انسان اور دیگر جانوروں میں بنیادی فرق سوچ کی سطح کا ہے۔ انسان سوچتا تو ہے لیکن اب سائنس نے سوچنے کی سپیڈ بھی معلوم کر لی ہے۔
انسانی حواس خمسہ ایک ارب بِٹس فی سیکنڈ کی شرح سے ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں۔ بِٹ ایک عام وائی فائی کنکشن کے ساتھ کمپیوٹنگ معلومات کی بنیادی اکائی ہے۔ اس میں تقریباً پانچ کروڑ بٹس فی سیکنڈ پروسیسنگ ہوتی ہے۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق انسانی دماغ ایک ارب بٹس میں سے صرف 10 بِٹ فی سیکنڈ کے حساب سے پروسیسنگ کرتا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق انسانی دماغ میں 85 ارب نیوران موجود ہیں۔ تاہم یہ خیالات کو تیز رفتاری سے پروسیس کرنے کے قابل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان ایک وقت میں بالعموم ایک سوچ پر توجہ مرکوز رکھ پاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دماغی عمل کی اس سست روی کا تعلق ابتدائی دور سے ہے۔ اس دور کے انسان کا دماغ زیادہ تر خوراک کے حصول اور خطرات سے بچاؤ کے لیے ہی استعمال ہوتا تھا۔
مذکورہ تحقیق سائنسی جریدے ’نیوران‘ میں شائع ہوئی ہے۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ دماغ کی یہ محدود رفتار مشینوں کو انسانوں کے برابر یا ان سے بہتر کارکردگی دکھانے کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔ سائنس نے سوچنے کی سپیڈ معلوم کر کے امکانات کے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ مستقبل میں سوچنے کی رفتار تیز ہو جانا بھی بعید از قیاس نہیں۔