پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 3 کروڑ 30 لاکھ ہے۔ اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے تقریباً 30 لاکھ پاکستانی پاؤں کے السر کے شکار ہیں۔ ان میں سے بعض زخم بگڑ بھی جاتے ہیں۔ ایسے میں بعض اوقات انہیں کاٹنے کی نوبت آ جاتی ہے۔ روزانہ تقریباً 35 افراد کسی عضو سے محروم ہو جاتے ہیں۔ سالانہ تقریباً 6 لاکھ افراد کے اعضاء کاٹنا پڑ جاتے ہیں۔ اس مرض کی وجہ سے 16 سے 20 فیصد مریضوں کی بینائی متاثر ہو رہی ہے۔ تقریباً 28 فیصد مریضوں کے گردے فیل ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ یہ اعداد و شمار کراچی یونیورسٹی میں منعقدہ ایک سیمینار میں پیش کیے گئے۔ ذیابیطس کے ماہر ڈاکٹر زاہد میاں نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے ذیابیطس کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر انیلا عنبر ملک کے مطابق اس مرض کا نفسیاتی اثر بھی ہوتا ہے۔ اس سے مریض اور اس کا خاندان، دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر اکمل وحید نے ذیابیطس کے موثر انتظام کو ایک "فن” قرار دیا۔ ان کے مطابق پیچیدگیوں سے بچانے کے لیے منظم طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔
ڈسکورنگ ڈایابیٹس پروجیکٹ کے عہدیدار رؤف امام نے بھی سیمینار سے خطاب کیا۔ ان کے مطابق ان کے اے آئی چیٹ بوٹ سے لاکھوں لوگوں کو فائدہ ہوا ہے۔ انہوں نے ذیابیطس سے نپٹنے کے لیے آگاہی، سستے علاج، اور احتیاطی تدابیر پر مشتمل جامع حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا۔
اگر ذیابیطس کی وجہ سے 30 لاکھ پاکستانی پاؤں کے السر کے شکار ہوں تو یہ تشویش ناک صورت حال ہے۔ ذیابیطس کے ساتھ پاؤں کی صحت کی سہولیات کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔