ڈیپ برین سٹیمولیشن (Deep Brain Stimulation) ایک میڈیکل پروسیجر ہے جس میں دماغ کے مخصوص حصوں پر الیکٹروڈز لگائے جاتے ہیں۔ یہ الیکٹروڈ الیکٹرک سگنلز خارج کرتے ہیں جو دماغی سرگرمی پر اثر انداز ہو کر بعض امراض میں بہتری لاتے ہیں۔
ڈی بی ایس (ڈیپ برین سٹیمولیشن) میں الیکٹرک سٹیمولیشن کی شدت ایک آلے سے کنٹرول کی جاتی ہے۔ یہ دل کے پیس میکر کی طرح سینے کی اوپری جلد کے نیچے نصب ہوتا ہے۔ ایک باریک تار، جو جلد کے نیچے سے گزرتی ہے، اس آلے کو الیکٹروڈز سے جوڑتی ہے۔
بیماریوں کا علاج
یہ پروسیجر عام طور پر درج ذیل بیماریوں کے علاج میں استعمال ہوتا ہے:
٭ پارکنسن کی بیماری
٭ ایسنشل ٹریمر (Essential Tremor)، ایک نیورولوجیکل حالت جس میں جسم کے مخصوص حصے، خاص طور پر ہاتھ، بازو یا سر غیر ارادی طور پر لرزنے لگتے ہیں
٭ ڈسٹونیا، ایک نیورولوجیکل حالت جس میں پٹھے غیر ارادی طو پر سکڑتے ہیں۔ جیسے میگ سنڈروم میں چہرے اور گردن کے پٹھے متاثر ہوتے ہیں
٭ مرگی
٭ ٹوریٹ سنڈروم، ایک نیورولوجیکل حالت جس میں فرد غیر ارادی آوازیں یا حرکات دہراتا ہے
٭ او سی ڈی (Obsessive-Compulsive Disorder)
درج ذیل بیماریوں کے ممکنہ علاج کے لیے ڈیپ برین سٹیمولیشن کے استعمال پر تحقیق جاری ہے:
٭ کوریا (مثلاً ہنٹنگٹن کی بیماری)
٭ طویل مدتی درد
٭ کلسٹر سر درد
٭ ڈیمنشیا
٭ ڈپریشن
نشے کی عادت
موٹاپا
کیوں کیا جاتا ہے؟
ڈیپ برین سٹیمولیشن حرکت سے متعلق امراض کے علاج کے لیے مستند طریقہ ہے۔ یہ نفسیاتی کیفیات، مثلاً او سی ڈی، کے علاج میں بھی مؤثر سمجھا جاتا ہے۔ ایف ڈی اے نے اسے ان اقسام کی مرگی کے علاج کے لیے بھی منظور کیا ہے جو دواؤں سے قابو میں نہیں آتیں۔
خطرات
ڈیپ برین سٹیمولیشن نسبتاً محفوظ سمجھا جاتا ہے، تاہم کچھ خطرات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ الیکٹرک سٹیمولیشن بعض اوقات ضمنی اثرات بھی پیدا کر سکتی ہے۔
سرجری کے ممکنہ خطرات
ڈی بی ایس کے دوران کھوپڑی میں چھوٹے سوراخ کر کے الیکٹروڈز دماغ میں لگائے جاتے ہیں اور سینے میں پیس میکر نما آلہ نصب کیا جاتا ہے۔ اس کی ممکنہ پیچیدگیاں درج ذیل ہیں:
٭ الیکٹروڈ کی غلط جگہ پر تنصیب
٭ دماغ میں خون بہنا
٭ سٹروک
٭ انفیکشن
٭ سانس لینے میں دشواری
٭ متلی
٭ دل کے مسائل
٭ دورہ
سرجری کے بعد کے ممکنہ اثرات
٭ دورہ
٭ انفیکشن
٭ سر درد
٭ الجھن یا توجہ میں کمی
٭ فالج
٭ آلے کی خرابی جیسے تار کا خراب ہونا
٭ تنصیب کے مقام پر عارضی درد یا سوجن
سرجری کے چند ہفتے بعد آلہ فعال کیا جاتا ہے اور مناسب سیٹنگز کی جاتی ہیں۔ بعض سیٹنگز وقتی ضمنی اثرات پیدا کر سکتی ہیں جو بعد میں درست ہو جاتی ہیں۔
کبھی کبھار ڈی بی ایس تھراپی سے تیراکی سے متعلق حرکات متاثر ہو سکتی ہیں۔ اس لیے تیراکی سے قبل معالج سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔
سٹیمولیشن کے ممکنہ ضمنی اثرات
٭ سن ہونا یا جھنجھناہٹ
٭ چہرے یا بازو کے پٹھوں کی سختی
٭ بولنے میں دشواری
٭ توازن برقرار رکھنے میں مشکل
٭ چکر آنا
٭ نظر کے مسائل، جیسے دوہری بصارت
٭ موڈ میں تبدیلی، جیسے غصہ، جنون یا ڈپریشن
تیاری کا عمل
سب سے پہلے اس کے فوائد اور خطرات پر غور کریں
ڈیپ برین سٹیمولیشن ایک سنگین اور ممکنہ طور پر خطرناک پروسیجر ہے۔ اگر آپ اس کے اہل ہیں تو اپنے معالج کے ساتھ اس کے فوائد اور خطرات کا محتاط جائزہ لیں۔
سرجری سے پہلے تیاری
سرجری سے پہلے طبی ٹیسٹ کیے جاتے ہیں تاکہ یہ طے ہو سکے کہ ڈی بی ایس آپ کے لیے محفوظ اور موزوں ہے یا نہیں۔ دماغی امیجنگ، جیسے ایم آر آئی، کے ذریعے دماغ کا نقشہ تیار کیا جاتا ہے تاکہ الیکٹروڈز کے لیے درست مقام متعین کیا جا سکے۔
پروسیجر کے دوران
ڈی بی ایس کی سرجری عام طور پر دو مراحل میں کی جاتی ہے:
دماغ کی سرجری
مریض کے سر پر سٹیریو ٹیکٹک ہیڈ فریم لگایا جاتا ہے تاکہ سر ایک جگہ رہے۔ ایم آر آئی یا سی ٹی سکین کے ذریعے دماغ کا نقشہ تیار کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر صورتوں میں مریض جاگ رہا ہوتا ہے تاکہ برقی سٹیمولیشن کے اثرات فوری طور پر جانچے جا سکیں۔ لوکل انستھیزیا کے ذریعے کھوپڑی سن کی جاتی ہے۔ کچھ مریضوں میں جنرل اینستھیزیا استعمال کیا جاتا ہے۔ سرجن باریک تار نما لیڈ نصب کرتا ہے، جس کے سرے پر چھوٹے الیکٹروڈز ہوتے ہیں۔ نیورولوجسٹ اور سرجن دماغ کی سرگرمی پر نظر رکھتے ہیں تاکہ الیکٹروڈز درست جگہ پر لگیں۔
سینے کی سرجری
سرجن سینے کی جلد کے نیچے کالر بون کے قریب پلس جنریٹر نصب کرتا ہے، جس میں بیٹری موجود ہوتی ہے۔ دماغ سے آنے والی تاریں جلد کے نیچے سے گزرتی ہوئی اس آلے سے جوڑی جاتی ہیں۔ سرجری کے چند ہفتے بعد آلے کی پروگرامنگ ہسپتال میں معالج کی نگرانی میں کی جاتی ہے۔ پروگرامنگ کے بعد آلہ مسلسل برقی سگنلز دماغ کو بھیجتا ہے۔ مریض ایک ریموٹ کے ذریعے آلہ آن یا آف کر سکتے ہیں۔
پروسیجر کے بعد
سینے میں نصب پلس جنریٹر فعال کیا جاتا ہے اور ریموٹ کے ذریعے پروگرام کیا جاتا ہے۔ سٹیمولیشن کی مقدار آپ کی حالت کے مطابق ایڈجسٹ کی جاتی ہے۔ بہترین سیٹنگ تلاش کرنے میں 4 سے 6 ماہ لگ سکتے ہیں۔ بعض مریضوں کو دن رات سٹیمولیشن جاری رکھنے یا رات میں آلہ بند کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔
بیٹری کی عمر استعمال اور سیٹنگز پر منحصر ہوتی ہے۔ بیٹری ختم ہونے پر سرجن آلہ تبدیل کر دیتا ہے۔ اس کےلیے ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
نتائج
ڈیپ برین سٹیمولیشن بیماری کا مکمل علاج نہیں کرتی، لیکن علامات میں واضح کمی لا سکتی ہے۔ زیادہ تر مریضوں میں علامات اتنی کم ہو جاتی ہیں کہ روزمرہ زندگی بہتر محسوس ہوتی ہے۔ کچھ حالات میں دواؤں کا استعمال اب بھی ضروری رہتا ہے۔ یہ طریقہ ہر مریض کے لیے یکساں مؤثر نہیں ہوتا اور اس کے نتائج مختلف عوامل پر منحصر ہوتے ہیں۔ اس لیے سرجری سے پہلے معالج سے بات کریں تاکہ آپ سمجھ سکیں کہ اس سے کس حد تک بہتری ممکن ہے۔
نوٹ: یہ مضمون قارئین کی معلومات کے لیے شائع کیا گیا ہے۔ صحت سے متعلق امور میں اپنے معالج کے مشورے پر عمل کریں۔