خواتین میں لیور ٹرانسپلانٹ کے بعد حمل ٹھہر سکتا ہے یا نہیں اور ٹھہر جائے تو کتنا محفوظ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کی گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شازیہ فخر تفصیلات فراہم کر رہی ہیں
کیا لیور ٹرانسپلانٹ کے بعد حمل ٹھہر سکتا ہے؟
آپ بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، تولیدی اعضاء کام کر رہے ہیں اور حیض باقاعدہ ہیں تو آپ ماں بن سکتی ہیں۔ ٹرانسپلانٹ کے بعد جب جگر صحیح طرح کام کرنے لگتا ہے تو عمومی کے ساتھ تولیدی صحت بھی بہتر ہوتی ہے۔
کیا یہ حمل محفوظ بھی ہوتا ہے؟
تحقیقات کے مطابق لیور ٹرانسپلانٹ کی وجہ سے ماں اور بچے کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔
کیا ان خواتین کی دیکھ بھال مختلف ہوتی ہے؟
ان کی دیکھ بھال عام حاملہ خواتین کے مقابلے میں تھوڑی زیادہ ہوتی ہے۔ گائنی کے علاوہ ایک دوسرا شعبہ (hepatobiliary) بھی ان کی طبی نگرانی کرتا ہے۔ اس میں ٹرانسپلانٹ سرجن، ماہر امراض معدہ اور دوسرے ڈاکٹر شامل ہوتے ہیں۔ یہ تمام لوگ سب معاملات دیکھتے ہیں اور بوقت ضرورت علاج کرتے ہیں۔
| اگر آپ بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، تولیدی اعضاء کام کر رہے ہیں اور حیض باقاعدہ ہیں تو آپ ماں بن سکتی ہیں |
پیوندکاری کے کتنے عرصے بعد حمل ٹھہرنا محفوظ ہے؟
زیادہ تر خواتین کو ٹرانسپلانٹ ٹیم کے ساتھ مل کر مناسب منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسم کو نئے جگر کو قبول کرنے، اپنا کام کرنے اور زخم کو مندمل ہونے میں کچھ عرصہ لگتا ہے۔ مدافعتی نظام جسم کو مختلف بیماریوں، سرطان اور انفیکشنز کے خلاف لڑنے میں مدد دیتا ہے۔
پیوندکاری کی صورت میں مریضوں کی قوت مدافعت کو ادویات سے کمزور کیا جاتا ہے۔ ان کی مقدار اور اوقات تبدیل نہ کیے جائیں تو پیدائشی نقائص اور قبل از وقت پیدائش کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ عموی طر پر کہہ سکتے ہیں کہ مسائل سے بچنے کے لیے ٹرانسپلانٹ کے دو سے تین سال بعد حمل ٹھہرنا محفوظ ہے۔
کیا اس صورت میں زچگی صرف آپریشن سے ہی ہو سکتی ہے؟
کوئی خاص پیچیدگی نہ ہو تو آپریشن کی ضرورت نہیں پڑتی اور نارمل ڈلیوری ہو سکتی ہے۔ میرے پاس دو سے تین خواتین کی مثالیں موجود ہیں جنہیں جگر کی پیوندکاری کے بعد نہ صرف صحت مند حمل ٹھہرا بلکہ زچگی بھی نارمل ہوئی۔
کیا ان خواتین کو عام حاملہ خواتین سے زیادہ پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں؟
یہ خواتین طویل المعیاد بیماری سے گزری ہوتی ہیں۔ ان میں حمل سے متعلق پیچیدگیاں مثلاً ذیابیطس، بلڈ پریشر، اسقاط حمل وغیرہ زیادہ دیکھنے میں آتی ہیں۔ تاہم ڈاکٹروں کی ٹیم ان کی دیکھ بھال کر رہی ہوتی ہے لہٰذا ہر مسئلے کا بر وقت علاج ہو جاتا ہے یا اسے قابو کر لیا جاتا ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق ان مریضوں کے بچوں کی زندہ رہنے کی امید 85 فیصد ہوتی ہے۔