پاکستان میں اعضاء عطیہ کرنے کا رجحان بہت ہی کم ہے۔ اس وجہ سے ٹرانسپلانٹ کے لیے ملک میں اعضاء کی قلت پائی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کمی کے باعث روزانہ 10 سے 15 افراد جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اعضاء عطیہ کرنے کے رجحان کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مزید برآں جانوروں سے انسانوں میں اعضاء کی منتقلی کے آپشن پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کراچی میں منعقدہ پہلی بین الاقوامی کانفرنس برائے ٹرانسپلانٹیشن میں کیا گیا۔
ماہرین نے ٹرانسپلانٹ کے لیے اعضاء کی قلت کو سنگین بحران قرار دیا۔ پاکستانی نژاد امریکی ماہر پیوند کاری پروفیسر ڈاکٹر محمد منصور محی الدین نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں ہر 80 منٹ بعد ایک مریض اعضاء کی کمی کے باعث انتقال کر جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جانور سے انسان میں اعضا کی منتقلی اس کا بہت اچھا حل ہے۔ اس سے انسانی عمر میں 20 سال تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ امید کی کرن ثابت ہو سکتا ہے۔ اس پر ابتدائی تجربات ناکام رہے تھے، تاہم جینیاتی تبدیلیوں میں ترقی کے بعد اب یہ ممکن ہوتا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق مذہبی اور اخلاقی رکاوٹیں اب بھی اس کی راہ میں حائل ہیں۔ اعضاء کا ایک ڈونر سات زندگیاں بچا سکتا ہے۔ اس لیے مرنے کے بعد اعضاء عطیہ کرنے کو فروغ دینا چاہیے۔
کانفرنس میں امریکہ، برطانیہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ سے 22 سے زائد ماہرین شریک ہوئے۔