئیں۔ 1943ء میں واکس مین لیبارٹری نے سٹرپٹومائسین(streptomycin) دریافت کی ۔ اینٹی بائیوٹکس کی دریافت پر واکس مین کو 1952میں نوبل انعام ملا۔1960میں ڈیوڈ ہیوبل (David Hubel)اور ٹورسٹن وائزل(Torsten Wiesel) نے بیلوں اور بندروں کی بصری صلاحیتوں پر تجربات کئے اور نوبل انعام جیتا۔1970ء کی دھائی میں جذام کے خلاف اینٹی بایئوٹک علاج اور ویکسین بھی آرمیڈیلو(Armadillo)کی مدد سے ہی ممکن ہو پائی ۔آرمیڈیلو ایک ممالیہ جانور ہے جو شمالی اور جنوبی امریکہ کے گرم خطوں میں پایاجاتا ہے اور اس کی کھال سخت اور استخوانی خول سے ڈھکی ہوتی ہے ۔ انسانی تاریخ میں ممالیہ جانوروں کے اندر جینیاتی تبدیلیوں میںکامیابی بھی چوہوں کے اوپر تجربات سے ہی ممکن ہو پائی ۔ 1960ء میں البرٹ سٹار(Albert Starr)نے انسانوں میںدل کے والو بدلنے سے متعلق سرجری متعارف کروائی جس کے لئے متعدد کتوں پر تجربات کئے گئے ۔ سٹار اور کارپینٹر کے ہاتھوں سوروں کے دلوں کے والو زسے ہر سال تین لاکھ افراد مستفید ہوتے ہیں۔1996ء میں پہلی دفعہ کلوننگ کے ذریعے ڈولی نامی بھیڑ تخلیق کی گئی ۔
جانوروں کو انسانی مفاد کی بھینٹ چڑھانے کے خلاف مختلف آوازیں بھی اٹھیں جن میں میں نمایاں تر آواز میری فرینکوزی(Marie Françoise) کی تھی۔ جانوروں پر تجربات کا بادشاہ سمجھے جانے والے کلاڈبرناڈ(Claude Bernard) کی بیوی میری نے فرانس میں 1883ء میں اس موضوع پر سوسائٹی بھی قائم کی لیکن یہ تحریک پالیسی سازوں کی زیادہ توجہ حاصل نہ کر پائی ۔ 1937ء میںایک دوا’’ Elixir Sulfanilamide‘‘سے جب 100سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تو 1960ء میں امریکی کانگریس نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت کسی بھی دوا کو مارکیٹ میں لانے سے پہلے اس کے جانوروں پر ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا گیا۔
آج بھی جانوروں پر تجربات کا سلسلہ جاری ہے اور یہ سلسلہ شاید روئے زمین پر آخری انسان کی موجودگی تک جاری رہے گا۔

Vinkmag ad

Read Previous

خون کا سرطان

Read Next

بند جگہوں کا خوف

Leave a Reply

Most Popular