ماہرینِ صحت کے مطابق ایچ آئی وی کی ابتدائی مراحل میں تشخیص اس پر قابو پانے میں مدد دیتی ہے۔ اگر اس کا بروقت علاج شروع کر دیا جائے تو وائرس کنٹرول میں رہتا ہے۔ دوسری صورت میں 8 سے 10 سالوں میں ایچ آئی وی پازیٹو ہونا ایڈز میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس لیے اس کی بروقت تشخیص انتہائی ضروری ہے۔
متعدی امراض کے ماہرین کے مطابق یہ بیماری متاثرہ فرد کو چھونے یا سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے نہیں پھیلتی۔ فرد ایچ آئی وی سے تب متاثر ہوتا ہے جب وائرس خون میں داخل ہو جائے۔ متاثرہ سرنجز کا دوبارہ استعمال، غیر محفوظ انتقال خون اور غیر محتاط جنسی تعلقات اس کے بڑے ذرائع ہیں۔ ماہرین صحت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کا وائرس مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوتا تاہم دواؤں سے اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اسے قابو میں رکھنے کے لیے عمر بھر دوائیں لینا ہوتی ہیں۔ حکومت متاثرہ افراد کو مفت ادویات فراہم کر رہی ہے۔
ایچ آئی وی پازیٹو شخص علاج کے ساتھ سماجی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ شادی بھی کر سکتا ہے۔ اگر ماں ایچ آئی وی پازیٹو ہو تو وہ دواؤں کے ساتھ بچے کو دودھ بھی پلا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ ایڈز جسم کے مدافعتی نظام کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے جسم بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔