پاکستان میں ایچ پی وی ویکسی نیشن مہم شدید مشکلات کی شکار ہے۔ مہم کا ہدف 9 سے 14 سال کی لاکھوں لڑکیوں کو سرویکل کینسر سے بچانا ہے۔ تاہم حکام کے مطابق اب تک صرف 20 فیصد سے کم لڑکیوں کو ویکسین لگائی جا سکی ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں اس کی شرح محض 16 فیصد رہی۔ عوامی بداعتمادی اور ویکسین کے حوالے سے غلط فہمیاں مہم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ماہرین کے مطابق دیگر وجوہات میں کمزور کمیونیکیشن، اور فنڈز کا غیر مؤثر استعمال نمایاں ہیں۔
پروفیسر شاہانہ عروج ایک معروف ماہر حیاتیات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سکولوں کو محض احکامات بھیج دینا کافی نہیں۔ اس سے قبل کم از کم ایک ماہ کی آگاہی مہم ضروری تھی۔ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں ماہر متعدی امراض پروفیسر فیصل محمود کا کہنا ہے کہ اینٹی ویکسین تحریکیں ایک عالمی مسئلہ ہیں۔ تاہم پاکستان میں عوامی بداعتمادی کا اس میں اہم کردار ہے۔ وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے اپنی بیٹی کی ویکسینیشن کے ذریعے اعتماد سازی کی کوشش کی۔ اسے سراہا گیا تو گیا، لیکن یہ کاوش کچھ زیادہ اثر ڈالنے میں ناکام رہی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کمیونٹی رہنماؤں، سماجی تنظیموں اور ماہرین صحت کو اس مہم میں شامل کرے۔ اس سے اعتماد قائم ہوگا اور لاکھوں لڑکیاں قابلِ بچاؤ کینسر سے محفوظ رہ سکیں گی۔