ماہرین نے کہا کہ خاندان میں شادیاں موروثی بیماریوں میں خطرناک حد تک اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ یہ بات سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن ( ایس آئی یو ٹی) میں منعقدہ انٹرنیشنل سمپوزیم میں کہی گئی۔ اس کا اہتمام بچوں میں امراض گردہ کے شعبے نے کیا۔ اس میں ماہرین نے شواہد پیش کیے کہ کزن میرجز تھیلیسیمیا سمیت متعدد موروثی امراض کا بنیادی سبب ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں 60 فیصد شادیاں قریبی رشتہ داروں میں ہوتی ہیں۔ ایک مقرر نے کہا، ’’یہ ایک خاموش جینیاتی بم ہے۔ اس کی وجہ سے ہمیں ایسے بچے زیادہ مل رہے ہیں جنہیں موروثی بیماریاں لاحق ہیں۔ ان میں سے اکثر بیماریوں کا علاج ممکن ہی نہیں۔‘‘
ڈاکٹر سلمان کرمانی آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں بچوں کے ماہر امراض غدود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کو عمر بھر ہر مہینے خون لگوانا پڑتا ہے۔ بعد میں ان کے اعضا بھی متاثر ہونے لگتے ہیں۔ یہ ایک قابلِ بچاؤ موروثی مرض ہے۔ اس سے بچنے کی لیے شادی سے قبل تھیلیسیمیا ٹیسٹ ضروری ہے۔ ایس آئی یو ٹی کی ڈاکٹر صائمہ ہاشمی نے بتایا کہ بچوں میں گردے کی موروثی بیماریاں بھی بڑھ رہی ہیں۔
ماہرین نے کہا کہ اگر خاندان میں شادیاں تسلسل سے ہو رہی ہوں تو یہ آنے والی نسل کے لیے اچھا شگون نہیں۔ جن خاندانوں میں موروثی امراض کا خطرہ زیادہ ہو، وہاں جینیاتی کونسلنگ لازماً ہونی چاہیے۔