الزائمر ایک اعصابی بیماری ہے جس کا نام ایک جرمن ڈاکٹر آلوئس الزائمر (Alois Alzheimer) کے نام پر رکھا گیا۔ 1906 میں انہوں نے ایک مریضہ میں یادداشت میں کمی، الجھن اور رویے میں تبدیلی جیسے مسائل کا مطالعہ کیا، اور ان کے دماغ میں خاص قسم کی تبدیلیاں دریافت کیں۔ اسی دریافت کی بنیاد پر اس بیماری کو ان کے نام سے منسوب کر کے الزائمر کی بیماری (Alzheimer’s disease) کہا گیا۔ یہ مرض ڈیمنشیا کی سب سے عام وجہ ہے۔
الزائمر کی بیماری بنیادی طور پر یہ ایک حیاتیاتی عمل ہے جو دماغ میں ایمیلوئیڈ پلاکس اور نیورو فائبرلری ٹینگلز جمع ہونے سے شروع ہوتا ہے۔ ایمیلوئیڈ پلاکس ایک پروٹین (بیٹا-ایمیلوئیڈ) کے ٹکڑے ہیں جو دماغی خلیوں کے درمیان جمع ہو جاتے ہیں۔ اس سے خلیوں کے درمیان رابطہ متاثر ہوتا ہے اور وہ مرنے لگتے ہیں۔ نیورو فائبرلری ٹینگلزدماغی خلیوں کے اندر موجود ٹاؤ (tau) نامی پروٹین کے الجھنے سے بنتے ہیں۔ یہ الجھاؤ دماغی خلیے کے اندرونی نظام کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے خلیہ اپنا کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور، بالاۤخر مر جاتا ہے۔
امریکہ میں 65 سال اور اس سے زیادہ عمر کے تقریباً 6.9 ملین افراد الزائمر کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ ان میں سے 70 فیصد سے زیادہ کی عمریں 75 سال یا اس سے زیادہ ہیں۔ دنیا بھر میں ڈیمنشیا کے 55 ملین سے زیادہ مریضوں میں سے تقریباً 60 سے 70 فیصد افراد میں الزائمر کی بیماری کا شبہ پایا جاتا ہے۔
علامات

الزائمر کی اہم علامت یادداشت کی کمزوری ہے۔ بیماری کے ابتدائی مرحلے میں لوگ حال کی بات چیت یا واقعات کو یاد رکھنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ یادداشت مزید خراب ہوتی ہے اور دیگر علامات ظاہر ہوتی ہیں۔
شروع میں، متاثرہ فرد چیزوں کو یاد رکھنے اور سوچنے میں دشواری محسوس کرتا ہے۔ یہ بھی اس سطح پر نہیں ہوتا کہ لوگ اسے نوٹ کریں۔ علامات بڑھنے پر فیملی یا دوست احباب ان مسائل کو زیادہ واضح طور پر محسوس کرنے لگتے ہیں۔
الزائمر کی وجہ سے دماغ میں ہونے والی تبدیلیاں ان علامات کا باعث بنتی ہیں جو وقت کے ساتھ شدید ہوتی جاتی ہیں۔
یادداشت کی کمی
ہر شخص کو کبھی کبھار یادداشت کی کمی کا سامنا ہوتا ہے، لیکن الزائمر سے متعلق یادداشت کی کمی مستقل ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ یہ کام اور گھریلو ذمہ داریوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ الزائمر کے مرض کی علامات یہ ہیں:
٭ بار بار ایک ہی بات دہرانا یا ایک ہی سوال کرنا
٭ بات چیت، ملاقاتیں یا واقعات بھول جانا
٭ چیزوں کو غلط جگہ رکھ دینا
٭ ایسے مقامات پر گم ہو جانا جن سے پہلے اچھی طرح واقف تھے
٭ فیملی ممبز اور روزمرہ اشیاء کے نام بھول جانا
٭ صحیح الفاظ تلاش کرنے، خیالات کا اظہار کرنے یا بات چیت کرنے میں مشکل محسوس کرنا
سوچ اور ارتکاز متاثر
الزائمر سے سوچنے اور توجہ مرکوز کرنے میں دشواری پیدا ہوتی ہے۔ اعداد و شمار جیسے ایبسٹریکٹ تصورات میں ایسا زیادہ ہوتا ہے۔ ایک وقت میں ایک سے زیادہ کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مالی معاملات، چیک بک مینج کرنا اور وقت پر بل ادا کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ مریض اعداد کو پہچاننے کے بھی قابل نہیں رہتا۔
قوت فیصلہ میں کمی
الزائمر میں سمجھداری سے رائے قام کرنا اور فیصلے کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مریض سماجی معاملات میں غلط فیصلے کرنےلگتا ہے یا موسم کے لحاظ سے نامناسب لباس پہن سکتا ہے۔ اس کے لیے روزمرہ کے مسائل حل کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ مثلاً الزائمر کی بیماری میں مبتلا مریضہ کو سمجھ نہیں آتی کہ ہانڈی جل رہی ہو تو کیا کرے۔ گاڑی چلاتے ہوئے بروقت فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
مرحلہ وار کاموں میں دقت
انہیں ان کاموں میں خاص طور پر مشکل ہو سکتی ہے جنہیں مرحلہ وار انجام دینا ہو۔ انہیں اس میں بھی دقت ہو سکتی ہے کہ آج کیا اور کیسے پکایا جائے۔ بیماری بڑھنے پر مریض بنیادی نوعیت کے کام جیسے کپڑے پہننے یا نہانے کا طریقہ بھی بھول جاتا ہے۔
شخصیت اور رویے میں تبدیلی
الزائمر سے دماغ میں ہونے والی تبدیلیاں موڈ اور رویے کو بھی متاثر کر سکتی ہیں۔ اس سے فرد کی شخصیت کچھ بدلی بدلی سی نظر آتی ہے۔ اس کی دیگر علامات یہ ہیں:
٭ ڈپریشن
٭ سرگرمیوں میں دلچسپی ختم ہونا
٭ سماجی طور پر الگ تھلگ ہو جانا
٭ موڈ میں اتار چڑھاؤ
٭ دوسروں پر اعتماد نہ کرنا
٭ غصے ہونا یا جارحانہ رویہ اختیار کرنا
٭ نیند کے معمولات میں تبدیلی آنا
٭ بے مقصد ادھر ادھر پھرنا
٭ غیر مناسب یا غیر روایتی رویہ اپنانا
٭ وہم میں مبتلا ہونا، مثلاً یہ یقین کرنا کہ کوئی چیز چوری ہو گئی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہوا ہوتا
محفوظ شدہ صلاحیتیں
یادداشت اور بہت سی مہارتیں متاثر ہونے کے باوجود، الزائمر کے مریضوں کی کچھ صلاحیتیں برقرار رہتی ہیں۔ ان میں کتاب پڑھنا یا سننا، کہانیاں سنانا، یادیں شئیر کرنا، گانا، موسیقی سننا، ڈانس کرنا، تصویریں بنانا یا دستکاری کرنا شامل ہیں۔ ان صلاحیتوں کے تادیر قائم رہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ دماغ کے ان حصوں سے تعلق رکھتی ہیں جو بیماری کے آخری مرحلے میں متاثر ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر سے کب رجوع کریں
اگر آپ اپنی یادداشت یا سوچنے کی صلاحیت کے بارے میں فکر مند ہوں تو اپنے معالج سے بات کریں۔ اگر کسی قریبی عزیز یا دوست میں سوچنے کی صلاحیت سے متعلق مسائل محسوس ہوں تو ان کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جانے کے بارے میں بات کریں۔ یادداشت کے عام مسائل میں سائیکالوجسٹ کے پاس جایا جاتا ہے۔ تاہم الزائمر کا خدشہ ہو تو دماغی و اعصابی امراض کے ماہر ( نیورولوجسٹ) کے پاس جانا چاہیے۔
وجوہات
یہ واضح نہیں کہ الزائمر کے اسباب کیا ہیں۔ تاہم بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ دماغی پروٹینز معمول کے مطابق کام نہیں کرتیں۔ اس سے دماغی خلیوں (نیورونز) کے کام میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ اس سے سلسلہ وار خرابی شروع ہو جاتی ہے۔ نیورونز کو نقصان پہنچتا ہے، وہ آپس میں رابطہ کھو دیتے ہیں اور بالآخر ختم ہو جاتے ہیں۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ زیادہ تر افراد میں الزائمر کی بیماری جینیاتی، طرزِ زندگی اور ماحولیاتی عوامل کے امتزاج سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ عوامل وقت کے ساتھ ساتھ دماغ کو متاثر کرتے ہیں۔ ایک فیصد سے کم افراد میں مخصوص جینیاتی تبدیلیاں بیماری کا یقینی سبب بنتی ہیں۔ ایسے افراد میں بیماری عموماً درمیانی عمر میں شروع ہوتی ہے۔
خطرے کے عوامل

الزائمر کی بیماری کے خطرے کے عوامل میں عمر، فیملی ہسٹری، طرزِ زندگی اور کچھ دیگر عوامل شامل ہیں۔
بڑھتی عمر
اس کا سب سے بڑا معلوم خطرہ عمر ہے۔ الزائمر کی بیماری بڑھاپے کا لازمی حصہ نہیں ہے، لیکن عمر بڑھنے سے اس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق ہر سال 65 سے 74 برس کے ہر 1000 افراد میں سے 4 افراد کو الزائمر ہوتا ہے۔ 75 سے 84 سال کے گروپ میں یہ تعداد 32 ہے، اور 85 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد میں یہ تعداد 76 فی 1000 ہے۔
فیملی ہسٹری اور جینیات
اگر کسی قریبی خونی رشتہ دار، جیسے والدین یا بہن بھائی کو الزائمر ہو، تو اس مرض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ جینیاتی طور پر الزائمر کی بیماری سے جڑا ایک اہم عنصر اپولیپو پروٹین ای (APOE) نامی جین کی ایک مخصوص قسم ہے۔ اس کی ”ای4” قسم الزائمر کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔ اندازاً 25 سے 30 فیصد افراد میں یہ جین پایا جاتا ہے، لیکن ان سب کو الزائمر نہیں ہوتا۔ البتہ اگر کسی فرد میں اس جین کی دو کاپیاں موجود ہوں، تو خطرہ ایک کاپی والوں کی نسبت زیادہ ہو جاتا ہے۔
سائنس دان اب تک تین ایسے نایاب جینز کی شناخت کر چکے ہیں، جن کی موجودگی الزائمر ہونے کو تقریباً یقینی بنا دیتی ہے۔ تاہم، ایسے کیسز الزائمر کے تمام مریضوں کا ایک فیصد سے بھی کم ہوتے ہیں۔
ڈاؤن سنڈروم
ڈاؤن سنڈروم کے ساتھ پیدا ہونے والے افراد میں الزائمر کی بیماری کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی ممکنہ وجہ کروموسوم 21 کی تین کاپیوں کا ہونا ہے۔ یہی کروموسوم ایک ایسی پروٹین کی تیاری میں کردار ادا کرتا ہے جو بیٹا-ایمائیلائڈ بنانے کا سبب بنتا ہے۔ بیٹا-ایمائیلائڈ کے ذرات دماغ میں پلاک بنا سکتے ہیں۔ ایسے افراد میں علامات عام لوگوں کی نسبت 10 سے 20 سال پہلے ظاہر ہو سکتی ہیں۔
جنس
بحیثیت مجموعی الزائمر خواتین میں زیادہ پایا جاتا ہے۔
ہلکی ذینی کمزوری
ایم سی آئی (Mild Cognitive Impairment) یعنی ہلکی ذہنی کمزوری میں عمر کے مطابق توقع سے زیادہ کمی آتی ہے۔ اس کے باوجود یہ کمی روزمرہ کے کاموں میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ ایسے افراد میں ڈیمنشیا کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، خاص طور پر جب یادداشت زیادہ متاثر ہو۔ ایم سی آئی کی تشخیص کے بعد صحت مند طرزِ زندگی اپنانے، حکمتِ عملی تیار کرنے اور علامات کی نگرانی کے لیے اپنے معالج کے مشورے پر عمل کریں۔
دماغی چوٹ
کچھ بڑی سٹڈیز میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 50 سال یا اس سے زائد عمر کے ایسے افراد میں ڈیمنشیا اور الزائمر کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جنہیں ٹرامیٹک برین انجری (ٹی بی آئی) ہوئی ہو۔ یہ خطرہ شدید یا بار بار لگنے والی چوٹوں میں اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
فضائی آلودگی
جانوروں پر کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ فضائی آلودگی دماغی نظام کو تیزی سے متاثر کر سکتی ہے۔ کچھ تحقیقات میں ٹریفک اور لکڑیاں جلانے سے پیدا شدہ دھوئیں کا ڈیمنشیا سے تعلق سامنے آیا ہے۔
کثرت شراب نوشی
زیادہ مقدار میں شراب نوشی سے دماغ میں کچھ تبدیلیاں آتی ہیں۔ کئی تحقیقات اور جائزوں سے ثابت ہوا ہے کہ جلد شروع ہونے والے ڈیمنشیا کا شراب نوشی سے خاص تعلق ہے۔
نیند کے خراب معمولات
تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ خراب نیند (سونے یا نیند جاری رکھنے میں مشکل ہونا) کا تعلق الزائمر کے خطرے سے بھی ہے۔ نیند کی بیماری (سلیپ اپنیا) بھی ڈیمنشیا کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔
دل کی صحت
تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ دل کی بیماری کا خطرہ بڑھانے والے عوامل ڈیمنشیا کا خطرہ بھی بڑھا سکتے ہیں۔ یہ واضح نہیں کہ یہ عوامل دماغی تبدیلیوں کو بڑھاتے ہیں یا دماغ میں خون کی نالیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ اس کے اہم عوامل ورزش کی کمی، موٹاپا، سگریٹ نوشی یا سیکنڈ ہینڈ سموک، ہائی بلڈپریشر، ہائی کولیسٹرول، اور شوگر کنٹرول نہ کرنا ہیں۔
برے کولیسٹرول پر برا کنٹرول
درمیانی عمر، خاص طور پر 65 سال سے کم عمر افراد میں، اگر ایل ڈی ایل (برے کولیسٹرول) کی سطح زیادہ ہو تو ڈیمنشیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایل ڈی ایل کو کم کرنے والی دوائیں (جیسے سٹیٹنز) لینا، اس خطرے کو نہیں بڑھاتا۔ ان تمام عوامل کو کنٹرول کرنا ممکن ہے۔ لہٰذا طرزِ زندگی میں تبدیلی سے اس کا خطرہ کم کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً باقاعدہ ورزش اور کم چکنائی والی، پھلوں اور سبزیوں پر مشتمل خوراک الزائمر کے خطرے کو کم کرتی ہے۔
سماعت میں کمی
تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ سماعت میں کمی کا تعلق ڈیمنشیا سے بھی ہے۔ سماعت کی کمی جتنی زیادہ ہوگی، خطرہ بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ آلہ سماعت کا استعمال اس خطرے سے تحفظ دیتا ہے۔
نظر کی کمزوری
نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اگر نظر کی کمزوری کا علاج نہ کیا جائے تو یہ ذہنی صلاحیتوں میں کمی اور ڈیمنشیا کے خطرے کو بڑھا سکتی ہے۔ بعض صورتوں میں یہ تعلق کسی بنیادی بیماری مثلاً ذیابیطس کی وجہ سے ہو سکتا ہے، جو بیک وقت بینائی اور دماغی صحت دونوں پر اثر ڈالتی ہے۔ تاہم کچھ شواہد سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بینائی کی کمی ذہنی کمزوری کے خطرے کو بڑھانے والا ایک الگ فیکٹر بھی ہو سکتی ہے۔
کم ذہنی سرگرمیاں
تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ زندگی بھر ذہنی سرگرمیاں جاری رکھنا، اور سماجی میل جول الزائمر کا خطرہ کم کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ذہنی سرگرمیاں کم ہونا، اور کم تعلیم بھی الزائمر کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔
پیچیدگیاں
الزائمر کی بیماری مختلف پیچیدگیوں کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کی علامات مثلاً یادداشت کی کمی، زبان دانی کے مسائل، اور فیصلہ نہ کر پانا کئی طرح کے مسائل پیدا کر سکتی ہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ وہ یہ کام انجام نہ دے سکیں:
٭ درد کی کیفیت میں ہونے کے بارے میں کسی کو بتانا
٭ کسی اور بیماری کی علامات بیان کرنا
٭ علاج کے پلان پر عمل کرنا
٭ ادویات کے مضر اثرات بیان کرنا
آخری مرحلے کی پیچیدیاں
جب الزائمر آخری مراحل میں پہنچتا ہے تو دماغی تبدیلیاں جسمانی افعال کو متاثر کرنے لگتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں نگلنے، توازن برقرار رکھنے اور پاخانہ و پیشاب پر قابو پانے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتی ہیں۔ یہ اثرات درج ذیل مسائل پیدا کر سکتے ہیں:
٭ کھانے یا پینے کی چیز کا پھیپھڑوں میں چلے جانا
٭ نزلہ، نمونیا اور دیگر انفیکشنز
٭ گرنے کے واقعات
٭ ہڈیوں کا ٹوٹ جانا
٭ بستر کے زخم (bedsore)
٭ نامناسب غذا یا پانی کی کمی
٭ قبض یا اسہال
احتیاطی تدابیر
الزائمر کی بیماری کو مکمل طور پر روکا نہیں جا سکتا، تاہم طرزِ زندگی میں تبدیلیاں اس کے امکانات کم کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر دل کی بیماریوں کے خطرات کم کرنے والے اقدامات ڈیمینشیا کے خطرے کو بھی گھٹا سکتے ہیں۔ دل کے لیے مفید طرزِ زندگی اپنانے کے لیے یہ اقدامات کریں:
٭ باقاعدگی سے ورزش کریں
٭ تازہ پھل اور سبزیاں، صحت بخش کوکنگ آئل اور کم چکنائی والے کھانے کھائیں
٭ ہائی بلڈپریشر، ذیابیطس اور کولیسٹرول کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اپنے معالج سے مشورہ کریں۔ خاص طور پر ایل ڈی ایل (برے کولیسٹرول) کی سطح پر توجہ دیں
٭ اگر آپ سگریٹ نوشی کرتے ہیں تو اسے ترک کر دیں
غذائی تبدیلیاں
فن لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ طرزِ زندگی میں تبدیلیوں سے ان افراد میں یادداشت کی کمی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے جو ڈیمینشیا کے خطرے میں ہوں۔ متعدد سٹڈیز سے پتا چلا ہے کہ میڈیٹیرینین غذا ذہنی افعال کو بہتر بناتی اور عمر کے ساتھ ساتھ ذہنی تنزلی کو سست کرتی ہے۔ اس غذا میں پھل، سبزیاں، اناج، مچھلی، مرغی، گری دار میوے اور زیتون کا تیل شامل ہیں۔ اس میں چکنائی والی اور تلی ہوئی اشیاء کم ہوتی ہیں۔
نظر اور سماعت کی کمزوری کا علاج کرنا بھی ضروری ہے۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ نظر کی کمزوری کا علاج نہ کیا جائے تو یہ ذہنی کمزوری کا سبب بن سکتی ہے۔ سماعت کی کمی والے افراد میں بھی ڈیمینشیا کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ ہیئرنگ ایڈز استعمال کرنے والوں میں یہ خطرہ کم ہو جاتا ہے۔
دیگر تحقیقات بتاتی ہیں کہ ذہنی اور سماجی طور پر سرگرم رہنا الزائمر کی بیماری کے خطرے کو کم کرتا ہے اور دماغی صلاحیت کو محفوظ رکھتا ہے۔ اس میں سماجی تقریبات میں شرکت، مطالعہ، بورڈ گیمز، فن پارے بنانا اور دیگر مشغلے شامل ہیں۔
تشخیص
الزائمر کی تشخیص کا اہم حصہ علامات کو بیان کرنا ہے۔ مریض کے قریبی رشتہ دار یا دوستوں سے علامات اور روزمرہ زندگی پر ان کے اثرات کے بارے میں معلومات لینا مددگار ہو سکتا ہے۔ یادداشت اور سوچنے کی صلاحیتوں کے ٹیسٹ بھی بیماری کی تشخیص میں مدد دیتے ہیں۔
خون اور امیجنگ کے ٹیسٹ دیگر وجوہات کو خارج از امکان قرار دینے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ دماغ میں الزائمر کی بیماری سے متعلق پروٹین کو چیک کرتے ہیں۔ اس سے مرض کی بہتر تشخیص میں مدد ملتی ہے۔
ماضی میں الزائمر کی تشخیص صرف موت کے بعد ممکن ہوتی تھی، جب دماغ میں پلاکس اور ٹینگلز کو مائیکروسکوپ سے دیکھا جاتا تھا۔ آج ماہرین مختلف ٹیسٹوں کی مدد سے زندگی میں ہی مرض کی زیادہ درست تشخیص کر سکتے ہیں۔
یہ ٹیسٹ دماغ میں ایسے خاص نشان (بائیومارکرز) تلاش کرتے ہیں جو اس بات کی علامت ہوتے ہیں کہ دماغ میں پلاکس اور ٹینگلز موجود ہیں۔ الزائمر کی بیماری کے ساتھ ان کا گہرا تعلق ہے۔
بائیومارکرز کا پتا لگانے کے لیے خاص قسم کی ”پی ای ٹی” سکینز کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ایمیلوئیڈ اور ٹاؤ نامی پروٹین کو خون یا دماغ و ریڑھ کی ہڈی کے پانی (سیریبرو سپائنل فلوئیڈ) میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں خون سے کیے جانے والے بائیومارکر ٹیسٹ کافی حد تک قابلِ اعتماد ہو گئے ہیں۔ پہلے یہ ٹیسٹ صرف تحقیقی تجربات میں استعمال ہوتے تھے، لیکن اب انہیں دوسرے ٹیسٹوں کے ساتھ ملا کر بیماری کی تشخیص کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان سے یہ اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے کہ بیماری کس مرحلے میں ہے۔
جسمانی اور اعصابی معائنہ
ڈاکٹر جسمانی اور اعصابی معائنہ کرتا ہے جس میں ان چیزوں کا جائزہ لیا جاتا ہے:
٭ ریفلیکس
٭ پٹھوں کی سختی اور طاقت
٭ کرسی سے اٹھنے اور کمرے میں چلنے کی صلاحیت
٭ نظر اور سماعت کی حس
٭ ہم آہنگی
٭ توازن
لیبارٹری ٹیسٹ
خون کے ٹیسٹ یادداشت اور الجھن کی دیگر وجوہات کو خارج از امکان قرار دینے میں مدد دیتے ہیں، جیسے تھائی رائیڈ کے مسائل یا وٹامن کی کمی وغیرہ
خون کے جدید ٹیسٹ بیٹا-ایمیلوئیڈ اور ٹاؤ پروٹین کی مقدار کی بھی پیمائش کر سکتے ہیں۔ تاہم یہ ہر جگہ دستیاب نہیں اور بعض اوقات انشورنس انہیں کور نہیں کرتی۔
ذہنی اور اعصابی حالت کا ٹیسٹ
ڈاکٹر آپ کی یادداشت اور سوچنے کی صلاحیتوں کا جائزہ لینے کے لیے مختصر سا ٹیسٹ لے سکتا ہے۔ طویل ٹیسٹ زیادہ تفصیل فراہم کرتے ہیں اور ہم عمروں اور تعلیم والے افراد سے بہتر موازنہ ممکن بناتے ہیں۔ یہ ٹیسٹ تشخیص میں مدد دیتے ہیں اور مستقبل میں علامات پر نظر رکھنے کا بھی ذریعہ بنتے ہیں۔
دماغی امیجنگ

دماغ کی تصاویر الزائمر کے علاوہ دیگر ممکنہ وجوہات جیسے فالج، چوٹ یا ٹیومر کی شناخت میں بھی مدد دیتی ہیں۔ جدید امیجنگ ٹیسٹ الزائمر کی مخصوص تبدیلیوں جیسے پلاکس اور ٹینگلز کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ تاہم ایسا بالعموم بڑے طبی مراکز میں ہی ممکن ہے۔
دماغی ساخت کی امیجنگ میں یہ شامل ہیں:
سی ٹی سکین: یہ ایک خاص ایکسرے تکنیک ہے جو دماغ کی کراس سیکشن تصاویر بناتی ہے۔ یہ ٹیومر، فالج اور دماغی چوٹ کو خارج ازامکان کرنے میں مدد دیتا ہے
ایم آر ائی: ریڈیو ویوز اور طاقتور میگنیٹ سے دماغ کی تفصیلی تصاویر بناتا ہے۔ اس میں الزائمر سے متاثرہ دماغی حصوں کا سکڑاؤ ظاہر ہو سکتا ہے۔ یہ سی ٹی سکین کے مقابلے میں ترجیحی ٹیسٹ ہے
پی ای ٹی سکین
یہ دماغ میں بیماری کے عمل کی تصاویر لیتا ہے۔ اس میں کم سطح کا ریڈیو ایکٹیو مادہ خون میں داخل کیا جاتا ہے، جو دماغ کے کسی مخصوص پہلو کو دکھاتا ہے۔
پی ای ٹی امیجنگ کی اقسام
٭ ایف ڈی جی پی ای ٹی دماغ کے ان حصوں کو دکھاتا ہے جہاں غذائی اجزاء صحیح استعمال نہیں ہو رہے۔ یہ دیگر اقسام کے ڈیمینشیا سے فرق کرنے میں مدد دیتا ہے
٭ ایمیلوئیڈ پی ای ٹی دماغ میں ایمائلائیڈ پلاکس کی مقدار کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ عام طور پر تحقیق میں استعمال ہوتا ہے
٭ ٹاؤ پی ای ٹی دماغ میں نیوروفائبرلری ٹینگلز کی پیمائش کرتا ہے
بعض اوقات دماغ و ریڑھ کی ہڈی کے سیال میں ایمائلائیڈ اور ٹاؤ کی پیمائش بھی کی جاتی ہے، خاص طور پر جب علامات تیزی سے بگڑ رہی ہوں یا کم عمر میں ظاہر ہو رہی ہوں۔
مستقبل میں تشخیص کے ٹیسٹ
تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ بائیومارکر ٹیسٹ دماغی بیماری کی اندرونی، حیاتیاتی علامات کو جانچ سکتے ہیں۔ عام طور پر یہ ٹیسٹ اُس وقت کیے جاتے ہیں جب کسی شخص میں بیماری کی علامات ظاہر ہو چکی ہوں۔ انہیں دیگر ٹیسٹوں کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ ٹیسٹ بیماری کی علامات ظاہر ہونے سے پہلے بھی الزائمر کا پتا دے سکتے ہیں۔ تاہم ابھی تک انہیں عام طور پر اُن لوگوں پر استعمال نہیں کیا جاتا جن میں علامات موجود نہ ہوں۔ بعض جگہوں پر یہ آسانی سے میسر ہیں جبکہ بعض جگہوں پر ایسا نہیں۔
زیادہ تر افراد کے لیے جینیاتی (وراثتی) ٹیسٹ کروانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تاہم جن خاندانوں میں کم عمر میں الزائمر کی بیماری شروع ہونے کی ہسٹری موجود ہو، اُن کے لیے یہ ٹیسٹ مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسے کسی بھی جینیاتی ٹیسٹ سے پہلے کسی ماہر جینیات سے مشورہ لینا مفید ہے۔
علاج
الزائمر کا کوئی ایسا علاج نہیں جس سے بیماری ختم ہو سکے۔ تاہم، کچھ دوائیں علامات کو بہتر بنا سکتی ہیں یا سوچنے کی صلاحیت میں کمی کی رفتار کو سست کر سکتی ہیں۔کچھ دوائیں سوچنے اور روزمرہ کاموں کی صلاحیت میں کمی کی رفتار کو سست کرتی ہیں۔ یہ عام طور پر الزائمر کی ابتدائی حالت میں استعمال کی جاتی ہیں۔
دوائیں
الزائمر کی بیماری کی دوائیں یادداشت اور دیگر ذہنی صلاحیتوں میں مدد دے سکتی ہیں۔ ان میں دو اہم اقسام شامل ہیں:
کولین ایسٹریز انہیبیٹرز (Cholinesterase Inhibitors)
یہ دماغ میں ایک خاص کیمیکل (نیوروٹرانسمیٹر) کی مقدار کو برقرار رکھتی ہیں جو الزائمر کے مریضوں میں کم ہو جاتا ہے۔ اس سے یادداشت اور رویے کی علامات مثلاً بے چینی یا ڈپریشن میں کچھ بہتری آ سکتی ہے۔ ان کے ضمنی ااثرات میں دست (ڈائریا)، متلی، بھوک کی کمی، نیند میں خلل اوردل کے بعض مریضوں میں بے ترتیب دھڑکن شامل ہیں۔
میمانٹین (Memantine)
الزائمر کی بیماری میں استعمال ہونے والی یہ دوا علامات بگڑنے کی رفتار کو سست کر سکتی ہے۔ یہ اکثر اوپر دی گئی پہلی دوا کے ساتھ دی جاتی ہے۔ چکر آنا اور الجھن اس کے ضمنی اثرت ہیں۔
امائیلوئڈ پلاک بلاکرز
یہ دوائیں دماغ میں الزائمر کی وجہ بننے والے ایمیلوئیڈ پلاک کو بننے سے روکتی ہیں۔ یہ ان افراد کے لیے ہیں جن میں بیماری کی شروعات ہوئی ہو یا یادداشت کی کمی ہلکی ہو۔ ان کے کچھ خطرات بھی ہیں:
٭ دماغ میں سوجن یا معمولی خون رسنے کے واقعات
٭ شدید حالت میں دورے یا موت
٭ کچھ جین (APOE e4) رکھنے والے افراد میں خطرہ زیادہ
اگر آپ خون پتلا کرنے والی دوا استعمال کرتے ہیں یا دماغی خون بہنے کے خطرے سے دوچار ہیں تو یہ دوائیں لینے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ اگر مریض میں بے چینی، ڈپریشن یا نیند کے مسائل ہوں تو اینٹی ڈپریسنٹس بھی دیے جا سکتے ہیں۔
ماحول کو محفوظ اور مددگار بنانا
یہ اقدامات مریض کے لیے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں:
٭ روزانہ استعمال کی چیزیں (چابیاں، موبائل) ایک ہی جگہ رکھیں
٭ دواؤں کے لیے چیک لسٹ بنائیں
٭ مالی ادائیگیوں کے لیے اۤٹومیٹک سسٹم بنائیں
٭ مریض کے پاس جی پی ایس والا فون ہو تاکہ لوکیشن کا اندازہ ہو سکے
٭ دروازوں پر الارم لگوائیں
٭ گھر میں فرنیچر کم رکھیں
٭ سیڑھیوں اور باتھ روم میں ہینڈ ریلز لگائیں
٭ آئینے کم کریں تاکہ الجھن نہ ہو
٭ مریض کی جیب میں شناختی کارڈ رکھیں یا اسے میڈیکل بریسلٹ پہنائیں
٭ پہچان کے لیے گھر میں تصاویر یا بامعنی تحریروں کا انتظام کریں
متبادل طریقہ علاج
ہربل علاج، وٹامنز اور دیگر سپلیمنٹس کے بارے میں متعدد دعوے کیے جاتے ہیں کہ وہ الزائمر کی بیماری سے بچاتے یا اسے بڑھنے سے روکتے ہیں۔ کلینکل ٹرائلز نے اس پرمختلف نتائج دیے ہیں:
وٹامن ای
کہا جاتا ہے کہ روزانہ 2,000 یونٹس وٹامن ای لینے سے ہلکی یا درمیانی سطح کی بیماری کی علامات کی شدت کم ہو سکتی ہے۔ تاہم تحقیق میں معمولی فائدے ہی نظر آئے ہیں۔
اومیگا-3 فیٹی ایسڈز
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مچھلی یا سپلیمنٹس میں موجود اومیگا-3 فیٹی ایسڈز دماغی بیماری کے خطرے کو کم کر سکتے ہیں۔ تاہم، کلینکل ٹرائلز نے الزائمر کی علامات کے علاج میں کوئی فائدہ نہیں دکھایا۔
ہلدی
اس میں اینٹی انفلیمٹری اور اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات ہوتی ہیں جو دماغ میں کیمیائی عمل کو متاثر کر سکتی ہیں۔ اب تک کے کلینکل ٹرائلز میں الزائمر کے علاج میں اس کا کوئی فائدہ نہیں دیکھا گیا۔
گنکو
گنگو ایک پودے کا عرق ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ہیلتھ کی فنڈنگ سے کی گئی ایک بڑی تحقیق میں الزائمر کی بیماری کو روکنے میں اس کا کوئی اثر نہیں پایا گیا
میلاٹونین
یہ سپلیمنٹ نیند میں مدد دیتا ہے۔ اس بات پر سٹڈیز ہو رہی ہیں کہ کیا یہ ڈیمنشیا کے مریضوں کی نیند میں مددگار ہے یا نہیں۔ کچھ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میلاٹونین دماغی بیماری کے کچھ مریضوں کے موڈ پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
طرزِ زندگی اور گھریلو تدابیر
صحت مند طرزِ زندگی کا انتخاب مجموعی صحت کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔ یہ دماغی صحت کو برقرار رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
ورزش
باقاعدہ ورزش علاج کے پلان کا اہم حصہ ہے۔ روزانہ کی سیر جیسی سرگرمیاں موڈ کو بہتر بنا سکتی ہیں۔ الزائمر کے جن مریضوں کو چلنے میں دشواری ہو، وہ سٹِک استعمال کر سکتے ہیں۔ وہ لچکدار بیلٹ سے یا کرسی پر بیٹھ کر ورزش کر سکتے ہیں۔
غذاء کا خاص خیال رکھیں
الزائمر کے مریض کھانا بھول سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں کھانے میں دلچسپی نہ رہے یا وہ صحت بخش غذا نہ کھا سکیں۔ وہ مناسب مقدار میں پانی پینا بھی بھول سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کے جسم میں پانی کی کمی اور قبض ہو سکتی ہے۔
٭ ان کے لیے ان کی پسندیدہ غذائیں خریدیں جو کھانے میں آسان ہوں
٭ انہیں روزانہ کئی گلاس پانی پینے کی ترغیب دیں۔ کیفین والے مشروبات نہ دیں کیونکہ یہ بے چینی بڑھا سکتے ہیں، نیند پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور انہیں پیشاب زیادہ آئے گا
٭ زیادہ کیلوریز والے صحت بخش شیک اور سمودیز دیں۔ یہ اس وقت فائدہ مند ہو سکتا ہے جب ان کے لیے کھانا کھانا مشکل ہو جائے
سماجی تعلقات اور سرگرمیاں

سماجی سرگرمیاں محفوظ صلاحیتوں اور مہارتوں کو سپورٹ کرتی ہیں۔ ایسی سرگرمیاں کریں جو با معنی اور خوشگوار ہوں۔ ڈیمنشیا کے مریض کچھ اس طرح کی سرگرمیاں کر سکتے ہیں:
٭ موسیقی سننا
٭ کتابیں پڑھنا یا سننا
٭ باغبانی یا دستکاری کرنا
٭ سماجی تقریبات میں جانا
٭ بچوں کے ساتھ سرگرمیاں کرنا
مرض کا مقابلہ اور سپورٹ
الزائمر کے مریضوں میں الجھن، مایوسی، غصہ، غیر یقینی صورتحال، غم اور افسردگی کی علامات سامنے آتی ہیں۔ انہیں باور کرائیں کہ زندگی سے اب بھی لطف اندوز ہو جا سکتا ہے۔ مریض کو اپنے وقار اور عزت نفس کی حفاظت کرنے میں مدد دیں۔
پر سکون گھریلو ماحول رویے کے مسائل کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ نئی صورتحال، شور اور ہجوم اضطراب پیدا کر سکتے ہیں۔ چیزیں یاد رکھنے کے لیے دباؤ ڈالنا یا پیچیدہ کاموں کے لیے کہنا بھی انہیں بے چین کر سکتا ہے۔ جب الزائمر کا مریض پریشان ہو، تو اس کے لیے واضح طور پر سوچنا اور سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔
تیماردار اپنا خیال بھی رکھیں
الزائمر کے مریض کی دیکھ بھال بہت مشکل کام ہے۔ ایسی نگہداشت فراہم کرنے والوں میں غصہ، احساس گناہ، تناؤ، پریشانی، غم اور سماجی تنہائی کے جذبات عام ہیں۔ ان کی جسمانی صحت پر بھی منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ اگر آپ الزائمر کے مریض کی دیکھ بھال کر رہے ہیں، تو اپنے لیے یہ اقدامات کر سکتے ہیں:
٭ بیماری کے بارے میں جتنا ممکن ہو، معلومات حاصل کریں
٭ ماہرین صحت، سوشل ورکرز اور دیگر لوگوں سے سوالات پوچھیں
٭ بوقت ضرورت دوستوں یا فیملی ممبرز سے مدد طلب کریں
٭ ہر روز کچھ وقت کےلیے بریک ضرور لیں
٭ اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزاریں
٭ اپنی صحت کا خیال رکھیں، ڈاکٹر سے ملیں، صحت بخش خوراک کھائیں اور ورزش کریں
٭ سپورٹ گروپ جوائن کریں
الزائمر کے مریض اور ان کے خاندانوں کے لیے کاؤنسلنگ یا مقامی سپورٹ سروسز فائدہ مند ہو سکتی ہیں۔ اگر آپ کے علاقے میں الزائمر ایسوسی ایشن موجود ہو تو اس سے رابطہ کریں تاکہ سپورٹ گروپس، ہیلتھ کیئر پروفیشنلز، آکوپیشنل تھراپسٹس وغیرہ کے ساتھ باآسانی رابطہ ہو سکے۔
ڈاکٹر سے ملاقات کی تیاری
اگر آپ یادداشت کی کمی یا مرض کی علامات کے بارے میں فکر مند ہیں تو ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔ کسی دوست کی موجودگی آپ کی مدد کر سکتی ہے اور آپ کو سوالات کے جواب دینے میں بھی مدد دے سکتی ہے۔
اگر آپ کسی ایسے شخص کے ساتھ جا رہے ہیں جس کو یادداشت کے مسائل ہیں تو آپ کا کردار بہت اہم ہے۔ آپ ڈاکٹر کو مرض کی ہسٹری اور زندگی میں تبدیلیوں کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ آپ کا فیملی فزیشن آپ کو نیورولوجسٹ کے پاس بھیج سکتا ہے۔
آپ کیا کر سکتے ہیں
آپ اپنی ملاقات کی تیاری کے لیے یہ چیزیں لکھ لیں:
میڈیکل ہسٹری: اس میں سابقہ اور موجودہ تشخیص اور فیملی کی میڈیکل ہسٹری شامل ہو
میڈیکل ٹیم: موجودہ معالج، سائیکالوجسٹ یا نیورالوجسٹ کا نام، فون نمبر وغیرہ
ادویات: اس میں نسخے والی ادویات، بغیر نسخے والی ادویات، وٹامنز، ہربل یا دیگر سپلیمنٹس کی تفصیلات شامل ہوں
علامات: ان میں یادداشت یا سوچنے کی صلاحیتوں میں تبدیلیوں کی مخصوص مثالیں شامل ہوں
ڈاکٹر کے متوقع سوالات
ڈاکٹر آپ سے یہ سوالات کر سکتا ہے:
٭ آپ یادداشت کی کون سی علامات محسوس کر رہے ہیں؟ آپ نے سب سے پہلے کب انہیں نوٹس کیا؟
٭ کیا یہ مسلسل بگڑ رہی ہیں، یا کبھی بہتر بھی ہوتی ہیں؟
٭ کیا آپ نے بعض سرگرمیاں چھوڑ دی ہیں، جیسے پیسوں کا حساب کتاب رکھنا یا خریداری کرنا، کیونکہ یہ ذہنی طور پر بہت مشکل ہو گئی تھیں؟
٭ آپ کا موڈ کیسا ہے؟ کیا آپ پہلے سے زیادہ غمگین، پریشان یا بے چین ہیں؟
٭ کیا آپ حال ہی میں ایسی جگہوں پر بھٹک گئے تھے آپ کے لیے جانی پہچانی ہیں؟
٭ کیا کسی نے آپ کی ڈرائیونگ کے بارے میں غیر معمولی تشویش کا اظہار کیا ہے؟
٭ کیا آپ نے ردعمل ظاہر کرنے کے طریقے میں کوئی تبدیلی محسوس کی ہے؟
٭ کیا آپ پہلے سے زیادہ یا کم توانائی محسوس کر رہے ہیں یا وہی معمول کی توانائی ہے؟
٭ آپ کون سی ادویات لے رہے ہیں؟ کیا آپ کوئی وٹامن یا سپلیمنٹس لے رہے ہیں؟
٭ کیا آپ شراب پیتے ہیں؟ اگر ہاں تو کتنی مقدار میں؟
٭ کیا آپ نے حال ہی میں کپکپی یا چلنے میں مشکل محسوس کی ہے؟
٭ کیا آپ کو ڈاکٹر سے ملاقات یا میڈیسن لینے کا وقت یاد رکھنے میں مشکل پیش آتی ہے؟
٭ کیا آپ نے حال ہی میں اپنی سماعت یا نظر کے ٹیسٹ کرائے ہیں؟
٭ کیا آپ کی فیملی میں کسی اور کو بھی یادداشت کا مسئلہ ہوا ہے؟
٭ کیا فیملی میں کسی فرد کو ڈیمنشیا یا الزائمر کی بیماری ہوئی؟
٭ آپ جو کچھ خواب میں دیکھتے ہیں، کیا نیند میں اس کے مطابق کرتے بھی ہیں، جیسے لات مارنا یا چلانا وغیرہ
٭ کیا آپ نیند میں خراٹے لیتے ہیں؟
نوٹ: یہ مضمون قارئین کی معلومات کے لیے شائع کیا گیا ہے۔ صحت سے متعلق امور میں اپنے معالج کے مشورے پر عمل کریں۔
